شہری ماؤ نواز یا اربن نکسل کون ہیں؟

بھارتی ریاست مہاراشٹر کی پولیس نے ملک گیر سطح پر بائیں بازو کے کارکنوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا ہے۔ ان پر الزام ہے کہ یہ غیرقانونی دیے گئے ماؤ نواز نکسل مسلح گروپوں کے حامی اور مددگار ہیں۔

اس وقت بھارت کے ٹیلی وژن چینلوں، اخبارات اور سوشل میڈیا پر ’اربن نکسل‘ کی ایک ترکیب بحث و تمحیص کا حصہ ہے۔ اس کو زیر بحث لانے کی وجہ رواں ہفتے کے دوران مہاراشٹر پولیس کے وہ چھاپے ہیں جن میں بائیں بازو کے پانچ اہم ماؤ نواز کارکنوں کو حراست میں لیا گیا۔ ان پر الزام عائد کیا گیا کہ وہ کالعدم ماؤ نواز نکسل تحریک کے ساتھ رابطے رکھنے کے علاوہ شہروں میں اس تحریک کے فروغ میں مصروف ہیں۔

بائیں بازو کے ان سرکردہ کارکنوں کو نئی دہلی، فرید آباد، حیدرآباد، ممبئی اور اس کے نواحی شہر تھانے سے گرفتار کیا گیا۔ ان میں ممتاز شاعر واراوار راؤ، شہری حقوق کی سرگرم کارکن سُدھا بھردواج، صحافی گوتم نولکھا، وکیل ورنن گونزالویز اور انسانی حقوق کے ورکر ارون فریرا شامل ہیں۔ ان افراد کو شہری نکسل تحریک یا ’اربن نکسلز‘ کے نمائندہ کارکن قرار دیا گیا ہے۔

یہ گزفتاریاں اِس تناظر میں کی گئیں کہ یہ پانچوں ماؤ نواز ورکرز مختلف شہروں میں عوامی جلسوں کے منتظمین کے ساتھ شامل تھے اور یہی جلسے بعد میں ذات پات کی بنیاد پر شروع ہونے والے پرتشدد ہنگاموں کا باعث بنے۔ پولیس کے مطابق خاص طور پر پُونے شہر کے بھیم کورے گاؤں کے پرتشدد فساد بھی انہی جلسوں کا شاخسانہ تھے۔

اِن گرفتاریوں کے درست و جائز قرار دینے کے حوالے سے مہاراشٹر پولیس نے ملکی وزیراعظم نریندر مودی کو ایک خط بھی ارسال کیا اور اُس میں وضاحت کی گئی کہ یہ پانچ بائیں بازو کے دانشور اور کارکن، شہروں میں ماؤ نوازی کے فروغ میں مصروف رہے ہیں۔ ان کی کاوش ہے کہ ڈھلتی عمر کی قیادت کی جگہ ایک نئی باشعور اور متحرک قیادت سامنے لائی جائے۔

بھارت کے سکیورٹی اداروں میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) کی اُس پالیسی پر خاص فوکس ہے، جس کے تحت شہروں کی ورکنگ کلاس میں حقوق کے حوالے سے حساسیت پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ نئی قیادت کے حصول اور پارٹی فنڈ جمع کرنا بھی ہے۔ یہ بھی خیال کیا گیا ہے کہ شہری تحریک سے زیرزمین سرگرمیوں کو تقویت دینا بھی مقصود ہے۔

اس مناسبت سے  کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) کی سن 2004 میں مرتب کی گئی ایک دستاویز ’اربن پرسپیکٹیو‘ کو بھارتی سکیورٹی ادارے خاص طور پر اہم قرار دے رہے ہیں۔ اسی دستاویز میں تمام سیکولر حلقوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنا ہے اور ان حلقوں کی صفوں میں ریاستی اور اقلیتی آبادی کے جبر و تعصب کی شکار مذہبی اقلیتوں کو بھی ساتھ ملانا شامل ہے۔ دستاویز کے مطابق اس وسیع تر اتحاد سے ہی ’ہندو فاشزم فورسز‘ کا مقابلہ ممکن ہو گا۔

DW

Comments are closed.