حبیب شیخ
بھارت اور پاکستا ن کے اُن لاکھوں انسانوں کے نام جو آج 2018 میں بھی غلام ہیں
اس دورافتادہ گاؤں میں ہر طرف ایک جوش تھا، ولولہ تھا ۔ اب انگریز چلا جائے گا اور ایک نیا آزاد ملک پاکستان وجود میں آٔے گا ! دو زمیندار، کچھ کسان اور ایک اینٹیں بنانے والی بھٹّی، بس انہی پر یہ گاؤں مشتمل تھا ۔ اس گاؤں میں صرف بھٹّی کے مالک صادق اور ایک زمیندار کے گھر میں ریڈیو تھا۔ باقی لوگ جو مزدور یا کسان تھے ، دنیا کے حالات سے مکمّل بےآگاہ تھے لیکن انہیں بھی کسی نہ کسی طرح بھارت کی تقسیم کے بارے میں پتا چل گیا تھا ۔
گاؤں کے مرد شام میں چھوٹی چھوٹی ٹولیؤں میں بیٹھ کرحقّہ پیتے اور قیاس آرائیاں کرتے کہ یہ آزاد ملک ان کے لۓ کیا بہتری لائےگا ۔ کویتا بہت خوش تھی کہ وہ بھی آزاد ہو جائے گی ۔ اب اسے یقین تھا کہ یہ نیا ملک اسے بھی آزادی دلوائے گا ۔ کویتا کو کچھ دنوں بعد پتا چلا کہ یہ ملک وجود میں آ چکا ہے ، اس کا گاؤں اس نئے ملک میں ہے اور انگریز واپس چلے گئے ہیں ۔ وہ دن رات اپنی اور ماں کی آزادی کے خواب دیکھتی اور پھر اپنے آپ کو تسلّی دیتی کہ یہ محض کچھ دنوں کی بات ہے ۔
* * * * *
رفیق اور مریم اپنی ایک بیٹی کویتا کے ساتھ اس چھوٹے سے گاؤں میں رہتے تھے ۔ بھٹّی کے مالک صادق نے کویتا کے باپ رفیق کو ایک ہزار روپیہ قرض دیا تھا جو رفیق نے اپنی بڑی بیٹی عتیقہ کی شادی اور مکان کی مرمّت پر خرچ کر دیا ۔ رفیق ایک ان پڑھ غریب انسان تھا ۔ اس کو یہ بھی نہیں پتا تھا کہ قرض کی شرائط کیا ہیں اور سود مرکّب کس طرح غبارہ کی طرح پھولتا ہے ۔ وہ ہر ماہ کچھ روپے صادق کو لوٹاتا رہا مگر قرض بڑھتا چلاگیا ۔ جب اس نے صادق سے استفسار کیا تو اس کے منشی نے رفیق کو بتایا کہ وہ صرف بیس روپے ماہانہ ادا کرتا ہے ، اس سے تو سود کی ادائیگی بھی نہیں ہوتی اس لئے قرض کی رقم اب ہزار روپے سے بڑھ چکی ہے ۔
رفیق ایک کسان تھا اور بیس روپے بچانا بھی اس کے لئے جوۓ شیر لانے کے برابر تھا ۔ پھر ایک سال فصل خراب ہوگئی تو زمیندار کو اتنے کسانوں کی ضرورت نہیں تھی ۔ رفیق کی آمدنی اور کم ہو گئی اور اس کی بیوی مریم صادق کی بھٹّی میں کام کرنے لگ گئی ۔ رفیق اب بیمار رہنے لگا تھا۔ وہ دمہ کے مرض میں مبتلا تھا ۔ علاج کی کوئی سہولت نہیں تھی اور نہ ہی اس کے لئے پیسے تھے ۔ رفیق نے کچھ ٹوٹکوں کو آزمایا مگر تکلیف میں کوئی فرق نہیں پڑا ۔ ایک دن جب مریم کام پر گئی ہوئی تھی کویتا کھانا پلیٹ میں لے کر دوسرے کمرے میں گئی تو دیکھا کہ رفیق کے جسم میں کوئی جنبش نہیں تھی ۔ رفیق دنیا سے جا چکا تھا ۔
ادھر صادق کو پتا چلا کہ رفیق مر چکا ہے تو اس نے مریم کو بلایا اور بتایا کہ قرض اتارنے کے لئے اس کی بیٹی کویتا کو بھی بھٹّی میں مریم کے ساتھ پانچ سال کام کرنا پڑے گا ۔ مریم کے پاس کوئی اور راستہ نہیں تھا ۔ اورکویتا بھی بےبس تھی، مرجائے یا غلامی کا طوق پہن لے۔ وہ مر جانا چاہتی تھی لیکن اس کی ماں کا پھر کیا بنے گا! اگلے روز کویتا بھی کام پر آگئی ۔ سارا دن سخت مشقّت میں نکل جاتا ۔ کام ختم کرنے کا کوئی وقت مقرّر نہیں تھا ۔ اکثر دیر گئے سورج ڈھلنے کے بعد کام ختم ہوتا ۔ صادق کا منشی قرض کی رقم کاٹنے کے بعد روز ایک روپیٔہ مریم کو دیتا تھا جس میں کویتا کی اجرت بھی شامل تھی ۔ منشی نے مریم کو بتایا کہ کوئی پانچ برس کے بعد قرض ادا ہو جائے گا تب تلک انہیں روز یہیں کام کرنا ہوگا ۔ سال میں صرف دو عید کی چھٹّیاں ملیں گی۔
مریم اور کویتا اس غلامی میں تنہا نہیں تھیں ۔ بہت سی عورتیں، بچّے اور مرد بھی غلامی کی زندگی گزار رہے تھے ۔ کئی یتیم بچّے اور بیوہ عورتیں تو بھٹّی خانے کے اندر ہی رہتی تھیں ۔ ایک کمرہ یتیم بچّوں کے لئے اور ایک کمرہ بیوہ عورتوں کے لئے تھا ۔ یہ سب لوگ بھٹّی میں صبح سے لے کر رات تک ساتو ں دن کام کرتے اور پھر تھک ہار کر اپنے کمرے میں جا کر سو جاتے ۔ ان کی مزدوری کا معاوضہ کھانے کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا ۔
گاؤں کے چاروں اطراف صادق نے محافظ لگائے ہوئے تھے تا کہ کوئی مقروض گاؤں چھوڑ کر بھاگ نہ سکے۔ ایک دفعہ ایک مزدور نے جس کا نام بھولا تھا بھاگ نکلنے کی کوشش کی تو اس کو محافظوں نے بہت مارا پیٹا یہاں تک کہ وہ بری طرح زخمی ہو گیا اور پھر چند روز بعد مرا ہوا ملا۔ ایک افواہ یہ بھی گرم تھی کہ اس نے زہر کھا لیا تھا۔
کویتا اکثر سوچتی کہ قرض اُترنے تک وہ جوان بھی رہے گی یا نہیں ۔ بھٹّی کے کام سے اس کی خوبصورتی جاتی رہے گی، پھر اس سے کون شادی کرے گا ! مریم کو بھی بیٹی کی شادی کے بارے میں روگ لگا ہوا تھا ۔ دونوں اس بارے میں زبان سے کچھ نہ نکالتیں لیکن آنکھیں ایک دوسرے سے باتیں کر لیتیں ۔ اگر کبھی مریم یا کویتا بیمار ہو جاتی تب بھی وہ ناغہ نہ کرتیں کیونکہ اس طرح قرض اور دیر سے ادا ہو گا ۔ کویتا نے ابھی تک یہ نہیں دیکھا تھا کہ کسی کا قرض اتر گیا ہو اور وہ آزاد ہو گیا ہو ۔ ہاں ، کبھی کبھی ایسا ضرور ہوا تھا کہ کسی کا رشتہ دار آ یا اور وہ قرض اتار کر مقروض کو آزاد کروا کر ساتھ لے گیا ۔ کویتا سوچتی رہ جاتی کہ کون سا شہزادہ اس کے لئے آئے گا اور اس کو آزاد کرا کر لے جائے گا ۔
کویتا کو اس بات کا احساس تھا کہ ایک محافظ اسے پسند کرتا ہے۔ میانہ قد ، چوڑی پیشانی اور گھنی مونچھیں مگر کویتا اس سے آنکھ ملاتے ہوئے گھبراتی تھی کیونکہ وہ اُس کو عجیب للچاتی نظروں سے دیکھتا رہتا ۔ اس محافظ کو پسینہ اور مٹّی سے شرابور حالت میں بھی کویتا اچھی لگتی ۔ لیکن وہ اس سے خوف ہی کھاتی تھی ۔ وہ اکثر سوچتی کہ کاش اس کی جگہ کوئی اور محافظ ہوتا جس کو وہ پسند کرتی اور اس کے ساتھ اپنی ماں کو لے کر بھاگ جاتی۔
پھر ایک دن ایسا آیا کہ دو مرد بھٹّی کے مالک صادق سے ملنے آئے ۔ کچھ دیر بعد منشی نے کویتا اور دو کمسن لڑکیوں کو بلایا ۔ منشی نے بتایا کہ ایک فلاحی تنظیم کے دو کارکن آۓ ہیں اور وہ کچھ لوگوں کا قرضہ اتارنا چاہتے ہیں ۔ انہوں نے جو رقم دی ہے اس سے تم تین لڑکیوں کا قرض اتر جاتا ہے ۔ یہ لوگ ان تینوں کو گجرات لے جائیں گے اور وہاں ان کی رہایٔش اور شادی کا بندوبست کریں گے ۔ کویتا نے جب اپنی ماں کے بارے میں پوچھا تو منشی نے بتایا کہ مریم کو ابھی یہیں کام کرنا پڑے گا ۔ ابھی کچھ قرض باقی ہے جو دو سال میں اتر جائے گا ۔
کویتا نے بہت شور مچایا کہ وہ اپنی ماں کے بغیر کہیں نہیں جائے گی ۔ باقی د و بچّیوں نے بھی بہت آہ و بکاہ کی لیکن ان کی کچھ نہ چلی اور دونوں کو زبردستی ایک تانگہ میں سوار کرا دیا گیا ۔ ان دو بچّیوں کے بارے ميں کویتا نے بعد میں کبھی کچھ نہ سنا ۔ ایک دو عورتوں نے کویتا کو بتایا کہ شاید انہیں کسی چکلہ میں لے جا کر بیچ دیا گیا ہے۔ یہ سن کر کویتا کچھ دنوں تک خوشی خوشی گارا اٹھاتی رہی کہ وہ ان دو مردوں کے ساتھ جانے سے بچ گیٔ ۔ لیکن پھر دھوپ کی شدّت اور سخت گرمی نے اس خوشی کو آہستہ آہستہ پگھلا دیا ۔
کویتا اور مریم کے کئ سال اس بھٹّی کی جہنم میں گزر گئے ۔ وہ اپنی غلامی کی مدّت گن رہی تھیں ۔ دنوں کا حساب تو انہیں صحیح طرح سے نہیں آتا تھا لیکن انہیں یہ پتا تھا کہ یہ پانچ سال اگلے موسم بہار میں پورے ہو جائیں گے اور آخرکار وہ دونوں آزاد ہو جائیں گی ۔ کویتا کا جسم اس سوچ میں خوشی سے جھوم اٹھتا اور غلامی کا احسا س کچھ دیر کے لۓ ختم ہو جاتا۔ موسم بہار آیا تو مریم نے منشی کو بتایا کہ اب پانچ سال پورے ہو چکے ہیں اور قرض ادا ہو گیا ہو گا ۔ منشی نے کہا کہ کل وہ حساب کرنے کے بعد بتاۓ گا۔
مریم اور کویتا نےساری رات اسی کشمکش میں گزار دی کہ کل ان کی آزادی کا دن ہو گا یا شاید نہیں ! مریم سوچ رہی تھی کہ وہ کویتا کی شادی کا بندوبست کیسے کرے گی۔ بڑی بیٹی کی شادی کے لئے جو قرض لیا تھا اس کی ادائیگی میں کئ سال غلامی میں گزارنے پڑے ۔ ادھر کویتا صحن میں لیٹی ہوئی ستاروں کو گھور رہی تھی ۔ اس کو یہ سارے ستارے اپنے مقدّر کے ستارے لگ رہے تھے ۔ وہ بھی ایک دن دلہن بنے گی ۔ اور اس کا ایک شوہر ہو گا ۔ پھر کویتا زرا گھبرا جاتی کہ پتا نہیں وہ کیسا ہو گا اور اس کے گھر والے اس کے ساتھ کیا برتاؤ کریں گے ۔ امید و بیم کی یہی کشمکش اسے اکثر پریشان کرتی تھی۔
سورج کی پہلی کرن کے ساتھ ہی ماں اور بیٹی دونوں بستر سے اٹھ گیٔں۔ دونوں میں سے کسی نے یہ ظاہر نہیں کیا کہ وہ رات کو سو نہیں سکی ہے۔ مریم نے جلدی جلدی کھانا تیار کیا اور دونوں کھانا کھا کر بھٹّی کی طرف چل پڑیں ۔ بھٹّی جاتے ہوے راستہ میں پہلی بار کویتا نے کئی سالوں کے بعد پرندوں کی آوازوں اور لمبے لمبے درختوں کے حسن کو سراہا۔ آج اسے اپنا گاؤں کتنا خوبصورت لگ رہا تھا ! اُس نے غور سے اس درخت کو دیکھا جس کے سایہ میں وہ سخت گرمی کے دنوں میں کھیلتی تھی اور وہ دوسرا درخت جس پر وہ اور اس کی سہیلیاں جھولا جھولتی تھیں۔ اب وہاں تین لڑکیاں جھول رہی تھیں ۔ پھر اسے خیال آیا کہ یہ معصوم بچّیاں بھی شاید ایک دن بھٹّی میں جھونک دی جایٔں گی۔ ’جب وہ آزاد ہو جاۓ گی تو کبھی ان کو غلام نہیں بننے دے گی‘۔
کویتا کے قدم اور تیز ہوگئے۔ وہ اپنی ماں سے آگے نکل گئی ۔ اس کا ہر قدم اسے آزادی کے قریب لےجا رہا تھا ۔ اب وہ ایک آزاد ملک کی ایک آزاد شہری بننے والی تھی۔
منشی اپنے تخت پر موجود تھا ۔ اس نے اپنے گندے سے رجسٹر کا ایک صفحہ کھول کر مریم اور کویتا کے سامنے رکھ دیا اور بتایا کہ حساب کے مطابق ان دونوں کو قرض ادا کرنے کے لئے مزید دو سال بھٹّی میں محنت کرنا پڑے گی ۔ مریم یہ سن کر وہیں فرش پر گر پڑی ۔ کویتا نے اسے امّی امّی کہہ کر بہت ہلایا لیکن مریم اب بےجان ہو چکی تھی ۔ کویتا کے لۓ یہ سب ناقابل برداشت تھا۔ اس نے اپنی چادر میں سے چھپایا ہوا چاقو نکالا اور منشی کے پیٹ میں اتار دیا ۔ اس کی نشیلی آنکھوں میں خون اترا ہو ا تھا ۔ اس نے خون سے ٹپکتا ہوا چاقو باہر کھینچا اور صادق کے کمرے کی طرف بڑھی ۔ بھٹّی کے دوسرے کونے پر اسے تاڑنے والا محافظ یہ ماجرا دیکھ رہا تھا ۔ وہ بھاگتا ہوا کویتا کے پاس آیا اور تیزی سے بولا ’ اگر تم مجھ سے شادی کرو گی تو میں تمہیں ابھی یہاں سے بھگا کر لے جاؤں گا ورنہ مجھے تم کو اپنی بندوق سے گولی مارنا پڑے گی ۔ جلدی بتاؤ ۔ اس سے پہلے کوئی اور یہ سب کچھ نہ دیکھ لے ‘ ۔
کویتا نے چاقو ہاتھ سے چھوڑ دیا اور اب وہ محافظ کے ساتھ بھاگ رہی تھی ۔ گاؤں سے کچھ دور جا کر بھاگتے ہوئے اسے یہ خیال آرہا تھا کہ یہ اس کی آزادی ہے یا وہ زندگی کی کسی اور بھٹّی کی طرف دوڑ رہی ہے ! امیدوبیم کی وہی پرانی کشمکش ایک بار پھر اسے پریشان کرنے لگی ۔ ’پتا نہیں یہ شخص کیسا ثابت ہو گا اور اگر مجھے اپنے گھر لے بھی گیا تو اس کے گھر والے میرے ساتھ کیا برتاؤ کریں گے۔‘
پھر کوئی متبادل راستہ نہ پا کر اس نے سر جھٹک کر گویا مایوسی کو ردکیا اور چمکتے بلند ہوتے ہوئےسورج کی طرف مسکرا کر دیکھا اور اپنا سفر جاری رکھا۔۔۔روشنی کی طرف۔۔۔امید کی طرف ۔۔۔ آزادی کی طرف ۔۔۔
نوٹ: یہ کہانی ماہنامہ سوداگر، کراچی میں ‘آزادی‘ کے عنوان کے تحت دسمبر 2017 میں شائع ہوئی تھی۔