عامر گمریانی
درحقیقت زندگی شروع دن سے ہی مقابلے کا نام ہے۔ اس دنیا میں ہمیں صرف رہنا ہی نہیں، آگے بڑھنا بھی ہوتا ہے اور آگے بڑھنے کے لئے دوسروں کو پیچھے چھوڑنا پڑتا ہے۔ اپنے اہداف اور مقاصد کو حاصل کرنے کے واسطے ہمیں اپنے آپ کو تشویق دینی ہوتی ہے۔ ایک مسلسل جدوجہد جاری رکھنی پڑھتی ہے۔ مسئلہ اس وقت گھمبیر ہوجاتا ہے جب ہماری جنگ خود اپنے آپ سے ہو، ہم اپنے آپ کو سمجھتے کیا ہیں اور ہم حقیقت میں ہوتے کیا ہیں؟ ایسی صورتحال میں ہم دو میں سے ایک احساس میں پھنس جاتے ہیں؛ احساسِ برتری یا احساس کمتری۔
کمتر ہونے کا احساس بہت معیوب سمجھا جاتا ہے لیکن درحقیقت کمتری کا احساس اتنا برا نہیں ہوتا بلکہ زندگی میں آگے بڑھنے اور کچھ کر دکھانے کے لئے ضروری ہوتا ہے۔ دنیا کا ہر عظیم آدمی کسی نہ کسی سطح پر کمتری کے احساس کا شکار ہوتا ہے اور یہی اس کی کامیابی کا پوشیدہ راز ہوتا ہے۔
دوسری طرف برتری کا احساس زہر قاتل اور انسان کی کامیابی کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہوتا ہے۔ خود پسندی اور حد سے بڑھ کر غیر ضروری خود اعتمادی احساس برتری ہی کی دین ہوتی ہے۔ برتری کا یہ مہلک احساس انسان کو اس کی حقیقی حیثیت اور شناخت سے دور لے جاتا ہے۔ کسی بھی لیڈر میں برتری کا احساس انتہائی تباہ کن ہوتا ہے۔ برتری کے احساس میں مبتلا شخص کا دائرہ اثر جتنا وسیع ہوتا ہے اتنا ہی وہ اپنے گرد و پیش کے لئے تباہ کن ثابت ہوتا ہے۔
عمران خان کے کریڈٹ پر بہت سارے ایسے اعزازات ہیں جو ہمارے گردوپیش کم ہی لوگوں کو ملے ہوں گے۔ کرکٹ کی دنیا میں شہرت کی جس بلندی پر عمران خان پہنچے کم ہی لوگوں سے ان کا موازنہ کیا جاسکتا ہے۔ سپورٹس کی کامیابیوں کو سوشل ورک اور سوشل ورک کے زریعے سیاست کی دنیا میں قدم رکھنا اور اپنی منزل تک پہنچنے کے لئے پیہم جدوجہد کرنا عمران خان کی قوت ارادی کی دلیل ہے۔
خان صاحب کا مسئلہ البتہ یہ ہے کہ برتری کے شدید احساس نے اُن کو گھیر رکھا ہے۔ کرکٹ کے میدان میں قدم جمانے کے بعد انہوں نے کسی کی کپتانی کو قبول نہیں کیا۔ جاوید میانداد کی کپتانی میں کھیلنے سے انکار اور بغاوت خان صاحب کے احساسِ برتری میں مبتلا ہونے کا ثبوت ہے۔ خان صاحب وسیم اکرم، وقار یونس اور انضمام جیسے کھلاڑیوں کے کامیاب کیرئر کا کریڈٹ لیتے تھکتے نہیں۔ ان کھلاڑیوں کے کامیاب کیرئر میں جہاں ان کی اپنی صلاحیتوں کو دخل ہے وہاں عمران خان کا ان پر اعتماد بھی کلیدی اہمیت کا حامل ہے لیکن ہمیں یاد ہے کہ چند ایک باصلاحیت کھلاڑیوں کے کیرئیر کی تباہی بھی عمران خان کے کاندھوں پر آتی ہے۔ ذاکر خان اور منصور اختر جیسے کردار بھی خان صاحب کی قائدانہ صلاحیتوں کے گرد سوالیہ نشان کی صورت موجود ہیں۔
اپنے آپ کو دوسروں سے برتر سمجھنے کی خُو خان صاحب کی سیاسی کیرئیر میں بھی موجود ہے۔ دوسروں کی تحقیر اور تذلیل سے خان صاحب کبھی نہیں کتراتے جس کی وجہ بھی احساس برتری کے جراثیم ہیں۔ زرداری اور نوازشریف جیسے سیاستدانوں کے مقابلے میں خان صاحب اپنے آپ کو بہت افضل سمجھتے ہیں۔ اپنے آپ کو دوسروں سے بہتر سمجھنا شائد اتنی بری عادت ہے بھی نہیں لیکن دوسروں کی کمزوریوں اور خامیوں کو اپنی کامیابی کے لئے سیڑھی بنانا اور خود احتسابی سے گریز ایک اوسط درجے کی لیڈر کی نشانی ہے۔
خان صاحب اکثر اوقات لیڈر کی تعریف اور تشریح کرتے رہتے ہیں، لیڈر ایسا ہوتا ہے، ایسا نہیں ہوتا، لیڈر یہ کرتا ہے وہ نہیں کرتا جیسے جملے خان صاحب کی زبان سے اکثر اوقات ادا ہوتے ہیں، ہم اگر غور کریں تو اس کے پس منظر میں بھی دراصل یہ ثابت کرنے کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ ایک حقیقی اور پیدائشی لیڈر ہیں، اس طرز عمل کو محتاط الفاظ میں اپنے منہ میاں مٹھو بننا ہی کہا جاسکتا ہے۔
خان صاحب کو بار بار لیڈر اور لیڈری پر اپنی فصاحت اور بلاغت صرف کرنے سے گریز کرنا چاہئے۔ فصاحت اور بلاغت کا ترکہ ویسے بھی ان کے پاس واجبی سا ہے۔ لیڈر کیا ہوتا ہے، کیا کرتا ہے اس سے عام آدمی کو غرض نہیں کہ عام آدمی کتابیں نہیں لکھتا، عام آدمی کو اپنی زندگی میں آسانی اور سکون چاہئے ہوتا ہے؛ جو بندہ اس کے لئے زندگی بہتر طور پر گزارنے کے اسباب پیدا کر لے، وہی اس کے لئے لیڈر ہوتا ہے۔
خان صاحب کو اب وزیراعظم بن کر سوچنا چاہئے، ہر جگہ اپنی زندگی کا ذکر اور اپنی کامیابیوں کے قصے سنانے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ یہ قصے لکھنے اور سنانے کے لئے ہم جیسے بے شمار فارغ اور بیکار لوگ موجود ہیں، بس وہ کچھ کر کے دکھائے، ہم ان کی کامیابیوں کی داستان لکھنے کے لئے ویسے بھی بے چین اور بیقرار ہیں۔ خان صاحب برتری اور تفاخر کے اس احساس سے باہر نکل آئے تو ان کے وزیر اور مشیر وغیرہ بھی اپنے کاموں میں لگ جائیں گے اور آخری بات یہ کہ ماہرین نفسیات کے مطابق برتری کا احساس درحقیقت گہرائی میں موجود احساس کمتری ہی کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔
♦