آمنہ اختر
فخریہ حجاب پہننے والی نومنتخب امریکی رکن کانگریس ، الہان عمر ،ان لڑکیوں کی کس طرح مدد کریں گی جو حجاب اور مسلم اقدار اپنانا ہی نہیں چاہتیں
چھ نومبر کو ہونے والے امریکی انتخابات میں پہلی مرتبہ دو مسلمان خواتین رکن کانگریس منتخب ہوئی ہیں ان میں صومالیہ سے تعلق رکھنے والی خاتون الہان عمر بھی ہیں۔ الہان عمر ، اپنے پہلے خطاب میں بڑی گرمی جوشی سے کہہ رہی تھیں کہ وہ پہلی حجاب پہننے والی مسلم خاتون ہیں ۔ان کا اس بات پر فخر کرنا ان کی ذاتی حد تک تو سمجھ میں آتا ہے مگر سوال یہ ہے کہ ان کا فخر یہ حجاب پہننا ان مسلمان لڑکیوں کو کیسے تحفظ فراہم کرے گا ۔جو حجاب پہننا ہی نہیں چاہتیں اور مسلم گھرانوں سے تعلق بھی رکھتی ہیں ۔ بلکہ وہ اپنے خاندان والوں کی طرف سے حجاب پہننے کے لئے مجبور ہیں ۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ وہ امریکی قوانین میں کس طرح کی تبدیلی لائے گی جس سے حجاب پہننے والی خواتین ہر طرح کی سرگرمیوں میں حصہ بھی لے سکیں اور حجاب ہر موسم اور حالات میں ان کی صحت پر منفی اثرات بھی نہ ڈالے ۔ یا پھر وہ مردوں کے لئے بھی حجاب کا استعمال کرنا قابل فخر بنائے گی ۔ تاکہ مسلم معاشرے کے مرد اور عورت کے لباس میں بھی برابری آئے ۔حجاب اگر کچھ عورتوں کے لیے سہولت یا اس کی شناخت کا تحفظ ہے تو اس کے ساتھ بہت سی عورتوں کے لئے حجاب ان کی آزادی اور معاشی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بھی پیدا کرتا ہے ۔چونکہ ہر مسلم خاندان کا اپنے تئیں علیحدہ سے اپنے گھروں میں ایک مسلم ماحول موجود ہے جس کی پابندی کرنا اس گھر کی بچیوں اور عورتوں پر مرد کی نگرانی میں پورا کروایا جاتا ہے ۔
حجاب چونکہ ایک مذہبی یا عرب ثقافت کا حصہ ہے جو عورت کے با حیا ہونے کی نشانی ہے۔ یہ صرف مسلم معاشروں کا نشان نہیں بلکہ مسیحی اور باقی تمام معاشروں میں بھی موجود رہا ہے ۔ اس وقت بات مسلم معاشرے میں حجاب کی ہو رہی ہے۔ اس لئے یہ یاد دھانی کروانا ضروری ہے کہ حجاب عورت کے لیے معاشرے میں مخلوط سرگرمیوں کی مخالفت کرتا ہے اور خواتین کے لیے علیحدہ سرگرمیوں کے مراکز اور نوکریوں کی ڈیمانڈ کرتا ہے ۔بلکہ مخلوط سرگرمیوں کی حامی تنظیموں کی مخالفت بھی کرتا ہے لہٰذا ان سب مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے الہان کا فخر یہ حجاب امریکی معاشرے کے اندر کس طرح مرد اور عورت کے جنسی امتیاز کے فرق کو مٹانے کے لیے بہتر اقدامات کرے گا اس کی نشاندہی ہو نا بھی بہت ضروری ہے۔
ان خواتین کی کانگریس میں نمائندگی دیکھ کر خوشی تو ہوئی ہے مگر ادھوری رہ گئی ہے کیونکہ اس میں مذہبی اخلاقیات اور پرانی ثقافت کو دوبارہ سے زندہ کرنے کی یاد دھانی نظر آتی ہے اور کافی عورتیں اسی خیالات کی حامی ہیں۔ ان کے خطاب کے دوران بہت گرم جوشی سے ان کے خیالات پر پر جوش طریقے سے تالیاں اور الہان کے خیالات کو سراہا رہی تھیں۔جو کہ امریکی مسلم مکیونٹی کی باشعور اور حجاب نا پہننے والی عورت کے لیے تشویش کا باعث ہے۔
امریکہ کے اندر مسلم اقلیت کے ساتھ ہونے والے امتیازی برتاو کو مذہبی طریقے سے نہیں بلکہ تعلیم اوران پرانی ثقافتوں کو بہتر اور وقت کے مطابق جدید کرنے سے ہو گا ۔اگر الہان حجاب اور مسلم کمیونٹی کے تحفظ کے لیے آئی ہے تو وہ مسلم کمیونٹی کے اپنے اندر کے ہونے والے پہلے سے موجود تعصبات کو کس طریقے سے بہتر کرے گی اور ساتھ ان کو ایک پلیٹ فارم پر اکھٹا کرنے میں کس طرح کے اقدامات کرے گی اس طرح کے سوالات حجاب سے انکاری مسلم عورتوں کے ذہن میں گردش کرنے لگے ہیں ۔
ایران میں مسلم عورتوں کا سر عام حجاب اتارنا اور اس کو پہننے سے انکار کرنا ہم سب نے میڈیا میں دیکھا ہے ۔ ملک صومالیہ جہاں کی الہان خود ہیں ۔اس ملک میں اور بہت سے افریقی ممالک میں مسلم بچیوں کی کم عمری میں شادی اور مردوں کا ایک سے زیادہ عورتوں کے ساتھ شادی رکھنا عام ہے ۔اور امریکی مسلم کمیونٹی ہو یا کسی اور ترقی یافتہ ملک کے اندر مسلم کمیونٹی کی بات ہو اس پر انہی ملکوں کی مختلف انسانی حقوق کی تنظیمیں مل بیٹھ کر مسائل کو حل نہیں کر پائیں ۔اس میں الہان کیسے تبدیلی لانے میں کامیاب ہو گی یا وہ امریکی قوانین میں ان کو لاگو کروائے گی تاکہ مسلم معاشرے کی بہتر عورت کی مثال بن سکے ۔
الہان اور دوسری منتخب مسلم کمیونٹی کی حامی عورتوں سے ان کے سیاسی عزائم جاننا ہم اور مسلم معاشرے کی ستائی ہوئی عام عورتوں کا حق ہے تاکہ ہمیں ’مغرب‘ کی مسلم کمیونٹی دشمنی سے واقعی نجات مل سکے ۔
♦