رام پنیانی
حالیہ عرصہ کے دوران ہندوستان اورپڑوسی ملک پاکستان کی سپریم کورٹس نے دو ایسے فیصلے دیئے ہیں جو مذہبی مساوات ( پاکستان میں ) اور صنفی مساوات ( ہندوستان میں ) سے متعلق ہے ، لیکن ان دونوں مقدمات میں دونوں ملکوں میں سرگرم کچھ تنظیموں نے مذہب کا معاشرہ میں تقسیم کیلئے استعمال کیا ہے۔
پاکستان کی سپریم کورٹ نے 31 اکتوبر کو ایک عیسائی خاتون آسیہ بی بی کو توہین مذہب کے الزامات سے بری کردیا۔ وہ ان الزامات کے تحت ہی گزشتہ 8 برسوں سے قید تنہائی میں زندگی گذار رہی تھی اور یہی کہا جارہا تھا کہ اسے سزائے موت بھی ہوسکتی ہے جس کامطالبہ پاکستان کی مذہبی تنظیمیں کررہی تھیں لیکن پاکستانی سپریم کورٹ کے بنچ نے پایا کہ قانون کے مطابق آسیہ بی بی کے خلاف عائد الزامات برقرار نہیں رہ سکتے۔
جہاں تک پاکستان میں توہین مذہب پر سزاء کا سوال ہے یہ ایک سنگین جرم تصور کیا جاتا ہے اور جس کی سزا موت ہے۔ آسیہ بی بی ایک عیسائی خاتون ہے جو کھیت مزدور کی حیثیت سے کام کیا کرتی تھی۔ اس کے ارکان خاندان شدیدذہنی دباؤ کا شکار اور اس کی زندگی بچانے کیلئے تگ و دو میں مصروف تھے۔ یہ خاندان آسیہ کی زندگی بچانے کیلئے کافی دوڑ دھوپ کررہا تھا۔ شکر ہے کہ پاکستانی سپریم کورٹ کے بنچ نے ایک اچھا فیصلہ دیا۔
ایک ایسا عمدہ فیصلہ جس نے آسیہ بی بی اور اس کے ارکان خاندان کو بہت بڑی راحت عطا کی۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ اس کیس یا مقدمہ میں اس وقت کے گورنر پنجاب سلمان تاثیر نے آسیہ بی بی سے ملاقات کی۔ توہین رسالت سے متعلق قوانین کی مخالفت کی۔ یہاں تک کہ آسیہ بی بی کو معاف کردینے کی استدعا کی تھی ۔ ساتھ ہی پاکستان میں اقلیتوں کے تحفظ کے بارے میں خیالات ظاہر کئے تھے۔
اس قسم کے جذبات و احساس اور خیالات ظاہر کرنے کی سلمان تاثیر کو بھاری قیمت چکانی پڑی۔ انہیں قتل کردیا گیا۔ ان کے قاتل ملک ممتاز حسین قادری کو ایک ہیرو بنادیا گیا اور ’’ مولانا ؤں ‘‘ نے سلمان تاثیر کی نماز جنازہ پڑھانے سے بھی انکار کردیا تھا۔
اب آسیہ بی بی کو توہین مذہب کے الزامات سے بری کرنے اور رہا کرنے سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعد ایسا لگتا ہے کہ پاکستان بارود کے ڈھیر پر کھڑا ہے۔بنیاد پرست عناصر نے مختلف مقامات پر پُرتشدد احتجاجی مظاہرے کئے۔ مذہبی جنونیوں کے جنونی رد عمل سے پریشان وزیر اعظم عمران خان نے قوم سے عدالت عظمیٰ کے فیصلہ کا احترام کرنے کی التجاء کی ۔
ساتھ ہی انہوں نے تحریک لبیک پاکستان کے ساتھ ایک معاہدہ بھی کیا۔ آپ کو بتادیں کہ تحریک لبیک پاکستان نے ہی احتجاجی مظاہرے کئے اور تشدد برپا کیا تھا۔ اس معاہدہ میں وزیر اعظم عمران خان نے تحریک لبیک کے مطالبات قبول کرلئے جس میں ایک اہم مطالبہ یہ بھی تھا کہ آسیہ بی بی کو پاکستان سے باہر جانے کی اجازت نہ دی جائے۔ عمران خان نے اس تنظیم سے یہ بھی اپیل کی کہ آسیہ بی بی کو اس مقدمہ میں بری کرنے والے ججز کو نشانہ نہیں بنانا جانا چاہیئے۔ آسیہ بی بی کے وکیل سیف الملوک اپنے خلاف پرتشدد انتقامی کارروائی کے خوف سے پاکستان سے باہر جاچکے ہیں۔
اب ہندوستان کی طرف آتے ہیں۔ 28 ستمبر 2018 کو سپریم کورٹ آف انڈیا نے ایک فیصلہ دیتے ہوئے کہا کہ سبری مالا مندر میں تمام عمر کی خواتین کوداخلہ کی اجازت دینے سے انکار کو خواتین کے خلاف امتیازی سلوک قرار دیا اور پرزور انداز میں کہا کہ تمام عمر کی خواتین کوسبری مالا مندر میں داخل ہونے کی اجازت دی جانی چاہیئے۔ جبکہ اکثر جماعتوں بالخصوص آر ایس ایس نے ابتداء میں سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیرمقد م کیا لیکن فوری سنگھ پریوار کی اس سرپرست تنظیم نے اپنا موقف تبدیل کردیا ۔
ہندو دائیں بازو کی تنظیموں کی قیادت کرتے ہوئے وشوا ہندو پریشد آگے آئی اور دائیں بازو کی ان ہندو تنظیموں کے آگے آنے کا مقصد سبری مالا کو بچانا اور ایسی عمر کے خواتین کو مندر میں داخل ہونے سے روکنا ہے جو عمر کے اس حصہ میں ہیں جہاں انہیں حیض آتا ہو چنانچہ وی ایچ پی اور دوسری ہندو تنظیموں نے عدالت عظمیٰ کے فیصلہ کے بعد بھی 50 سال سے کم عمر کی خواتین کو مندر میں داخل ہونے سے روک دیا۔
یہ مسئلہ بہت جلد شدت اختیار کرگیا ہے۔ گرما گرمی دیکھتے ہی دیکھتے بڑھ گئی۔ حکمران سی پی ایم کی زیر قیادت بائیں بازو اور دیگر پارٹیوں کے محاذ کے سوائے دوسری تمام جماعتوں بشمول کانگریس بھی اس جذباتی طوفان سے جڑ گئی اور ایک مخصوص عمر کے گروپ سے تعلق رکھنے والی خواتین کے مندر میں داخل ہونے کے خلاف احتجاج کی تائید و حمایت کی۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ ان جماعتوں میں سے کئی نے مہاراشٹرا میں شنی شنگنا پور مندر میں خواتین کے داخلہ کی تائید و حمایت کی تھی۔
آر ایس ایس اور اس سے ملحقہ دوسری ہندو تنظیمیں خاص طور پر اس وقت خوشی سے سرشار ہوگئیں جب عدالت نے ممبئی میں واقع مشہور و معروف حاجی علی درگاہ میں مسلم خواتین کو داخل ہونے کی اجازت دی۔ اُس وقت آر ایس ایس کی ملحقہ تنظیموں نے عدالت کے فیصلہ کی نہ صرف ستائش کی بلکہ بہت خوشی کا اظہار کیا۔
جہاں تک سبری مالا مندر اور اس میں ایک مخصوص عمر کی خواتین کے داخلہ کی اجازت دینے یا نہ دینے کا سوال ہے اس مسئلہ پر میڈیا کے ذریعہ کئی دانشورانہ مضامین منظر عام پر آئے۔ یہ مضامین کافی معلوماتی تھے۔ ان ہی مضامین کے ذریعہ ہمیں پتہ چلتا ہے کہ 1991 تک بھی اس مندر میں تمام عمر کے گروپوں سے تعلق رکھنے والی خواتین کو مندر میں داخل ہونے کی اجازت تھی۔ جب ایک اور عدالتی فیصلہ آیا جس سے ایک ایسی صورتحال پیدا ہوئی جس میں مندر میں حیض کی صلاحیت رکھنے والی خواتین کو داخل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی۔
یہ فیصلہ دراصل اس مفروضہ کی بنیاد پر تھا کہ حیض کی صلاحیت ( ایسی خواتین جنہیں حیض آتا ہو ) رکھنے والی خواتین مندر کے دورہ کیلئے درکار 41 یوم کی رسومات ادا کرنے سے قاصر رہتی ہیں۔ اتفاق سے اس عدالت نے جو حکم دیا تھا اس میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ ماضی میں تمام عمر کی خواتین کو مندر میں داخل ہونے کی اجازت تھی۔
کئی ایسی اسٹڈیز یا مطالعات ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ سبری مالا مندر کا قبائیلیوں اور بدھسٹوں سے تعلق تھا۔ قبائیلیوں میں حیض ممنوع نہیں ہے یعنی حیض کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی اور قبائلی خواتین کثیر تعداد میں 1960 کے دہے تک بھی مندر آیا کرتی تھیں۔ اس بات کے بھی کافی شواہد ہیں کہ 1980 کے دہے تک بھی تما م عمر کی خواتین کو مندر میں داخل ہونے کی اجازت تھی۔
لیکن اب جو مخصوص عمر کی خواتین کو مندر میں داخل ہونے کی اجازت نہ دینے سے متعلق سخت قواعد اور ضوابط ہیں ان پر 1991 کے فیصلہ کے بعد عمل آوری شروع کی گئی اور اب اسے ریاست کیرالا میں ایک انتخابی بنیاد بنانے اور اسے مستحکم کرنے ایک بہترین موقع کی حیثیت سے دیکھا جا رہا ہے۔ جیسا کہ ان فرقہ پرست طاقتوں نے کرناٹک میں بابا بڈھن گری درگا یا پھر مدھیہ پردیش میں کمال مولا مسجد کے نام پر کیا ہے لیکن مختلف سیاسی جماعتوں کا اس مسئلہ پر لڑکھڑا جانا بہت ہی پریشان کن ہے۔
کچھ دہے قبل تک بھی ہندوستان فراخدلانہ جمہوری مزاج کی راہ پر سیکولر اقدار کے ساتھ بڑی کامیابی کے ساتھ گامزن تھا۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ 1990 سے ہندوستان، کٹر پسندی اور مذہب کے نام پر سیاست میں شدت پیدا کرنے کے معاملہ میں پاکستان کی تقلید کرنے کی کوشش کررہا ہے۔
اس لئے دونوں پڑوسی ملک اپنی متعلقہ سپریم کورٹ کے فیصلوں پر ایک ہی طرح کا ردعمل ظاہر کررہے ہیں۔ عدالتوں نے دونوں مقدمات میں قانون کے مطابق فیصلے صادر کئے اور تمام مذاہب کو مساوی ( پاکستان میں آسیہ بی بی کے مقدمہ میں ) اور صنفی امتیاز کے خلاف ( ہندوستان کے سابری ملا مندر مقدمہ میں ) فیصلہ صادر کئے۔ ہندوستان میں جب مذہبی جنون پسند گروپوں کا ردعمل دیکھا تو اکثر سیاسی جماعتوں نے اپنے قدم پیچھے ہٹالئے۔
پاکستان میں عمران خان نے پہلے جرأت مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے آسیہ بی بی کی برآت کی تائید وحمایت کی لیکن بعد میں جو حالات پیدا ہوئے اس پر بنیاد پرستوں کے ساتھ سمجھوتہ پر مجبور ہوگئے۔ انہوں نے آسیہ بی بی کو پاکستان کے باہر نہ جانے دینے سے متعلق بنیاد پرستوں کا مطالبہ قبول کرلیا۔ بہرحال ایک ایسا بھی وقت تھا جب پنڈت جواہر لال نہرو سے یہ دریافت کیا گیا تھا کہ وزیر اعظم کی حیثیت سے آپ کو سب سے بڑا کونسا چیلنج درپیش ہے؟ تب انہوں نے کسی کو جواب دیا تھا کہ ایک مذہبی ملک میں سیکولر ریاست کی تخلیق سب سے اہم چیلنج ہے (1958)۔
پنڈت نہرو نے جس سفر کے بارے میں سوچا تھا یا جس سفر کا آغاز کیا تھا اس میں کئی رکاوٹیں تھیں، نشیب و فراز تھے۔ 1980 میں شاہ بانو مقدمہ کے بعد سے مسلمانوں کو خوش کرنے کی پالیسی کے نام پریا اس کے تناظر میں بہت ہی خوفناک انداز میں رام مندر تحریک شروع کی گئی دراصل فرقہ پرستوں نے مسلمانوں کی خوشامدی کا بہانہ رام مندر تحریک کیلئے استعمال کیا۔ دراصل ہمارے ملک میں فرقہ پرست تنظیمیں مذہبیت کو معاشرہ کوبانٹنے اور تقسیم کرنے کیلئے استعمال کررہی ہیں۔ جبکہ کمزور سیکولر تنظیمیں انتخابی فوائد کا حساب کتاب لگارہی ہیں۔
دوسری طرف پاکستان میں یہ سفر بہت ہے بدتررہا ہے۔ جناح نے اگست1947 کو قوم سے جو خطاب کیا اس میں کہا تھا کہ ایک سیکولر معاشرہ کو برقراررکھا جائے لیکن سیکولر معاشرہ کے متعلق خطاب کا اثر اور ان کا عزم طویل عرصہ تک قائم نہ رہ سکا اور وہاں بہت جلد فرقہ پرست جاگیردارانہ عناصرنے اقتدار حاصل کرلیا اور جناح پاکستان کیلئے جس سیکولر اقدار کے خواہاں تھے انہیں بری طرح پامال کیا۔
روزنامہ سیاست، حیدر آباد انڈیا