منیر سامی
گزشتہ ہفتہ نوبل انعام یافتہ مصنف ، وی ایس نائیپال ؔ کا انتقال ہو گیا۔ نائپال کا پورا نام Vidiadhar Surajprad Naipaul تھا۔ وہ جزائر غرب الہند ، یا ویسٹ انڈیز کی ریاست ٹرینیڈا ڈؔ میں پیدا ہوئے تھے ۔ ان کے دادا ، نو آبادیاتی زمانے میں ہندوستا ن سے ان مزدور وں کے ساتھ ٹرینیڈاڈ لائے گئے تھے جن سے شکر کی صنعت میں مزدوری کروائی جاتی تھی۔ وی ایس نائیپال نے ایک جگہ لکھا تھا کہ مجھے اپنے والد کے خاندان والوں کے بارے میں زیادہ معلوم نہیں لیکن شاید ان کا تعلق نیپال سے بھی تھا۔
نائیپا ل کے والد سی پرشاد، ؔ ایک صحافی تھے اور نائیپا ل کی زندگی پر ان کا گہرا اثر تھا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ نائپال کا مشہورِ زمانہ ناول A House for Mr.Biswas ان کے والد ہی کے جیسے افسانوی کردار پر مبنی ہے۔
نائیپا ل نے تیس سے زیادہ کتابیں تحریر کیں۔ جن میں ناول، افسانوں کے مجموعے، اور مضامین کے مجموعے شامل ہیں۔ انہیں سنہ 2001 میں ادب کا نوبل انعام دیا گیا، اور اس سے پہلے انہیں سنہ 1971 میں ادب کا اہم انعام مان بکر ؔ انعام بھی دیا گیا تھا۔
نائپال کی تحریریں انسانوں کی زندگی پر نو آبادیاتی اثرات پر مبنی ہیں۔ وہ نو عمری میں ایک اسکالر شپ پر انگلستان چلے گئے تھے، اور ان کی زیادہ تر عمر سابق نو آبادیو ں کے سفر میں گزری، اور وہ اس پس منظر میں اپنی کہانیاں ، ناول ، اور مضامین لکھتے رہے تھے۔ ان کی نثر انگریزی زبان کا اعلیٰ ترین نمونہ سمجھی جاتی ہے۔ انہوں نے اپنے افسانوں میں نوآبادیوں کے شہریوں کے دکھ درد، اور احساس کو سمویا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنے مضامین میں سابقہ نو آبادیوں کے حالات کو تمام تر داغوں اور پھوڑے پھنسیوں کے ساتھ نہایت سفاکی سے بیان کیا ہے۔ نائیپال کی ادبی اور فنی مہارت کے بارے میں نقادوں نے ان کا تقابل بڑے عالمی ادیبوں سے کیا جن میں ٹولسٹائی ؔ Tolstoy ، چارلس ڈِکِنس Dickens اور جوزف کونریڈ ؔ Conrad جیسے اہم لکھنے والے شامل ہیں۔ خود نائپال نے اپنی تحریر وں پر کونریڈؔ کے اثر کا اقرار کیا ہے ، لیکن بعد میں خود کو کونریڈ سے بہتر قرار دینے لگے۔
ان کی تحریوں میں اعلیٰ ترین زبان اور ادب کا ان کے ہم عصر لکھنے والوں نے اعتراف کیا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ انہیں بڑے اور باا ثر نقادو ں اور ادیبوں کی مخالفت کابھی سامنا کرنا پڑا۔ ممتاز دانشور ایڈورڈ سعیدؔ ان کے مخالف نقادوں میں شامل تھے ۔ جن کا خیال تھا کہ نائپال ؔ نو آبادیاتی نظام کے نمائندہ بن گئے تھے اور وہ نوآبادی نظام کے تحت پسے ہوئے انسانوں کو تحقیر کی نظر سے دیکھتے تھے۔
ایڈورڈسعید ؔ کو نائپال کی اہم کتاب Among the Believers پر سخت اعتراض تھا۔ اس کتاب میں نائیپال نے ایران، پاکستان، انڈونیشیا، اور ملیشیا ، کے سفر کے دوران اپنے مشاہدات تحریر کیئے تھے ۔ ان کے نزدیک ان ممالک اور ان جیسے اسلامی ملکوں کے شہری خود ہی اپنی زبوں حالی کے ذمہ دار ہیں، اور یہ کہ ان کی حالت نو آبادیاتی زمانے میں کہیں زیادہ بہتر تھی۔ یہاں یہ بھی یاد رہنا چاہیئے کہ نائپال نے تیسری دنیا میں آزادی کی تحریکوں کو بارہا تحقیر کی نظر سے دیکھا اور ان کا مضحکہ اڑایا۔
ان کے دیگر عالمی نقادوں میں دنیا کے معروف دانشور شامل ہیں۔ جن میں ویسٹ انڈیز ہی سے نوبل انعام یافتہ ڈیرِک والکوٹ Walcott ، افریقہ سے نوبل انعام یافتہ چِنوا اچھیبے ، Chinua Achebe ، اقبال ؔاحمد ، سلمان رشدی، اور کینیڈا کے پروفیسر الوکؔ مکرجی کےنام مدد گار ہیں۔ ان سب کی رائے تھی کہ نائپال اپنی تحریریں بالخصوص مغربی قارئین کے لیے لکھتے تھے، اور انہیں ہندوستان ، اسلام ، افریقہ اور تیسری دنیا کا وہ رخ دکھانے چاہتےتھےجو یہ قارئین دیکھنا پسند کرتے تھے۔
Achebe نے کہا کہ “میں نائپال کے فن کی قدر کرتا ہوں، لیکن ساتھ ہی مجھے اس پر افسوس بھی ہوتا ہے۔ وہ ایک بہت ہی عمدہ مصنف ہے لیکن اس نے خود کو مغرب کے لیئے بیچ دیا ہے۔ ۔۔۔ وہ ایک ایسا پنساری تھا جو انہیں ایسی اسطورہ یا مقبول تصورات پیش کرتا تھا جو اہلِ مغرب کو سکون دے سکیں۔“
Walcott نائیپال پر طنز کرتے ہوئے ، اسے Naipaul کے بجائے Nightfall کہتا تھا۔ نائپال کے بارے میں والکوٹ ؔ کا ایک مشہور جملہ اس طرح سے ہے، “اس کو بہترین نثر لکھنے پر ملکہ حاصل تھا لیکن ‘ مرضِ خنازیر ، یا کنٹھ مالا اس کی تحریر کو داغدار کرتے تھے۔ اور یہ کنٹھ مالا دراصل نو آبادیاتی ذہنیت تھی۔‘
ممتاز دانشور اقبالؔ احمد نے اپنے ایک اہم انٹرویو میں نائپالؔ کے بارے میں رائے دیتے ہوئے کہا کہ ” وہ ایسے خیالی عفریتوں کے سحر میں ہے جو فرضی اور خود اس کے اپنے تخلیق کردہ ہیں۔ ان میں کوئی بھی حقیقی نہیں ہے۔ وہ بائیں بازو کی فکر سے نفرت میں مبتلا ہے۔ جب بھی اسے ایسے خیالی عفریتوں کا سامنا ہوتا ہے ، چاہے اس کے بیانیہ میں اس کا تناظر نہ بھی ہو وہ فوراً ان سے نفرت، خوف، اور گھِن میں قے کرنے لگتا ہے“۔
اپنے اس انٹرویو میں اقبال احمد نے نائپال کی کتاب Among the Believers کے ایک مفروضہ کردار ْشہباز ‘ کا بھی ذکر کیا ہےجو ان کے نزدیک پاکستان کے ممتاز صحافی احمد رشید کا مضحکہ خیز خاکہ ہے۔ انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ” اس کتاب میں نائیپالؔ نے پاکستان کا وہ رخ پیش کیا ہے جو پاکستان کو جنرل ضیا کے اسلامی نظریات کو مکمل طور پر قبول کرنے والا ایک ملک دکھاتا ہے۔ لیکن اسے وہ ہزاروں مزاحمت کار، عمل پرست، اور دانشور نظر نہیں آتے جو جنرل ضیا کے خلاف مزاحمت میں موت، قیدو بند ، اور ظلم و ستم کا سامنا کر رہے تھے۔“
کینیڈا کے پروفیسر اور انسانی حقوق کے معروف عمل پرست الوکؔ مکر جی نایئپالؔ سے اس حد تک مایوس ہو گئے تھے کہ انہوں نے ان کی اہم کتب مثلاًA House for Mr. Biswas, Miguel Street, اور Area of Darkness کو شروع میں پسند کرنے کے باوجود نائپالؔ سے دل اٹھا لیا تھا۔ اس کی وجہ شاید نائپال کے رویہ میں وہ ابہام تھا جو نائپال کی مغربی اقدار کی پسندیدگی، اور خود اپنے وطن کو ناپسند کرنے کے بارے میں واضح نہیں تھا۔
الوک مکر جی نے نائپال کی کتاب Area of Darkness میں آزادی کے بعد کے بھارت پر ایک مجمل اور کٹیلی تنقید محسوس کی جو بھارت میں ہندوتوا کے فروغ کی پیش گوئی بھی کرتی تھی۔ لیکن بعد میں نائپال ایک ایسے ہندو قوم پرست کے طور پر سامنے آئے جو نہ صرف مسلم مخالف تھا بلکہ پریشان کُن حد تک خود ہندوتوا کا، پرچارک ہو گیا تھا۔
شاید نائپال کے لیئ جدید بھارت ان کے تخیل کا مثالی ہندو بھارت نہیں تھا، اگر ایسا مثالی بھارت کبھی تھا بھی؟ جن عوامل نے الوک ؔ مکر جی کو نائپال سے ہمیشہ کے لیئے دور کر دیا تھا وہ نائپال کا مسموم اور نفرت انگیز رویہ تھا جو انہیں ایک بنیاد پرست اور متعصب قوم پرست بناتا تھا۔ الوکؔ مکر جی کو نائپال کے خواتین کے خلاف سخت تعصب اور خواتین پر زیادتیوں نے بھی نالاں کیا۔ یو ں الوکؔ مکر جی نے محسوس کیا کہ انہیں نائپال کے بجائے ان ادیبو ں پر توجہہ دینا چاہیے جو توجہہ کا استحقاق رکھتے ہیں۔
یہ سب دانشور نائپال کی مخالفت صرف بغضِ معاویہ میں نہیں کر رہے تھے۔ بلکہ ان کی تنقید خود نائپال کی ان تحریروں کی بنیاد پر تھی جن کی چند مثالیں یہاں پیش ہیں:
‘ ہندوستانی ایک چور قوم ہیں۔ گاندھیؔ جاہلِ مطلق اور دانش سے عاری تھا۔ آج کے لیے اس کا کوئی پیغا م نہیں ہے۔ ۔۔میں ہندوستانیوں کے لیئے نہیں لکھتا۔ وہ ویسے ہی کب پڑھتے ہیں۔۔۔میرا کام صرف ایک آزاد خیال مغربی ملک ہی میں ہو سکتا ہے۔ ” وہ ہندوستان کو ایک تاریک خطہ اور ایک زخمی تہذیب کہتا تھا۔ اسی طرح وہ افریقہ کو بھی ایک تاریک اور قابلِ رحم حالت کا شکار خطہ قرار دیتا تھا۔
بھارت میں بابری مسجد کے توڑے جانے پر اس نے اسے تاریخ کی درستگی کا عمل اور معمولی اشتعال قرار دیا۔ سلمان رشدیؔ نے گجرات کے قتلِ عام کے بارے نائپال کے رویے کے بارے میں شدید تنقید کی تھی اور لکھا تھا کہ، نائپال کا نوبل انعام واپس لے لینا چاہیے۔ اور یہ بھی کہا تھا وہ اس رویے میں فاشسٹوں کا ہم قدم ہے اور اس طرح نوبل انعام کی توہین کا مرتکب ہے۔
بھارت کے ممتاز دانشور اور ڈرامہ نویس گریش کرناڈ نے بھی بھارتی مسلمانوں کے بارے میں نائپال کے خیالات پر سخت تنقید کی ہے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے اس طرح لکھا ہے کہ” نائیپال نے بھارت کے بارے میں اپنی تین کتابوں میں بھارت کی موسیقی کا بالکل ذکر نہیں کیا۔ جب کہ موسیقی ہمارے وجود کی تصدیق کرتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نائپال نے ہمارے اس اہم ثقافتی عنصر کی طرف سے کسی بہرے شاہد کی طرح اپنے کان بند کر رکھے ہیں۔ “
دنیا کے بڑے فنکاروں کی طرح نائپالؔ بھی اپنے منفرد مزاج یا اپنی Idiosyncracy کے لیے بھی مشہور ہیں۔ انہیں ان کے بعض رویوں کی وجہہ سے صنفِ نازک کے ساتھ زیادتی کرنے والا بھی سمجھا جاتا ہے۔ اس کی ایک اہم وجہہ ان کا اپنی پہلی بیوی Patricia کے ساتھ غیر ہمدردانہ رویہ تھا۔ ان کے ساتھ پہلے پہل تو نائپال کے رومانوی تعلقات تھے ، جو بعد میں سرد مہری میں تبدیل ہو گئے۔پیٹریشیا ؔ آخر میں کنسر کی مریض ہو گئی تھیں ۔ نائپال نے اس دورا ن ایک اور خاتون مارگریٹ ؔ کے ساتھ تعلق قایم کر لیے۔انہوں نے ایک بار مارگریٹ پر تشدد کا بھی حال لکھا۔ اس کے ساتھ ساتھ نائپال نے یہ بھی اقرار کیا کہ وہ پیٹریشیا سے شادی کے اولین زمانے ہی میں طوائفوں کے پاس بھی جانے لگے۔
بعد میں نائپال کے ساتھ مارگریٹ کا تعلق ختم ہو گیا۔ پھر ان کی پہلی بیوی کا انتقال ہو گیا۔ نائپال نے خود لکھا ہے کہ وہ شاید خود اپنی بیوی کی جلد موت کے ذمہ دار تھے۔ پیٹریشیا کے انتقال کے دو ہی ماہ کے بعد نائپال نے پاکستانی اشرافیہ سے تعلق رکھنے والی صحافی نادرہؔ علوی سے شادی کر لی جو نائپال کے انتقال تک قائم تھی۔ نائپال، نادرہ پر اپنے آخری زمانے میں بہت زیادہ انحصار کرتے تھے۔ نادرہ ان سے عمر میں کم از کم پچیس سال چھوٹی تھیں۔
حال ہی میں معروف جریدے “ٹائم ” میں چنائے سے تعلق رکھنے والی بھارتی نژاد شاعرہ، مترجم ، اور ناول نگار ، میناؔ کنڈاسامی Meena Kandasamy کی نائپال ؔ کے بارے میں ایک رائے شائع ہوئی ہے جو قابلِ توجہ ہے۔ وہ اس طرح لکھتی ہیں کہ، ” ماہرِ نفسیات اور انقلابی نظریہ ساز فرانس فانوں ؔ Frantz Fanon نے لکھا تھا کہ ‘ نو آ بادیاتی نظام کے شکاروں کی اولین امنگ نو آبادکاروں کی مشابہت اختیار کرنا ہوتی ہے، اس حد تک کہ وہ ان میں ضم ہو جایئں۔‘ یہی نائپال ؔ کا کثیر الجہت المیہ تھا کہ وہ وحشیانہ حد تک ایسی آرا کے انبار لگانے لگا ، کہ جو اکثر نسل پرستانہ تعصب کی حدوں کو چھونے لگتی تھیں۔ وہ یہ شایداس لیے کرتا تھا کہ وہ انگریزی زبان کے لکھنے والوں کی اشرافیہ میں شامل ہونے اور اس قانونِ ادب کے دروازو ں میں داخل ہونا چاہتا تھا جس کی نگہبانی سفید فام ادبی اشرافیہ کر رہی تھی۔ ایسا کرنے کے لیئے اس پر لازم تھا کہ وہ اپنے افسانوی اور غیر افسانوی ادب میں خود سے اور اپنوں سے پر شکوہ نفرت کا اظہار کرے۔ اور یو ں مکمل طور پر نو آبادی نظام کا غلام نظر آئے۔“
نائپال کے مزاج کی اہم خصوصیت ایک ہی وقت میں ان کی لطافت اور درشت مزاجی تھی۔ اس کے نتیجہ میں ان کی اپنے اہم ہم عصروں سے مخاصمانہ حد تک معاصرانہ چشمک بھی ہوئی۔ ان میں ویسٹ انڈیز ہی کے نوبل انعام یافتہ شاعر ڈیریکؔ والکوٹ بھی شامل ہیں۔ نائپال اس بات پر بھی ناخوش تھے کہ والکوٹ کو ان سے پہلے نوبل انعام مل گیا تھا۔ والکوٹ نے نائپال کے خلاف Mongoose یا نیولا کے عنوان سے ایک ہجویانہ نظم بھی لکھی جو ساری دنیا میں مشہور ہوئی۔ یہ نظم ایک مضمون کے جواب میں لکھی گئی تھی جو نائپال نے والکوٹ کے خلاف لکھا تھا۔
اسی طرح ان کے دوست پال تھیرو Paul Theroux نے ان سے ناراض ہو کر اان کے خلاف ایک بڑی کتاب Sir Vidia’s Sahdow تحریر کی جو ساری ادبی دنیا میں مقبول ہوئی۔ ان دونوں کی مخالفت سالہا سال قائم رہی جو بعد میں پھر ایک بار مفاہمت میں تبدیل ہو گئی۔ہم نے اپنے اس مضمون کا عنوان اسی کتاب سے مستعار لیا ہے۔ اسی طرح نائپال اور سلمان رشدی میں بھی محبت اور نفرت پر مبنی تعلقات تھے۔ رشدی ان کی مخالفت کے باوجود ان کے ادبی رتبہ کے قائل تھے۔
نائپال کے مزاج کی لطافت کی گواہی ان کے انتقال کے بعد پنجاب کے مقتول گورنر سلمان تاثیر ؔ کے بیٹے آتش تاثیر نے دی ہے جو انہیں اپنا استاد اور دوست گردانتے تھے۔ اس کے برخلاف نائپال کے مرنے کے بعد ممتاز ایرانی دانشور حمید دباشی ؔ نے اپنے ایک اداریہ میں لکھا کہ، ‘ شاید اب ہم نائپال جیسا مصنف نہ دیکھ پائیں، کاش ہم نائپال جیسا کوئی مصنف نہ دیکھ پائیں“۔
وی ایس نائپال کو اب سے کئی سال پہلے حکومتِ برطانیہ نے Knighthood اور سَر کا خطاب عطا کیا تھا، اور وہ سَر وِدھیا کہلائے جانے لگے تھے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ ان کے انتقال سے عالمی دنیا ایک اہم مصنف سے محروم ہو گئی ہے جس کا پُر تنازعہ اثر سالہا سال قائم رہے گا۔ نائپال کے بار ے میں اور بھی جاننے کے لیئے Patrick French کی تحریر کردہ ان کی سوانح حیات The World is What is کا مطالعہ بھی لازم ہے۔
♦
3 Comments