افغان طالبان کی قیادت نے کہا ہے کہ جب تک افغانستان پر ’غیر ملکی فوجی قبضہ‘ جاری رہے گا، تب تک جنگ بھی جاری رہے گی۔ یہ بات افغان طالبان کے رہنما مولوی ہیبت اللہ اخونزادہ نے عیدالاضحیٰ سے قبل اپنے ایک بیان میں کہی ہے۔
افغان دارالحکومت کابل سے ہفتہ اٹھارہ اگست کو موصولہ نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں کے مطابق طالبان کے رہنما ہیبت اللہ اخونزادہ نے اگلے ہفتے منائے جانے والے مسلمانوں کے مذہبی تہوار عیدالاضحیٰ کی مناسبت سے اس تہوار سے قبل جاری کردہ اپنے ایک بیان میں کہا کہ ہندوکش کی اس ریاست میں تب تک امن قائم نہیں ہو سکتا جب تک وہاں غیر ملکی فوجی دستے موجود رہیں گے۔
اخونزادہ نے اپنے بیان میں افغانستان پر ’غیر ملکی فوجی قبضے‘ کی اصطلاح استعمال کی۔ افغانستان میں غیر ملکی فوجی دستے، جن میں اکثریت امریکی فوجیوں کی ہے، کابل حکومت کی رضامندی سے ہی اس ملک میں تعینات ہیں۔ لیکن طالبان عسکریت پسند، جن کا مطالبہ ہے کہ تمام غیر افغان فوجی اس ملک سے نکل جائیں، ان دستوں کی وہاں موجودگی کو ’غیر ملکی فوجی قبضے‘ کا نام دیتے ہیں۔
افغان طالبان ماضی میں بھی کئی مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ وہ امریکا کے ساتھ براہ راست مذاکرات کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن امریکا کی طرف سے یہ پیشکش قبول کرنے سے انکار کیا جاتا ہے۔ اس پس منظر میں طالبان کے سربراہ مولوی ہیبت اللہ اخونزادہ نے اپنے بیان میں کہا، ’’جب تک غیر ملکی فوجی قبضہ جاری رہے گا، افغانستان میں امن قائم نہیں ہو سکتا‘‘۔
نیوز ایجنسی اے پی نے لکھا ہے کہ اپنے اسی بیان میں اخونزادہ نے مزید کہا کہ ہندوکش کی اس ریاست میں جنگ صرف اسی صورت میں ختم ہو سکتی ہے، جب طالبان اور امریکا کے مابین براہ راست بات چیت ہو گی۔ ساتھ ہی طالبان کے رہنما نے یہ بھی کہا کہ طالبان ابھی تک اپنے نام نہاد ’اسلامی مقاصد‘ کے حصول کا تہیہ کیے ہوئے ہیں۔
ان ’اسلامی مقاصد‘ سے مراد طالبان عسکریت پسندوں کے رہنماؤں کا وہی مطالبہ ہے، جو وہ گزشتہ قریب 17 برسوں سے دوہراتے چلے آ رہے ہیں، یعنی ’جنگ کا خاتمہ اور افغانستان کی ریاستی خود مختاری کی بحالی‘۔
کچھ مبصرین کے مطابق اسلامی مقاصد کا مطلب افغانستان میں شریعت کا نفاذ ہے، جس کی پاکستان کی فوجی اشرافیہ بھی حمایت کرتی ہے۔
کابل حکومت اور غیر ملکی فوجی دستوں کی مخالفت اور ان کے اہم اہداف پر بار بار حملے کرنے والے طالبان عسکریت پسندوں نے گزشتہ چند ہفتوں میں اپنے حملے کافی تیز اور زیادہ ہلاکت خیز کر دیے ہیں۔ اسی مہینے کے اوائل میں افغان صوبے غزنی پر سینکڑوں طالبان کے ایک بڑے حملے میں، جو کئی دنوں تک جاری رہا تھا، کئی سو افراد مارے گئے تھے۔ ان ہلاک شدگان میں درجنوں عام شہریوں کے علاوہ قریب 200 طالبان حملہ آور اور 100 کے قریب افغان سکیورٹی اہلکار بھی شامل تھے۔
غزنی پر حملے کے علاوہ طالبان نے گزشتہ دنوں میں صوبے فریاب میں بھی ایک بڑا ہلاکت خیز حملہ کیا تھا اور اس کے علاوہ ملکی دارالحکومت کابل میں بھی بڑے حملے کیے گئے تھے، جن میں درجنوں افراد مارے گئے تھے۔
غزنی حملے کے بعد لاشوں کی ایک بڑی تعداد پاکستان واپس آئی ہے یہ لاشیں ان پاکستانیوں کی ہیں جو طالبان کے ساتھ لڑ رہے تھے جن کو پاکستان کی فوجی ایسٹیبشلمنٹ کی حمایت حاصل تھی ۔سوشل میڈیا پر احتجاج کے بعد آئی ایس پی آر نے بیان جاری کیا جس کے مطابق آرمی چیف کا کہنا ہے کہ یہ وہ غریب مزدور تھے جو افغانستان مزدوری کرنے گئے تھے۔
DW/News Desk