کامران فیاض
تنقید ایک تخلیقی عمل ہے۔ ایک بامعنی تنقید کی خوبی یہ ہے کہ اس میں موجود مختلف عوامل کو مختلف نظریات (جو کہ عموماً دانشوروں نے مرتب کر رکھے ہوتے ہیں جن میں کچھ ہمہ گیر اور کچھ مخصوص معاشرتی رویوں سے جڑے ہوتے ہیں) کی رو سے گزارتے ہوئے، مثبت اور منفی پہلووں کو اجاگر کیا جائے۔ تنقیدی عمل ایک نقاد کے ذریعے انجام پاتا ہے۔
ہر نقاد کے عقائد و نظریات مختلف ہوتے ہیں جن کا تنقیدی عمل پر اثر انداز ہونا ناگزیر ہوتا ہے، چاہے وہ کسی بھی مکتبہ ہائے فکر سے تعلق رکھتا ہو۔ تنقید کا مقصد دو طرفہ ہوتا ہے۔ ایک طرف تو یہ عوامی آگاہی کا ذریعہ ہے کہ قاری تحریر کو بخوبی سمجھ سکے اور اپنی شعوری سطح پر اس کا تجزیہ کرنے کے قابل ہو سکے۔ اور دوسرا مقصد فن کی ترویج ہے۔ یہ دلیل اقرار اور مزاحمت کے ایک مستقل اشتراک کا تقاضا کرتی ہے۔
ہمارے یہاں تنقید وقتاً فوقتاً پروپیگنڈہ کی نظر رہی ہے۔ کہیں ذاتی مفاد کے حصول کے لیے اسے استعمال کیا گیا ہے تو کہیں کسی کو نیچا دکھانے کے لیے۔ دائیں بازو کے دانشور بائیں بازو کے لکھاریوں میں طرح طرح کے کیڑے نکالتے ہیں تو بائیں بازو کے دانشور دائیں بازو کی تحاریر پر تبصرہ کرنا بھی اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔ پاولو فریرے اس خاص صورتحال کو تنگ نظری سے مشابہت دیتا ہے۔ اپنی کتاب ‘مظلوموں کی تعلیم‘ میں وہ دائیں اور بائیں بازوں کے نمائندوں کے بارے میں لکھتا ہے کہ
” دائیں بازو کا تنگ نظر اپنے آپ کو اپنے ‘سچ‘ میں مقید کر کے اپنے قدرتی کردار کو ادا کرنے سے زائد کچھ نہیں کرتا۔ بائیں بازو کا نمائندہ تنگ نظر اور لکیر کا فقیر کا بن کر دراصل اپنے ہی کردار کی نفی کرتا ہے۔ چنانچہ دونوں اپنے اپنے سچ کے گرد گھومتے ہوئے تنقیدی نگاہ کو اپنے لیے خطرہ محسوس کرتے ہیں اور یوں سوائے اپنے سچ کے ہر دوسرے نقطہ نظر کو جھوٹ تصور کرتے ہیں۔ جیسا کہ صحافی مارکیو موریرا آلوز نے ایک دفعہ مجھے کہا: وہ دونوں تشکیک کی عدم موجودگی کی بیماری کا شکار ہیں“۔
ہمارے دانشوروں کی ہٹ دھرمیوں اور ذمہ داریوں سے غفلت کی بدولت عوام میں اپنے سے جڑے معاشرتی و سیاسی حالات سے قطع تعلق کی فضاء قائم ہو چکی ہے۔ عوام اس ساری صورتحال سے بیزار اور بے چینی کا شکار ہے۔ بے ہنگم قیاس آرائیوں نے بامعنی تجزیوں اور تبصروں کی جگہ لے لی ہے تو آگاہی کی جگہ تذبذب نے لے لی ہے۔
تنقید ، تعلیم کا ایک جزو ہے، ایک نقطۂ نظر ہے۔ تعلیم کا مقصد شعور، اصلاح اور مختلف سماجی پہلووں کی نشونما کا نام ہے۔ انسانی ارتقاء و تہزیب تعلیم کے ساتھ بالواسطہ جڑی ہوتی ہے۔ کسی بھی تعلیمی نقطۂ نظر کا مقصد تعلیم کو اس کے عظیم مقصد کے پایۂ تکمیل تک پہنچانے میں اپنا کردار ادا کرنا ہوتا ہے۔
سراج مینر صاحب اپنے ایک مضمون “اسلامی تہزیب – بنیادی مباحث” میں لکھتے ہیں کہ “تہزیب فطرت کے سیاق و سباق میں اعمالِ انسانیہ کے نتائج کے ذریعے وجود میں آتی ہے، اس لیے اس میں بنیادی چیز حقیقت سے عقل کے ربط کی نوعیت ہے ، کیوں کہ کہ اسی اعتبار سے عمل کی شکل متعین ہوتی ہے۔ ” سراج منیر صاحب کی ان چند سطور میں جو بات یہاں قابل توجہ ہے وہ ہے حقیقت سے عقل کا ربط۔ دانشور طبقہ اس مخصوص ربط کو ہی بنیاد بنا کر عوامی فلاح کا بیڑا اٹھاتا ہے۔ یہ طبقہ پھر معاشرتی حالات کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرنے اور پھر ان میں مثبت تبدیلی لانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
دانشور حضرات سے چند گزارشات:۔
الف) اپنے ذاتی عناد اور ذاتی فوائد کو عوامی فلاح کے آڑے نہ آنے دیں۔ تعلیمی سطح پر اختلاف مثبت پہلو سمجھا جاتا ہے جس سے مختلف دوسرے پہلو جنم لیتے ہیں جن کو سمجھنے اور سدھارنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ مخالفت تعلقات میں بگاڑ لاتی ہے۔ اور دانشوروں کی مخالفت میں سب سے بڑا نقصان عوام کا ہوتا کیونکہ عوام کسی حد تک آپ کو مصلح کا درجہ دیتے ہیں۔
ب) عوامی آگاہی اور ان کے مسائل کے حل کے لیے عوامی روابط پیدا کیے جائیں۔ دورِ حاضر میں عوامی رابطہ کا ذریعہ میڈیا بن چکا ہے اور میڈیا کی دیانت داری پر بہت سے سُوالات اٹھائے جا سکتے ہیں (زرد صحافت )۔ اس صورتحال کے پیش نظر ان کو بالواسطہ عوامی تعلق پیدا کرنے کی ضرورت ہے جس میں عوام کی آرا کو اہمیت دی جانی چاہیے۔
“اگر ہم ان (عوام) کی سوچ کی نفی کرتے ہیں تو کیا یہ ہماری ان سے علیحدگی نہیں ؟ اور کیا یہ ان کا رجعت پسند عناصر کی طرف رجحان پیدا نہیں کرتا جن کا ہمارے ساتھ مقابلہ ہے؟ ” ڈاکٹر علی شریعتی (آزاد خیال مفکر کا مشن)۔
ج) عوامی رابطہ پیدا کرنے کے لیے مخصوص معاشرتی حقائق سے آگاہ ہونا اولین شرط ہے ۔ معاشرتی حقیقی آگاہی اور ٹھوس ترقی کے لیے مخصوص معاشرتی کرداروں ہی سے مدد لی جانی چاہیے۔ ان کرداروں میں مفکر، مقامی ورثہ، ادب، سیاست ، ثقافت، غرض ہر مخصوص سماجی پہلو کے ساتھ ربط بہت ضروری ہے۔
” ہمارا انحصار مغربی مفکرین کی پچھلی کچھ دہائیوں کے ان کے خیالات پر ہے۔ کس درجہ تک ان کے نقشہ، خیالات و افکار ہمارے معاشرے سے ہم آہنگی پیدا کرتے ہیں اور ہماری ذمہ داریوں کا تعین کرتے ہیں؟” ڈاکٹر علی شریعتی (آزاد خیال مفکر کا مشن)۔
♦