بہزاد دیدگ بلوچ
جمعے کے روز صبح 9 بجے تین حملہ آوروں نے کراچی میں واقع چینی قونصل خانے پر حملہ کرتے ہوئے قونصل خانے پر قبضے کی کوشش کی جو حکام کے مطابق تین گھنٹے تک جاری مقابلے کے بعد ناکام بنادیا گیا۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق “یہ چینی مفادات پر پاکستان میں ہونے والا ابتک کا مہلک ترین حملہ ہے”۔
ابتدائی معلومات کے مطابق شروع میں میڈیا کو احاطے میں داخل ہونے کی اجازت نہیں تھی، لہٰذا ہونے والے نقصانات کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ فوجی حکام نے پریس ریلیز جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ حملہ آور اندر داخل نہیں ہوسکے، اور مقابلے میں دو پولیس اہلکار اور دو عام شہری مارے گئے لیکن معتبر برطانوی جریدے ” دی گارڈین” نے ایک علاقائی پولیس افسر محمد اشفاق کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ ” حملہ آوروں نے آتے ہی گارڈز پر فائرنگ شروع کردی اور دستی بم پھینکے، جس کے بعد وہ مین گیٹ کو پار کرکے اندر داخل ہونے میں کامیاب ہوگئے”۔
پولیس نے دو حملہ آوروں کے نعشوں کی تصاویر بھی جاری کیں ہیں، جن میں سے ایک نعش کو عمارت کے اندرونی احاطے میں دیکھا جاسکتا ہے، جبکہ تیسرے حملہ آور کی تصویر جاری نہیں کی گئی ہے، جس سے یہ اندیشہ پایا جاتا ہے کہ حملہ آور قونصل خانے کے احاطے میں گھسنے میں کامیاب ہوئے تھے، اور انہوں نے اسٹاف پر بھی حملہ کیا ہے، جس کی وجہ سے جانی نقصانات بیان کیے گئے اعدادوشمار سے زیادہ ہوسکتے ہیں۔
دورانِ حملہ ہی بلوچ لبریشن آرمی سے وابستہ ٹوئیٹر اکاونٹ سے اس حملے کی ذمہ داری کرلی گئی۔ بلوچ لبریشن آرمی ایک آزادی پسند مسلح جماعت ہے، جو گذشتہ دو دہائیوں سے بلوچستان کی مکمل آزادی کیلئے برسرپیکار ہے۔
بلوچ لبریشن آرمی کے ترجمان جیئند بلوچ نے میڈیا اداروں کو نامعلوم مقام سے سیٹلائیٹ فون کے ذریعے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا کہ “اس حملے میں بی ایل اے کے مجید بریگیڈ کے تین سرباز اضل خان مری عرف سنگت ڈاڈا، رازق بلوچ عرف سنگت بلال اور رئیس بلوچ عرف سنگت وسیم نے حصہ لیا”۔
جیئند بلوچ نے چین کو تنبیہہ کرتے ہوئے کہا کہ ” بلوچ سرزمین پر چین کے فوجی توسیع پسندانہ عزائم کو ہرگز برداشت نہیں کیا جائے گا، وہ جلد از جلد بلوچستان سے دستبردار ہوکر نکل جائے، ورنہ اس طرح کے حملے تسلسل سے جاری رہینگے۔”
چینی مفادات پر حملے کیوں:۔
چین بلوچستان میں ” چین پاکستان اقتصادی راہداری” کے مد میں مختلف منصوبوں میں 62 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کررہا ہے۔ اس منصوبے میں بلوچستان کے اہم تزویراتی بندرگاہ گوادر ڈیپ سی پورٹ، گوادر تا کاشغر روڈ وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ اس وقت بلوچستان کے معدنیات کی دولت سے مالامال علاقے سیندک اور ریکوڈک کا کنٹرول بھی چین کو حاصل ہے۔
نا صرف بلوچ مسلح تنظیمیں بلکہ بلوچ سیاسی قوم پرست جماعتیں روز اول سے ان منصوبوں کے سخت خلاف رہے ہیں، انکا دعویٰ ہے کہ چین پاکستان کے ساتھ ملکر بلوچستان کے قیمتی معدنیات کو لوٹ رہا ہے اور بلوچ کی حالت زار مزید ابتر ہورہی ہے۔
سی پیک کے بعد اس صورتحال میں مزید ابتری آگئی، بلوچ آزادی پسندوں کا دعویٰ ہے کہ اب یہاں چین کے نا صرف معاشی بلکہ عسکری مفادات بھی ہیں۔ چین علاقے میں اثرورسوخ قائم کرنے کیلئے اپنا نیول بیس تعمیر کررہا ہے۔ اسکے علاوہ ان پروجیکٹس کے ذریعے چین اور پاکستان کے دوسرے علاقوں کی آبادی کا بہاو بلوچستان کی طرف موڑ کر، بلوچستان میں مردم نگارانہ تبدیلیاں لاکر بلوچ کو اقلیت میں تبدیل کی جارہی ہے۔
بلوچ قوم پرستوں کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ چین بلوچ قوم پرستوں کو کچلنے کیلئے پاکستان کو بھاری عسکری و معاشی معاونت بھی فراہم کررہا ہے۔
اس صورتحال کے پیش نظر، اب بلوچ مسلح جماعتوں نے چینی مفادات پر حملے شروع کردیئے ہیں۔ ان حملوں کا آغاز 2004 سے گوادر میں تین چینی انجنیئروں کے قتل سے شروع ہوا ہے۔
اسی سال اگست کے مہینے میں بلوچستان کے سرحدی شہر دالبندین میں سیندک پروجیکٹ پر کام کرنے والی چینی انجنیئروں کے بس پر ایک خود کش حملہ کیا گیا تھا، جس میں متعدد ہلاکتیں ہوئیں تھیں۔
اس حملے کی ذمہ داری بھی بلوچ لبریشن آرمی کے ترجمان جیئند بلوچ نے قبول کی تھی۔ اس حملے سے چند ماہ پہلے اطلاعات کے مطابق بلوچ لبریشن آرمی کے سربراہ اسلم بلوچ نے مختلف نشریاتی اداروں کو اپنا ایک ویڈیو پیغام بھیجا تھا، جس میں چین کو واضح طور پر بلوچستان سے نکل جانے کی دھمکی دی گئی تھی اور بصورت دیگر حملوں کا کہا گیا تھا۔
اطلاعات کے مطابق دالبندین خودکش حملہ آور بی ایل اے سربراہ اسلم بلوچ کے اپنے فرزند تھے۔
آج چینی قونصل خانے پر حملے کے بعد اسلم بلوچ نے اپنے ٹویٹ پیغامات میں کہا کہ ” دنیا کو یہ سمجھنے میں کوئی دقت نہیں ہونا چاہیئے کہ ہم اپنی آزادی، اپنے وطن اور اپنے لوگوں کی تحفظ کے لئے بحالت مجبوری کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔”
آج کے حملے کے بعد یہ گمان مزید مستحکم ہوگیا ہے کہ مستقبل میں چینی مفادات پر مزید حملوں کا خطرہ ہے۔
بلوچ لبریشن آرمی کیا ہے؟
بلوچ لبریشن آرمی ایک آزادی پسند مسلح جماعت ہے، یہ جماعت گذشتہ دو دہائیوں سے بلوچستان میں پاکستانی فوج، اہم تنصیبات اور آباد کاروں پر تواتر کے ساتھ حملے کرتی رہی ہے۔ چینی مفادات اور انجنیئروں پر حملوں میں حالیہ دنوں سب سے زیادہ یہی جماعت متحرک رہی ہے۔
اس جماعت کی قیادت کے حوالے سے اسکی جڑیں بزرگ قوم پرست رہنما مرحوم نواب خیربخش مری سے جوڑی جاتیں ہیں، بعد ازاں انکے فرزند کو بھی مبینہ طور پر بی ایل اے کے سربراہ ہونے کی شک میں لندن میں گرفتار کیا گیا تھا، جہاں سے وہ بری ہوگئے تھے۔ لیکن مصدقہ اطلاعات کے مطابق بی ایل اے میں دو سال پہلے اختلافات کے بعد قیادت اب بلوچ لبریشن آرمی کے سینئر ترین کمانڈر اسلم بلوچ کے ہاتھ میں ہے۔ بلوچ عسکری تجزیہ نگار بی ایل اے کے حکمت عملی میں اس تبدیلی اور ان شدید پیمانے کے حملوں کو اسلم بلوچ سے جوڑتے ہیں۔
قونصل خانے پر حملہ کرنے والے کون تھے؟
ابتدائی طور پر بلوچ لبریشن آرمی نے حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کے بعد کہا تھا کہ حملہ آور بی ایل اے کے فدائی بریگیڈ مجید بریگیڈ کے کارکن اضل خان مری، رازق بلوچ اور رئیس بلوچ تھے۔
بی ایل اے مجید بریگیڈ کے بارے میں اس وقت عام معلومات انتہائی کم ہیں، لیکن ہمارے ذرائع کے مطابق مجید بریگیڈ کا قیام 2010 میں ہوا ہے۔ جسے مجید لانگو نامی بی ایل اے کمانڈر سے منسوب کیا گیا۔ بریگیڈ کے قیام کے بعد اسکا سب سے پہلا حملہ دسمبر 2011 کو کوئٹہ شہر میں مبینہ طور ڈیتھ اسکواڈ ” بلوچ مسلح دفاع” کے سربراہ شفیق مینگل کے ٹھکانے پر ہوا۔ یہ خودکش حملہ باز خان عرف درویش نامی فدائی نے کیا تھا۔
معلومات کے مطابق اس بریگیڈ میں شامل تمام کارکن خود کش حملوں اور فدائی حملوں کیلئے تربیت یافتہ ہیں۔
اس حملے کے بعد اسوقت بلوچ سیاسی حلقوں میں ایک بے چینی اور شدید غم و غصے کی لہر اٹھی، جب غیر سرکاری سطح پر یہ کہا جانے لگا کہ مذکورہ حملہ آوروں کا نام لاپتہ بلوچ افراد کے فہرست میں شامل تھے۔ بعد ازاں یہ خبر جرمن نشریاتی ادارے ” ڈی ڈبلیو” پر پاکستان میں ادارے کے نمائیندے رفعت سعید کے جانب سے بھی تصدیق کرکے شائع کی گئی۔
اس حوالے سے دی بلوچستان پوسٹ نے لاپتہ افراد کے بازیابی کیلئے لواحقین کی جانب سے چلائی جانے والی تحریک کے ذمہ داران سے بات کی تو انکا کہنا تھا کہ “یہ پروپیگنڈہ محض لاپتہ افراد کے مسئلے کو مبہم اور متنازعہ کرنے کی کوشش ہے، ہمارے پیش کردہ لسٹ ہر جگہ موجود ہیں، تمام عالمی اداروں کے پاس بھی ہیں، کسی پروپیگنڈہ پر کان دھرنے سے پہلے ان فہرستوں میں دیکھا جائے کہ کیا واقعی انکے نام موجود ہیں؟ یہ محض ایک جھوٹ کا پلندہ ہے، اس سے ظاھر ہوتا ہےکہ حکومت لاپتہ افراد کے مسئلے میں کتنا سنجیدہ ہے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ “ڈی ڈبلیو جیسے معتبر نشریاتی ادارے میں بلا تحقیق ایسے من گھڑت خبر کو شائع کرنے کی تحقیق ہونی چاہیئے اور اس زرد صحافت کا مظاھرہ کرنے والے صحافی سے جواب طلبی ہونی چاہیئے، ایسے جھوٹے خبر سے لاپتہ افراد کے اہلخانہ کی دل آزاری ہوئی ہے، ادارے کو معافی مانگنی چاہیئے”۔
اس حوالے سے دی بلوچستان پوسٹ نے مختلف تنظیموں کی جانب سے بنائے گئے تمام لسٹوں کا بغور مطالعہ کیا، لیکن مذکورہ حملہ آوروں کا نام کہیں بھی موجود نہیں تھے۔
ٹی بی پی کے علاقائی ذرائع سے ان تین حملہ آوروں کے بابت مزید معلومات حاصل کرنے کے بعد یہ معلوم ہوا کہ رازق بلوچ عرف سنگت بلال بلوچستان کے علاقے خاران کے رہائشی ہیں، انہوں نے ایف ایس سی تک خاران میں تعلیم حاصل کی اسکے بعد بلوچ لبریشن آرمی سے منسلک رہے وہ 2013 سے بی ایل اے میں سرگرم رہے ہیں۔ اسی طرح دوسرے فدائی کی شناخت رئیس بلوچ عرف سنگت وسیم کے نام سے ہوئی ہے جو پنجگور کے علاقے تسپ سے تعلق رکھتے ہیں، وہیں تعلیم حاصل کی۔ وہ 2012 میں ایک اور بلوچ آزادی پسند تنظیم بی آر اے میں شامل ہوئے اور بعد ازاں بی ایل اے مجید بریگیڈ کا حصہ بنے۔ تیسرے فدائی حملہ آور کی شناخت اضل خان مری عرف سنگت ڈاڈا کے نام سے ہوئی ہے، جو بلوچستان کے ضلع بولان کے علاقے لاکی سے تعلق رکھتے ہیں۔
چار مہینوں کے اندر پہلے چینی انجنیئروں اور اب چینی سفارت کاروں پر بلوچ لبریشن آرمی کی جانب سے دو خود کش حملے اس امر کی جانب اشارہ کررہے ہیں کہ جس طرح سی پیک اور چین کے بلوچستان میں پیشقدمی میں تیزی آرہی ہے، اسی طرح بلوچ آزادی پسند مزاحمتکاروں کے حملوں کی شدت میں بھی جدت و تیزی آرہی ہے۔ جو مستقبل میں اس بات کا پیش خیمہ ہے کہ بلوچستان افریقی ممالک کی طرح چین کیلئے اگلہ آسان نوالہ ثابت نہیں ہوگا اور حملوں میں تیزی دیکھی جائیگی۔
♦