حبیب شیخ
بچپن کے دنوں کی بات ہے کہ گھر کے پاس ایک دکان تھی ۔ اس کا نام تھا اسلامی کتب خانہ جہاں اسلام اور اسلامی تاریخ کے بارے ميں کتابیں ملتی تھیں ۔ خیر یہ بات تو سمجھ میں آتی ہے ۔ کچھ آگے جا کر ایک اور دکان تھی جس کے باہر لکھا ہوا تھا اسلامی شفاخانہ ۔ ایک انتظار گاہ کے علاوہ باہر سے کچھ اور دکھائی نہیں دیتا تھا ۔ اس شفا خانے کے بارے میں کچھ تجسس تھا کہ یہاں کیا اور کس طرح سے علاج ہوتا ہے لیکن اس بارے میں کچھ پتا کرنے کی کوئی خاص کوشش نہیں کی ۔
جب معاشرے میں مذہبی رحجان بڑھ گیا تو ہر طرف اسلامی دکانیں کھل گئیں اور اشیاء کے نام بھی اسلامی ہو گئے ۔ مثلاً تقویٰ چاول ، حلال نمک، مکی شکر۔ تقویٰ چاول کافی عرصہ کھائے لیکن نفس کی خواہشات غالب رہیں ۔ کھانے کی اور پکانے کی مقدار تبدیل کر کے دیکھی ۔ کبھی میٹھے کبھی نمکین، کبھی کچے اور کبھی پکے، حیدرآبادی بریانی، سندھی بریانی، کھیر ، غرض ہر طرح سے یہ چاول پکائے اور خوب کھائے لیکن کوئی روحانی فائدہ تو نہیں ہوا ہاں البتہ جسمانی فائدہ وزن بڑھنے کی صورت میں ضرور ہوا ۔ ایک صاحب نے مکہ پرچون کی دکان کھولی تو سوچا کہ مکے سے آئی ہوئی چیزیں استعمال کرنے سے اعمال کی اصلاح ہو جائے گی ۔ لیکن وہاں ہر جگہ کی شے موجود تھی ماسوائے کوئی چیز جو مکے سے آئی ہو۔
کچھ دنوں کے بعد ایک اشتہار دیکھا اسلامی ٹریول ایجنسی کا۔ خیال آیا کہ شاید اس کے ذریعے سفر کرنے سے ایمان تازہ ہو جائے ۔ غور سے دیکھا تو ایک پیکیج یونان اور اٹلی کی سیاحت کے لئے بھی تھا ۔ معلومات میں اضافہ ہوا کہ یہ بھی مسلمانوں کے ملک ہیں ۔
جب اور زیادہ باریک بینی کی عادت پڑ گئی تو ہر چیز کو جانچنا شروع کر دیا کی یہ اسلامی ہے یا غیر اسلامی ۔ پتا چلا کہ تقریباً ہر چیز ہی غیر اسلامی ہے یعنی غیر مسلمانوں کے ہاتھوں کی بنی ہوئی ہے ۔ حتّیٰ کہ مسجدوں میں بھی مائیکروفون ، ساونڈ سسٹم، قالین ، پانی کے نلکے ، پا ئپ سب ہی غیر اسلامی چیزیں ہیں جن کا ہم استعمال کرتے ہیں اور پھر ہر نماز کے بعد انہی غیر اسلامی چیزوں کے ذریعے کئی مسجدوں میں غیر مسلمانوں کے خلاف دعا بھی مانگی جاتی ہے۔
اسی تجسس میں جب اپنے قلم کو دیکھا تو وہ چین کا بنا ہوا اور کاغذ کنیڈا کا۔ تو گویا یہ تحریر بھی غیر اسلامی ہی ٹھہری۔
♦
3 Comments