علی احمد جان
پاکستان کے سب سے خوشحال اور آبادی کے لحاظ سے بڑے صوبے پنجاب کے ایک گاؤں اتانوالی کے فالسے کے کھیت میں ہونے والے خواتین کے آپس میں جھگڑے نے اب تک ایک گورنر ، ایک وفاقی وزیرکے قتل کے علاوہ کئی عام شہریوں کی جانیں لینے، اربوں کی املاک کو تباہ کرنے ، کھربوں روپے کا معاشی نقصان پہنچانے کے علاوہ ملک کاسماجی اور سیاسی منظر نامہ بدلنے میں کردار بھی کردار ادا کیا ہے۔ معاملہ اب بھی رکا نہیں ہے اور نہ ہی یہ اس نوعیت کا پہلا یا آخری واقعہ ہے۔ معاشرے میں ایسے واقعات تواتر سے ہوتے رہنے کی وجہ سے عام لوگوں کی انفرادی اور اجتماعی نفسیات کا حصہ بن گئے ہیں اور اب لوگ اس پر حیرت کا اظہار بھی نہیں کرتے۔
فالسے کے کھیت میں کام کرنے والی خواتین کا تعلق کسی مذہبی یا علمی گھرانوں سے نہیں بلکہ پاکستان میں غربت کی لکیر سے نیچے بسنے والے اس غریب طبقے سے ہے جو اپنے جسم اور جان کےرشتے کو برقرار رکھنے کے لئے کم اجرت پر سخت مشقت کرنے پر مجبور ہیں۔ گرمی کے موسم میں کھیتوں میں کام کرنے کے دوران جب پیاس لگی تو ایک نچلی ذات کی عور ت کے پانی کے برتن پر ہاتھ لگانے پر اٹھائے جانے والے نام نہاد (خود ساختہ) اونچی ذات کی عورتوں کے اعتراض نے نزع کی شکل اختیار کیا جو حسب روایت الزام، دشنام، گالی سے بڑھ کر ہاتھا پائی تک پہنچ گیا۔
فالسے کے کھیت سے بات جب عورتوں کے گھر تک پہنچی تو نچلی ذات کی عورت کے ساتھ پانی پر ہونے والے جھگڑے نے اس کے مختلف العقیدہ ہونے کی وجہ سے ایک مذہبی شکل بھی اختیار کیا۔ ہر تنازعہ اور عداوت میں گواہ، پنچائت، تھانہ، تفتیش، عدالت ،کیس، ثبوت، گواہ اور فیصلے ایسے ہوتے ہیں جیسے ہوتے آئے ہیں جہاں زور آور کا پلہ بھاری ہوتا ہے اور منصف ہمیشہ انصاف کے ترازو کے پلڑے کو دیکھ کر فیصلہ کرتا ہے ۔
ہندوستان کی سرزمین صرف زبانوں، رنگ و نسل ،عقائد اور سماجی طبقات کے درمیان ہی تقسیم نہیں بلکہ یہاں ذات برادریوں کی درجہ بندی ہزاروں سال پہلے آریائی نسل کے برہمنوں کی آمد کے ساتھ ہوئی تھی۔باہر سے آنے والے برہمنوں نے اپنے ساتھ لائے دھرم کو لاگو کرکے خود کو تمام لوگوں میں سب سے اوپر رکھا اور مقامی دراوڑ لوگوں کو سب سے نچلا طبقہ ٹھہرایا اور ان کے ساتھ میل جول تو درکنار ان کا سایہ بھی اونچی ذات کے لئے منحوس قرار دیا، ان کے کانوں میں اپنے مقدس مذہبی گیتوں کی آواز پڑنے کو جرم گردانا اور ایسے کانوں میں پگلتا سیسہ ڈالا گیا۔
مقامی لوگوں نے آریاوں کے لائے نئے دھرم کو اختیار بھی کیا تو ان کی سماجی حیثیت میں کوئی فرق نہیں آیا وہ اچھوت سے شودر توبن گئے مگربرہمنوں کے مندر میں نہیں جاسکتے تھے اور نہ ان کے برابر بیٹھ سکتے تھے اور نہ ہی ان کے برتن کو چھو سکتے تھے ۔ ان لوگوں کو گندگی صاف کرنے سمیت ایسے تمام کام دئے گئے جو آریاؤں کی نسلوں سے تعلق رکھنے والے لوگ نہیں کرنا چاہتے تھے۔
آریاؤں کی نسل سے تعلق رکھنے والے برہمنوں کی ذات پات اور طبقاتی تقسیم کے خلاف سدھارت گوتم بدھ کی تحریک نے کسی حد تک ہندوستان سے نسلی تفاؤت کو ختم کردیا مگر اس کا اثر زیادہ تر شمال مغربی حصوں تک رہا جس کی وجہ سے افغانستان اور پاکستان کے بیشتر حصوں میں نسلی اور ذات پات کی بنیاد پر تقسیم نہ ہونے کے برابر ہے لیکن جنوب مشرقی ہندوستان میں آج بھی یہ شدت سے موجود ہے۔
ترک مسلمانوں کی ہندوستان میں آمد نے بھی یہاں ذات پات کی تقسیم کو کم نہیں کیا کیونکہ باہر سے آنے والے خود اپنی نسلی برتری کے احساس سے ہمیشہ سرشار رہتے تھے۔ ترک اور افغان حکمران ہندوستان کے بسنے والوں کو ہندو سمجھتے تھے اور یہاں کےسماجی ڈھانچے میں کسی قسم کی تبدیلی لاکر اپنے لئے مشکلات میں اضافہ بھی نہیں کرنا چاہتے تھے اس لئے آریاؤں کے صدیوں چلتے آئے ذات پات کی تقسیم کا نظام برقرار رکھا۔
اس نظام کی بدولت اشرافیہ اور حکمران طبقے کو مفت کے مشقتی دستیاب ہوتے تھے جوان کی آمدنی میں اضافے کا سبب تھے۔ اس دوران بہت سے نچلی ذات کے شودروں اور اچھوتوں نے اسلام کو بطور مذہب اختیار کرکے اپنی سماجی حیثیت بدلنے کی کوشش بھی کی مگر مسلمان حکمرانوں کو یہاں اپنے عقائد کی اشاعت و تبلیغ اور دوسروں کو اپنا ہم عقیدہ بنانے سے زیادہ اپنے معاشی، سیاسی اور عسکری مفادات کا پاس رہتا تھا۔
برطانیہ سے آئے انگریز حکمران اس لحاظ سے مختلف تھے کہ ان کا تعلق ایک جمہوری ملک سے تھا جس کی سماجی اقدار یہاں سے بہت مختلف تھیں۔ انگریزوں نے یہاں پر موجود تمام لوگوں کو ایک حاکم کی نظر سے دیکھا جس میں تمام ذات برادریاں اس کی رعایا تھیں۔ انگریزوں نے یہاں سے ستی جیسے ظالمانہ رواج کو ختم کیا اور نچلی ذات کے لوگوں کی سماجی حیثیت کو کسی قدر اوپر اٹھانے کی کوشش بھی کی۔ انگریزوں کی سماجی انصاف اور مسیحی مبلغین سے متاثر ہوکر نچلی ذات کے لوگوں نے نئے آقاؤں کے مذہب کو اختیار تو کیا مگر ہندوستان میں اپنےسماجی رتبے میں اضافہ نہ کرسکے۔ سماجی رتبے میں نئی مذہب اختیار کرنے کے باوجود کسی قسم کے فرق نہ پڑنے کی وجہ یہاں ذات پات کےتقسیم کی ہزاروں سال سے اس زمین میں موجود کی گہری جڑیں تھیں جو صرف عقیدے تک محدود نہیں تھیں ۔
پنجاب کے گاؤں اتانوالی میں آسیہ نورین کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ مشرقی ہندوستان میں دلتوں کے ساتھ ہونے والے سلوک اور سندھ میں بھیل اور کوہلی برادری کے لوگوں کے ساتھ روزانہ پیش آنے والے واقعات سے مختلف نہیں۔ بھارتی پنجاب میں دلتوں کے دیگر لوگوں کے ساتھ ایک نلکے سے پانی بھرناان کے اپنے ہم مذہب برہمنوں کے لئے کفر ہے تو بھیل اور کوہلی کے اپنی روایات کے مطابق اپنے مردوں کو دفنانا ان کے اپنے ہم وطنوں کے نزدیک ان کے مذہب کی توہین ہے۔
آسیہ نورین کوئی معلم نہیں جس پر کلاس روم میں پڑھاتے ہوئے یا کوئی مصنف نہیں جس پرکسی کتاب، جریدے، اخبار، رسالے میں اپنے خیالات قلمبند کرتے ہوئے ، یا کسی ریڈیو، ٹیلی ویژن یا سماجی رابطے کی کسی سائٹ پر اپنے تاثرات دیتے ہوئے یا وہ کوئی سیاسی یا سماجی راہنما نہیں جس پر کسی مجموعے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے توہین رسالت کا الزام لگا ہو ۔ یہ ایک عام ناخواندہ دیہاتی عورت پر اس جیسی دوسری خواتین کا الزام ہے جس کی بنیاد صرف عقیدہ ہی نہیں بلکہ اس کا ذات اور نسل کے اعتبار سے مختلف ہونا بھی ہے ۔ اس لئے یہ صرف توہین رسالت کا ہی معاملہ نہیں بلکہ ہمارے سماج میں صدیوں سے رچی بسی اس نسلی تفاؤت کا شاخسانہ بھی ہے جس میں انسان کو اس کی ذات اور براداری سے تعلق کی بنیاد پر امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
♦