آمنہ اختر
بیماری انسانی زندگی کی تاریخ میں اتنی ہی پرانی ہے جتنی خود انسانی تاریخ ۔پہلے طبیب ہاتھ ،زبان ،چہرے اور آنکھ کی رنگت دیکھ کر بیماری کی تشخیص کرتے تھے ۔اب سائنسی طریقے کے ذریعے بیماری کی تشخیص اور علاج فراہم کیا جا تا ہے ۔ طبیب ہو یا جدید علم پڑھ کر بننے والا ڈاکٹر ان کی تحقیق کے مطابق انسان کو بیماری اس کے جسم کی قوت مدافعت میں کمزوری یا کسی حادثے کے سبب لگتی ہے نہ کہ کسی غیر اخلاقی غلطی یا دوسرے انسانوں کو جانی یا مالی نقصان پہنچانے کا نتیجہ بیماری کا سبب بنتا ہے اور نہ ہی بیماری کسی کے گناہوں کی سزا کے طور پر نازل ہوتی ہے جیسا کہ پاکستانی معاشرے کی ایک بڑی اکثریت آج بھی سمجھتی ہے۔
وقت کے ساتھ بہت سے امراض نے انسانی جانوں کو ختم کیا ہے اور مسائل سے دوچار رکھا ہے ۔ان سب موذی امراض میں سے ایک کینسر کا مرض بھی ہے جس کا علاج تو کافی حد تک ڈھونڈ لیا گیا ہے ۔ اس طریقہ علاج سے مریض کے زندہ رہنے کے دن یا سال تو بڑھ گئے ہیں مگر دوائیوں کے اثرات سے زندگی ابھی تک کافی زیادہ مسائل سے دوچار ہے ۔
سنہ 2016ورلڈ کینسر رپورٹ کے مطابق تقریباً دس ملین لوگ پاکستان میں کینسر کا شکار ہیں۔ مگر پاکستان میں وسائل کی اتنی شدید کمی ہے وہاں ہسپتال میں بخار کی دوائی تک عام انسان کو نصیب نہیں ہوتی ۔وہاں موذی مرض کے لیے کیا اقدامات ہوں گے ۔ عام لوگ کم تعلیم یافتہ اور پیٹ بھرنے کے گن چکر سے ہی نہیں نکل پا رہے وہاں کینسر جیسے مرض کی تکلیفیں تو اپنی جگہ ہیں ہی مگر سماج کی بے حسی کا جو عالم ہے وہ انسانیت کی تعریف سے کوسوں دور ہے ۔ یوں کہیے پتھر کے انسان سانس لیتے ،چلتے پھرتے تو ہیں مگر احساس سے عاری ۔
پاکستان ایک شرعی ریاست ہے لہذا چند ایک مخیر افراد پرائیویٹ خیراتی کینسر کے ہسپتال اور ادارے چلا رہے ہیں جن کے سہارے کچھ مریض زندہ رہنے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔ مگر ان کو معاشرے میں کس طرح انسانی زندگی گزارنے کا حق دینا ہے وہ سوچ بالکل موجود نہیں ہے ۔خیر بیماری تو ہر عمر میں عذاب ہوتی ہی ہے مگر بچوں پر آئے تو قہر کی طرح ہے اور جب جوانی کے دنوں میں آئے تو عذاب ہے صرف عذاب ۔
گو کہ تحقیق سے ثابت ہے کہ کینسر ہو یا کوئی اور دائمی بیماری وہ انسانی قوت مدافعت کو نقصان پہنچاتی ہے ناکہ انسانی فطری جذبات و خواہشات کو ختم کرتی ہے ۔انسانی فطری جذبات اور احساسات سے مراد پیار ،محبت اور ایک جیون ساتھی کی خواہش ہے جس کے ساتھ دکھ سکھ اور جسمانی ضرورت کو بھی پورا کیا جا سکے جو کہ ایک فطری ضرورت ہے ۔ مگر ہمارا سماج انسانی جانوں کے ساتھ کھلواڑ کرنے میں کوئی دقّت محسوس نہیں کرتا ۔ اور سماج کی دی جانی والی تربیت اور آگاہی اتنی ناقص ہے ۔جس کے نتیجے میں کینسر کی بیماری میں مبتلا نوجوان خواہ وہ لڑکا ہو یا لڑکی ان کے والدین بیمار کو بھی شادی کے بندھن میں ہی باندھتے ہیں ۔بلکہ دوسرے لوگوں سے ناں صرف بیماری چھپاتے ہیں ۔بلکہ اسے اپنی عزت کا مسئلہ سمجھتے ہیں اور اپنی جھوٹی عزت کو بچانے کے لئے نوجوانوں کی شادی دوسرے فریق کو بیماری بتلائے بغیر کر دیتے ہیں ۔
دوسری طرف شادی کے نام کے ساتھ شرعی خیالات اور سماج کی سوچیں انسانی زندگی کے احساسات سے زیادہ اہم گردانی جاتی ہیں ۔ ان شرعی قوانین اور سماج کی روائتی سوچوں میں نوجوانوں کی خواہشات کا ہر گز احترام سرے سے وجود ہی نہیں رکھتا۔ نوجوانوں کو شادی کے بندھن میں باندھتے ہوئے ہوش ہی نہیں آنے دیتے کہ وہ کس کے ساتھ جسمانی تعلق کر نے جا رہا یا کرنے جا رہی ہے ۔بلکہ پہلی رات کو ہی کنوارہ پن توڑنے اور اگلے ہی دن بچے کی خوشخبری کے چکر میں کوئی بھی فیملی پلاننگ کی ضرورت کو اہم نہیں سمجھتا ۔جس کا شدید تکلیف دہ ا ثر نوجوان لڑکی یا لڑکے کی باقی ماندہ زندگی پر انتہائی گھمبیر اثرات چھوڑتا ہے ۔
اگر ہماری پاکستانی حکومت بیماری سے پہلے کے اقدامات نہیں کر سکتی تو بیماری کی تشخیص کے بعد کیا خاک کرے گی ۔ رہا مسئلہ ان شرعی احکامات اور انسانی زندگی پر ان کو لاگو کرنے کا تو اس جدید دور میں ہمیں ان سے کوئی رہنمائی نہیں چاہیے ۔ ہمیں کینسر سے متاثرہ بچوں کے مفت علاج اور ان کو آرام دہ پڑھائی اور کھیل کی سہولیات فراہم کرنی ہیں اور نوجوان لڑکی اور لڑکے کے لیے ان کی صحت کے مطابق تعلیم و روزگار ا فراہم کرنا ہے ۔اور نوجوانوں کی جنسی ،سماجی اور نفسیاتی ضروریات کو پورا کرنا ہے ۔
ہمیں شعور اور علم رکھنے والے انسانوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکھٹا کرنا ہے اور ہر مسئلے کو انسانی ضروریات کے مطابق حل کرنا ہے نہ کہ کینسر اور کینسر سے زیادہ مہلک لوگوں کی بنائی ہوئی شرعی احکامات یا حکایات سے ڈرتے ہوئے اپنے نوجوان نسل کی تکلیفوں کو کم کرنے کی بجائے زیادہ کرنا ہے ۔
♦