کافر کہانی

حسن مجتبیٰ

بچپن میں میری دوستی ایک نابینا حافظ قرآن سے ہو گئی تھی، جن کے توسط سے میں پھر کئی ایسے مذہبی لوگوں میں اٹھنے بیٹھنے لگا تھا، جن کا ایک ہی کام ہوتا تھا کہ خود کے علاوہ وہ ہر دوسرے عقیدے والے مسلمان کو کافر قرار دینا ہے۔

حافظ صاحب راسخ العقیدہ دیوبندی تھے لیکن وہ خود کسی سیاسی مولوی، خطیب یا پھر دوسروں کو ہر وقت کافر قرار دینے والوں سے بالکل مختلف تھے۔ یہ ایک بڑی کہانی ہے پھر کبھی سہی۔ لیکن میں نے انہی اصحاب کی صحبت میں پہلی بار مشرک اور کافر کے الفاظ سنے۔ مدرسوں اور مساجد میں کافی وقت گزارا، جہاں سے بعد میں خود بھی کافر بنا لیکن حافظ صاحب سے میری دوستی قائم رہی۔

یہ ضیا الحق کے دور سے کچھ پہلے کی بات ہے۔ پھر اچانک ایسا ہوا کہ شہر میں ’’قادیانی کافر‘‘ اور ’’قادیانیوں کا سوشل بائیکاٹ کرو‘‘ کے پوسٹر اور اسٹیکر لگ گئے، جن کی زد میں میرا ایک کلاس فیلو لڑکا بھی آیا، جو کہ احمدی تو نہیں تھا لیکن اس کی دوستی احمدیوں کے ساتھ تھی۔ بلکہ وہ اسکول کے بعد ایک احمدی گھڑی اور ریڈیو ساز کی دکان پر کام کرتا اور ان ہی کے ساتھ دن رات اٹھتا بیٹھتا تھا۔ زمین اس غیر احمدی آرائیں لڑکے کے خلاف  اتنی تنگ کر دی گئی کہ آخرکار اسے خودکشی کرنا پڑی۔

 سوشل بائیکاٹ کیا ہوتا ہے کئی دنوں بعد مجھے پھر لگ پتہ گیا، جب ایک دفعہ بطور صحافی الطاف حسین کی پریس کانفرنس کور کرنے پر سندھی صحافیوں نے میرا ڈھائی ماہ تک سوشل بائیکاٹ کیا تھا کہ انہوں نے اپنے اخبارات میں الطاف حسین کی پریس کانفرنس کور کرنے کا بائیکاٹ کیا ہوا تھا۔ بہت دن ہوئے کہ میری ایک صحافی ساتھی نے الطاف حسین کا نام ’’ہڑتال حسین‘‘ رکھا تھا۔

ویسے پچھلے دنوں خادم حسین کی لٹھ بردار ہڑتالوں میں الطاف حسین لوگوں کو بہت یاد آیا۔ مجھے بھی اس طرح یاد آیا کہ وہ آج بھی پاکستان میں واحد سیاستدان ہے، جو ملاؤں اور جرنیلوں پر گرجتا برستا ہے اپنی تقریروں میں۔ اقلیتوں کی کھلی حمایت کرتا ہے۔ اب کے بار بلاول بھٹو زرداری نے بھی ایسا ہی کیا کہ آسیہ بی بی کی بریت پر ملک میں تمام لوگوں اور اداروں کو سپریم کورٹ کے پیچھے کھڑے رہنے کی اپیل کی۔

کاش وفاق میں اپنے دور حکومت میں بلاول اور اس کی پارٹی اس بلاسفیمی کے قانون کا کچھ کرتے، جس کی دیگ تو ان کے نانا جی چڑھا کر گئے تھے پر اس کا ڈھکن ضیا الحق نے آکر اتارا تھا۔ لیکن اس کی آگ تو1890 میں برصغیر پر بدیسی انگریز حاکموں نے لگائی تھی۔ یعنی کہ بلاسفیمی یا توہین مذہب کا قانون برطانوی استعماری حکمرانوں نے متعارف کروایا تھا۔ لیکن شاذ و نادرہی کسی کو سزا ہوئی ہو۔ مقصد کافر کافر کے کھیل کو مسلمانوں، ہندوؤں، سکھوں اور عیسائیوں کے مابین ہوا دینا تھا۔

پھر سبھی خود ہی جج، جیوری، عالم ، فاضل، صوفی اور سالک بن بیٹھے۔ حیرت ہے کہ جناح علم دین کی سزائے موت کے خلاف پنجاب ہائیکورٹ میں وکیل بنے اور علم الدین کی پھانسی کے بعد علامہ اقبال نے کہا تھا،’’ترکھانوں کا لڑکا ہم پڑھے لکھوں سے بازی لے گیا۔‘‘ یعنی کہ پڑھے لکھے علامہ خود غازی  علم دین بننا چاہتے تھے۔

سلمان تاثیر کے ابا دین محمد تاثیر کے گھر سے وہ چارپائی گئی، جس پر پھانسی کے بعد علم دین کی میت رکھی گئی تھی۔ پر انہی مولویوں نے اس کے بیٹے کا ہی جنازہ پڑھ‍انے سے انکار کر دیا۔ جس جج نے سلمان تاثیر کے قاتل کو سزا سنائی، وہ ملک ہی چھوڑ گیا، پھر وہی ملک کے ٹھیکے دار بن بیٹھے، جنہوں نے ملک کے بانی کے خلاف ’کافر اعظم‘ کا فتویٰ دیا تھا۔

فتووں کی فیکٹریاں کھلتی گئیں بلکہ پاکستان سے پہلے بنیاد رکھی برطانوی حکمرانوں نے اور پاکستان بننے کے بعد آمرانہ نظام نے اپنے حق میں فتوے لے کر جڑیں پکڑیں۔ ایوب خان نے فاطمہ جناح کے خلاف فتویٰ لیا کہ بطور عورت وہ صدر نہیں بن سکتیں۔ بھٹو کے سوشلزم کے نعرے کے خلاف ایک سو چار مولویوں نے کفر کا فتویٰ دیا۔

پھر فوجی آمر ضیا الحق نے تو بھٹو خواتین کو سیاست سے باہر رکھنے کو کوشش میں ملک میں عورتوں کے خلاف ’امتیازی اور ظالمانہ قوانین‘ متعارف کروائے۔ ضیا کے دور حکومت میں ساہیوال کی  نابینا عورت صفیہ بی بی کو کوڑے مارے گئے۔ کراچی میں ایک سندھی جج نے شاہدہ پروین کو سزائے موت بذریعہ سنگسار ی سنائی۔ اب بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں۔ کسی نے اسی پر اعتراض و احتجاج کیا کہ قندیل بلوچ کے قاتل بھائی کو کیسے بری کیا گیا؟ یا یہ کہ قندیل کو کس کی شہہ پر قتل کیا گیا؟

  جس وکیل نے آسیہ بی بی کا دفاع کیا  وہ بھی ملک چھوڑ کر مغربی دنیا میں جان کو پناہ کی اپیلیں کرتا پھرتا ہے۔ سارا ملک سلمان حیدر کی نظم بنا ہوا ہے کہ تو بھی کافر میں بھی کافر۔ سب خرابی تب سے شروع ہوئی، جب سبھی نے خود ہی جج، جیوری اور مفتی بننا شروع کیا۔ کسی نے کیا خوب کہا تھا کہ مرغے اپنے ڈربوں میں، ملاں اپنے حجروں میں اور فوج بیرکوں تک ہی ہونی چاہیے۔

DW

Comments are closed.