گلوبل ویلج میں اپنا گھر

بیرسٹر حمید باشانی

کیا قوم پرستی اورعالم گیریت میں تضاد ہے ؟ یاقومی تشخص اور عالمی تشخص کے تصورات میں کوئی ہم آہنگی نہیں ہے؟ امریکہ میں صدر ٹرمپ کے انتخاب اور برطانیہ کے یورپین یونین سے نکلنے کے بعد یہ سوال عالمی دانشور حلقوں میں شدت سے زیر بحث ہے۔

کہا جاتا ہے کہ بنیادی طور پر سارے بنی نوع انسان کی تہذیب میں بہت کچھ مشترک ہے، بہت کچھ مختلف ہے۔ مگرساری دنیا کے لوگوں کو ایک جیسے چیلنجز اور مواقع میسرہیں۔ تو پھر امریکی، برطانوی ، روسی اور کئی دوسری اقوام آج قوم پرستی کی طرف کیوں جھک رہی ہیں ؟ کیا قوم پرستی کی طرف رجوع کرنے سے دنیا کے مسائل کا حل ڈھونڈا جا سکتا ہے۔ یا یہ محض فرار ہے ، جس کی وجہ سے تباہی انسان کا مقدر بن سکتی ہے؟

یہ سوال پروفیسر حریری نے قوم پرستی کے باب کے تحت اپنی کتاب، اکیسویں صدی کے لیے اکیس اسباق ، میں اٹھایا ہے۔ پروفیسر کا خیال ہے کہ اس سوال کا جواب دینے سے پہلے ایک مظالطے کا ازالہ ضروری ہے۔ عام خیال کے بر عکس، قوم پرستی انسانی نفسیات کا لازمی اور فطری حصہ نہیں ہے۔ اور اس کی جڑیں انسانی بائیولوجی میں پیوست نہیں ہیں۔ 

یہ سچ ہے کہ انسان سماجی جانور ہے۔ گروہ بندی اس کے جین میں ہے، یعنی یہ رحجان نسبی یا موروثی ہے۔ ہزاروں لاکھوں سال سے انسان برادری کی شکل میں رہتے رہے ہیں۔ انسان چھوٹے چھوٹے گروہوں کے ساتھ آسانی سے منسلک ہوتے ہیں۔ ان میں قبیلہ، برادری وغیرہ شامل ہیں۔ مگر یہ انسان کے لیے آسان نہیں تھا کہ وہ لاکھوں اجنبیوں کے ساتھ آسانی سے گھل مل کر رہ سکے۔ اتنے بڑے پیمانے پر قومی اور ملکی وفاداریوں کا آغاز کوئی دو ہزار سال پہلے ہوا، اور یہ سماجی تعمیر کی بہت بڑی کوششوں کا نتیجہ ہے۔

لوگوں نے قومی سطح پر یکجا ہونے کے لیے اتنی محنت اس لیے کی کہ ان کو ایسے چیلنجز کا سامنا تھا، جن کا حل قبیلے انفرادی طور پر نکالنے کے قابل نہیں تھے۔ اس سلسلے میں ان قدیم قبائل کی مثال لی جا سکتی ہے، جو صدیوں سے دریائے نیل کے کنارے بستے تھے۔ دریا ان کی زندگی تھا، یہ ان کو کھیتوں کو پانی دیتا تھا۔ اور ان کی تجارت کے کام آتا تھا۔ لیکن یہ ایک قابل پیشن گوئی اتحادی نہیں تھا۔ بارش کم ہو تو لوگ بھوک سے مرنے لگتے تھے۔ زیادہ بارش ہوتی تو دریا ان کے پورے گاوں کو بہا لے جاتا تھا۔

یہ بڑا مسئلہ تھا، اورکوئی ایک قبیلہ اکیلایہ مسئلہ حل نہیں کر سکتاتھا۔ چونکہ ہر قبیلہ دریا کے صرف ایک چھوٹے سے حصے پر قدرت رکھتا تھا، اور محدود تعداد میں مزدوروں کو جمع کرنے کی استطاعت رکھتا تھا۔ بڑے تالاب بنانے اور نہریں کھودنے کے لیے ایک بڑی اور مشترکہ کوشش کی ضرورت تھی۔ یہ وہ وجوہات تھیں، جن کی بنا پر قبیلے آپس میں متحد ہو کر قوموں میں تبدیل ہوئے۔ تاکہ وہ ڈیم اور نہریں بنا سکیں۔ سینکڑوں میل پر پھیلے ہوئے دریا کو قابو کر سکیں۔ گودام بنانے اور اناج زخیرہ کرنے کا بندو بست کر سکیں۔ اور ملکی سطح پر نقل و حرکت اور اطلاعات کا ایک نظام قائم کر سکیں۔ 

ان فوائد کے باوجود قبیلوں کو ایک قوم میں متحد کرنا آسان نہ تھا۔ تب بھی نہیں تھا اور آج بھی نہیں ہے۔ ہزاروں ایسے لوگوں کو جن سے کبھی ملاقات نہ ہوئی ہو، یا ان سے ملاقات کے مستقبل میں امکانات نہ ہوں کو اپنا سمجھنا آسان نہیں ہے۔ اور ان سے وفا داری محسوس کرنا شکار کے زمانے کے آباو اجداد کی وراثت نہیں ہے، بلکہ جدید دور کا ایک معجزہ ہے۔ اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو جوڑنے کے لیے ریاست کو بڑے پیمانے پر تعلیم وتربیت کا ایک نظام قائم کرنا ہوتا ہے۔

اس کا مطلب یہ نہیں کہ قومی بندھن بنانے میں کوئی خرابی ہے۔ یہ یقین کرنا کے میری قوم منفرد ہے۔ یہ میری وفاداری کی حق دار ہے، اور اس کے لیے میری خاص ذمہ داریاں ہیں۔ اس سے میرے اندر دوسروں کے لیے قربانی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے ۔ پرامن، خوش حال اور لبرل ممالک جیسے سویڈن، جرمنی اور سوئٹذر لینڈ سب میں مضبوط قوم پرستی پائی جاتی ہے۔ اور جن ممالک میں قوم پرستی نہیں ہے، ان کی فہرست میں افغانستان، صومالیہ جیسے ممالک شامل ہیں، جہاں لوگ اپنی ہی قوم اور ملک کے لوگوں کے ساتھ خون کی ہولی کھیلنے میں مصروف ہیں۔

قوم پرستی بذات خود کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب محب وطنی شاونزم بن جائے، یعنی یہ جنونی اورجارحانہ وطن پرستی کا روپ دھار لے۔ یا پھر الٹرا نیشنل ازم یعنی جنونی اور شدت پسند قوم پرستی کی شکل میں سامنے آجائے ۔ یہ یقین کرنے کے بجائے کہ میری قوم منفرد و یکتاہے ، میں یہ یقین کرنے لگتا ہوں کہ میری قوم باقی سب قوموں سے برتر ہے۔ یہ سوچ پرتشدد تصادم کے لیے زرخیر زمین تیار کرتی ہے۔ 

انیسویں اور بیسویں صدی کی ابتدا میں قوم پرستی ایک خوش کن تصور رہا ہے۔ اگر چہ قوم پرستی قوموں کو بڑے پیمانے پر تصادم کی طرف بھی لے جا رہی تھی ، لیکن پھر بھی قومی بنیادوں پر ہی قوموں نے تعلیم، صحت اور بہبود کا ایک بڑا نظام قائم کیا۔ سال 1945 میں سب کچھ بدل گیا۔ نیوکلئیر ہتھیاروں کی ایجاد سے کھیل ہی بدل گیا۔ ہیرو شیما کے بعد لوگوں کو یہ خوف نہیں رہاتھا کہ قوم پرستی ہمیں جنگ کی طرف لے جائے گی، بلکہ ان کو یہ خوف پیدا ہوا کہ قوم پرستی ہمیں نیو کلئیرجنگ میں جھونک سکتی ہے۔

اس خوف کی وجہ سے قوم پرستی کے جن کو واپس آدھا بوتل میں بند کر دیا گیا۔ جس طرح دریائے نیل کے کنارے بسنے والے قبائل نے اپنی وفاداری قبیلوں سے ختم کر کے بڑی قوم سے وابستہ کی جو ان کو دریا کے قہر سے بچا سکتی تھی ، اسی طرح نیوکلئیردور میں کچھ قومیں ابھری جو مل جل کر نیوکلئیر کے بھوت کامقابلہ کر سکتے تھے۔ 

سنہ1964 میں صدر لنڈن جانسن نے اپنی انتخابی مہم کے دوران کہا تھاکہ ایک ایسی دنیا تعمیر کرنے کے لیے جس میں خدا کی مخلوق اکھٹی رہ سکے، ہمیں ایک دوسرے سے پیار رکرناپڑے گا ، یا پھر ہم سب مٹ جائیں گے۔ اس وقت تک، محبت کرو جنگ نہیں، کا نعرہ پہلے ہی تسلیم کیا جا چکا تھا۔ اس کے نتیجے میں سرد جنگ کے دوران آہستہ آہستہ قوم پرستی پیچھے ہٹتی گئی۔ اور عالمی سیاست میں ایک نیا عالمی تناظر ابھرا۔

اور جب سرد جنگ ختم ہوئی تو گلوبلائیزیشن ایک طوفانی لہر کی طرح ابھری۔ یہ سمجھا جانے لگا تھا کہ دنیا قوم پرستی کو ایک قدیم تصور کی باقیات کے طور پر بھول جا ئے گی۔ مگرحالیہ واقعات نے ثابت کیا کہ قوم پرستی کا ابھی تک مضبوط اثر باقی ہے۔ یہ اثر صرف روس ، چین اور بھارت میں ہی نہیں، امریکہ اور برطانیہ جیسے ممالک کے شہریوں پر بھی کم نہیں ہے۔ 

ماضی میں اس لیے قومی تشخص کا ابھار ہوا کہ قبائلی نظام کو ایسے مسائل اور مواقع کا سامنا تھا جو اس کی استطاعت سے بڑے تھے۔ یہی صورت حال آج پھر درپیش ہے۔ اکیسویں صدی میں قومیں اور ملک انفرادی طور پر اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ وہ درپیش سنگین مسائل کا مقابلہ کر سکیں۔ یہ مسائل عالمی ہیں۔ معاشیات، ماحولیات اور سائنس عالمی مسائل اور مواقع ہیں۔ ان کے حل کے لیے عالمی تعاون اور ایک نئے عالمی تشخص کی ضرورت ہے۔ 

حاصل کلام یہ ہے کہ قوم پرستی اور عالم گیریت میں کوئی تصادم نہیں ہے۔ بشرطیکہ قوم پرستی تنگ نظر اور جارحانہ نہ ہو۔ ترقی پسند اور پر امن بقائے باہمی کے اصولوں کی پابند ہو۔ ہمارے عہد میں دنیا کو جن مسائل کا سامناہے، وہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے عالمی ہیں۔ ان مسائل کا حل مشترکہ عالمی کوشش اور تعاون کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ دنیا ایک عالمی گاوں ہے، اور اگر یہ گاوں پر امن ہو، اور اس میں گھر سب کا اپناا پنا ہو تو اس میں خرابی کیا ہے۔

♦ 

Comments are closed.