ظفر آغا
اللہ کی پناہ، کیا دبدبہ تھا ایم جے اکبر کا! اکبر جو لکھ دیں وہ پتھر کی لکیر، حرف آخر۔ جس سیاستدان کے حق میں اکبر وہ بس پارا اور اکبر جس کے مخالف وہ مٹی۔ جی ہاں، اکبر ہندوستان کے غالباً واحد صحافی رہے ہیں جن کی شہرت محض ہندوستان اور پاکستان ہی تک نہیں محدود تھی بلکہ اکبر دنیا بھر کے چند مشہور ترین صحافیوں میں سے ایک رہے ہیں۔
پھر یکایک اکبر کو سیاست کا شوق ہوا اور وہ کچھ دن کانگریس میں رہے، پھر واپس میدان صحافت میں آئے اور اپنے جوہر دکھائے اور آخر مودی کی قیادت میں بی جے پی میں شامل ہو گئے۔ آخر اکبر مودی حکومت میں وزیر بھی ہو گئے۔
صرف صحافی ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے عالمانہ طبقہ کو اکبر کے اس فیصلے نے محو حیرت کر دیا۔ جواہر لال نہرو اور راجیو گاندھی جیسے لبرل قائدین کے دلدادہ اکبر گجرات فسادات کے الزام میں گھرے، نریندر مودی کو آخر اپنا قائد کیسے بنا بیٹھے یہ کسی کی سمجھ میں نہیں آیا۔ دنیا بھر میں شور مچ گیا کہ اصولوں اور انصاف کا قلمی ڈھنڈورا پیٹنے والے اکبرموقع پرست ہیں۔ کیونکہ کسی کو یہ سمجھ میں نہیں آیا کہ کل تک لبرلزم اور سیکولرزم کے علمبردار ایم جے اکبر کو سنگھ اور بی جے پی کی فرقہ پرست سیاست میں سوائے موقع پرستی کے اور کیا گْن نظر آئے کہ وہ مودی کے ساتھ ہو لیے! ۔
بہر حال اکبر کے پاس ایسی کون سی چیز تھی کہ جس کی کمی رہی ہو۔ شہرت اللہ نے ان کو جی بھر کے دی، کامیابی کا یہ عالم کہ انھوں نے جس اخبار یا میگزین کو چھو دیا وہ آسمان پر پہنچ گیا۔ گھوڑا، گاڑی، مکان، فارم ہاؤس دنیا کی ہر نعمت سے مالا مال اکبر کو کسی شے کی ضرورت نہیں تھی۔ لیکن بقول ان کے نقادوں کی ہوس نے اکبر کو مارا۔
جی ہاں، 7-6 خاتون صحافیوں نے اکبر پر جنسی زیادتیوں جیسے الزام لگائے ہیں ان سے تو کچھ ایسا ہی محسوس ہوتا ہے کہ اکبر کو ہوس نے مارا۔ سیاست کی تو اصولوں سے پرے، اور جنسی بھوک کے شکار ہوئے تو حد سے گزر گئے۔ اب یہ عالم ہے کہ شور ہے کہ اکبر کو حکومت سے باہر کرو۔ اس کالم کے لکھے جانے تک وہ ہندوستان سے باہر تھے اور ان کا کوئی بیان نہیں آیا تھا۔ لیکن یہ طے ہے کہ حکومت سے ان کا باہر جانا لازمی ہے۔
مسلم عورتوں کے حقوق کی دم بھرنے والی بھارتیہ جنتا پارٹی اکبر کو حکومت سے باہر کرنے میں آنا کانی کر رہی ہے۔ لب و لباب یہ کہ اکبر کے عروج و زوال کو دیکھ کر قرآن کی وہ آیت یاد آئی جس کے معنی ہیں: اللہ جس کو چاہے عزت دے اور اللہ جس کو چاہے ذلت دے۔ جی ہاں، اکبر کو اللہ نے عزت دی تو آسمان پر بیٹھا دیا اور اب جب ذلت دی تو اکبر کے لیے زمین میں بھی دھنسنے کی جگہ نہیں بچی۔
خیر، یہ تو اکبر کا معاملہ ہے، وہ جلد ہی کیفر کردار تک پہنچ جائیں گے۔ لیکن اکبر اور نانا پاٹیکر جیسے لوگوں پر لگے ’می ٹو‘ کیمپین نے جنسی ہوس کا جو مسئلہ کھڑا کیا ہے وہ انتہائی سنگین ہے۔ دراصل اس کیمپین کی شروعات ٹھیک ایک برس قبل امریکہ میں ہالی ووڈ فلمی دنیا سے شروع ہوئی جس میں وہاں کی اداکاراؤں نے ایک مشہور ڈائریکٹر ہاروے وینسٹین پر یہ الزام لگایا کہ اپنی کامیابی کے نشہ میں ڈوبا وہ کیسے جوان اداکاراؤں کے ساتھ اپنی جنسی بھوک کا ناجائز استعمال کرتا تھا۔
اکثر واقعات برسوں پرانے تھے لیکن ان کا شور مچ گیا، دنیا بھر میں عورتوں نے اپنا منھ کھولنا شروع کر دیا اور اپنی آپ بیتی سنانی شروع کر دی۔ اس طرح ’ہیش ٹیگ می ٹو‘ یعنی ’میں بھی اس میں شامل ہوں‘ مومنٹ دنیا بھر میں چل پڑا۔ اور اب وہی مومنٹ ہندوستان میں اپنا شور بپا کیے ہوئے ہے۔ فلم انڈسٹری، میڈیا، ٹی وی، ایڈورٹائزمنٹ ہی کیا، ہر کاروباری شعبہ میں اس تحریک کا شور ہے اور ایک ایک کر کے بڑے بڑے بت گر رہے ہیں۔ اکبر بھی اسی تحریک کے شکار ہوئے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مرد نے عورت کو ہمیشہ اپنے سے کمتر اور اکثر اپنی جنسی لونڈی سمجھا۔ لیکن پھر عورتیں اس نا انصافی کے خلاف جدوجہد کر کے مردوں کے شانہ بہ شانہ کھڑی ہوتی گئیں۔ حد یہ ہے کہ بیسویں اور اکیسویں صدی میں عورت زندگی کے ہر شعبہ میں مردوں کی طرح کھڑی نظر آئی۔ لیکن چند افراد نے اس آزادیٔ نسواں کا غلط فائدہ اٹھایا اور اپنے اقتدار اور اعلیٰ عہدے کے زعم میں عورت کا جنسی استحصال شروع کر دیا۔
چونکہ عورت کو نوکری اور ترقی چاہیے تھی، اس وجہ سے اکثر کچھ عورتیں خاموش رہیں اور کچھ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر گھر جا بیٹھیں لیکن یہ اکیسویں صدی، یہ اسمارٹ فون کا دور ہے۔ آج کی لڑکی ہر شے کی طرح بدل چکی ہے۔ اس کو روزگار بھی چاہیے اور عزت بھی۔ اس اکیسویں صدی کی عورت گھْٹ گھْٹ کر جینے کو تیار نہیں ہے۔ ’می ٹو‘ مومنٹ اس حقیقت کی دلیل ہے اور وہ چاہے ایم جے اکبر ہوں یا نانا پاٹیکر، آج کی دنیا میں جنسی بھیڑیوں کی جگہ ختم ہوتی جا رہی ہے۔
عورت اتنی ہی قابل احترام ہے جتنی کہ مرد۔ اس جمہوری دنیا میں دونوں کو بالکل برابر کے اختیار ہیں۔ ان میں سے کسی کو کسی کا جنسی یا کسی اور قسم کا استحصال کرنے کا حق نہیں ہے۔ یہ اختیار اب محض آئین تک محدود نہیں رہ سکتا بلکہ اب اس اختیار کو آج کی عورت ہر صورت میں لے کر رہے گی۔ اگر کوئی اس کو یہ اختیار دینے کو تیار نہیں تو اس کو اس کے نتائج بھگتنے پڑیں گے۔
وہ ایم جے اکبر ہوں، خواہ نانا پاٹیکر، ہر کسی کا احتساب ہوگا اور عورت کو اس کا حق و انصاف ملے گا۔ حقوق نسواں کی اس جدوجہد میں ہم اس کے ساتھ ہی نہیں بلکہ اس کے ساتھ شانہ بہ شانہ چلنے کو بھی تیار کھڑے ہیں۔ ’می ٹو‘ کے پرچم تلے عورت نے جو تحریک شروع کی ہے وہ کامیاب ہوگی اور یقین ہے کہ روزی کے نام پر عورتوں کے جس جنسی استحصال کا چلن ہو گیا ہے وہ بھی ختم ہوگا۔
روزنامہ سیاست، حیدرآباد، انڈیا