آمنہ اختر
پاکستان ملک کے حالات کی کشیدگی ایک طرف مگر گھریلو یا خانگی حالات کس قدر گھمبیر ہو چکے ہیں اس کو کبھی اہم جانا ہی نہیں گیا ہے عورت ہو یا مرد وہ انتہائی تکلیف دہ حالات سے گزر رہے ہیں ۔مگر جہاں تک پاکستانی عورت کی صورت حال ہے وہ معاشرتی اور معاشی طور پر کم تر ہونے کی وجہ سے جسمانی اور ذہنی طور پر تکلیف تو اٹھا ہی رہی ہے مگر جنسی ملاپ کے نتیجے میں اپنے ہی مرد سے جسمانی تشدد کا شکار بننا تشویش ناک حد تک بڑھ گیا ہے۔
میرا اشارہ شادی کے نام کے ساتھ جڑے ہوئے اس جنسی تعلق کا ہے جو کہ ایک شادی شدہ عورت کو ہر صورت نبھانا ہوتا ہے ۔ چاہے اسکی مرضی اس میں شامل ہو یا ناں ہو ۔اس طرح زبردستی سے کئے گے جنسی تعلق کو زنا بالجبر کہا جاتا ہے ۔تشویش ناک بات یہ ہے کہ دو بالغ افراد کے جنسی تعلق کو ان کے قریبی لوگ خود پلان کرتے ہیں جس کی وجہ سے اسے مرد یا عورت کی طرف سے زنا بالجبر کے متعلق سوچنے بھی نہیں دیا جاتا ۔کیونکہ اس جرم کا ذمہ دار ایک نہیں بلکہ کنبے کے بالغ وہ تمام افراد ہیں جو ان کی کفالت کے بھی ذمہ دار ہیں اس لئے پاکستان جیسے ملک میں اس جرم کی کوئی حیثیت ہے اور نہ ہی کوئی کاروائی ۔ بلکہ 2002میں جو خواتین تحفظ بل پیش کیا گیا اس میں بھی اس جرم کے بارے کوئی شک شامل نہیں کی گئی ۔
اس بات سے قطع تعلق کہ بالغ افراد کس طرح عذاب والی زندگی گزارتے ہیں اور ان کے اپنے بچے ان کی تلخ زندگی سے کس قدر ذہنی بیمار ہوتے ہیں ۔ اور بچہ اپنے والدین کی ناں سمجھ آنے والی چپقلش زدہ زندگی سے اپنا ذہنی سکون کھو دیتا ہے جو اس کی زندگی کے ہر پہلو کو متاثر کرتا ہے ۔افسوس س سے کہنا پڑتا ہے کہ حکومت کسی طرح کی کوئی شنوائی نہیں کرتی اور نہ ہی اس پہلو پر مستقل بنیادوں پرکو ئی لائحہ عمل بنتا نظر آ رہا ہے ۔
تشویش ناک بات تو یہ ہے کہ مذہب کی تعلیم جس کو پاکستان میں بہت اہم گرد انا جاتا ہے اس کے اصول کے مطابق مرد اپنی عورت کا کفیل ہے جو کہ جدید دور کی کوئی پاسداری نہیں رکھتا ۔اسے تعلیم یا فتہ مرد اور خاندان بھی ختم نہیں کرنا چاہ رہے فیملی کے قوانین میں کوئی گنجائش نظر نہیں آتی تا کہ عورت اس تشدد کو بیان یا اسکے خلاف کوئی قدم لے سکے ۔
یعنی شادی کے نام پر جنسی تشدد کی روک تھام کے لئے اگر مذہبی عدالت میں کوئی صحت مند اقدام نہیں تو ملکی انسانی عدالت کے قوانین میں بھی شادی کے نام پر عورت کے ساتھ جنسی تشدد کے خلاف کوئی داد رسی کے اقدام موجود نہیں ہیں۔ بلکہ عورت اس تشدد کو کسی اور طریقے سے پولیس میں درج کروا کے اپنے خاوند سے نجات حاصل کرتی ہے ۔مگر اپنے ہی مرد سے ہوئے جنسی تشدد کے بعد کسی ہسپتال یا صحت کے ادارے میں ان خواتین کی صحت یا چیک اپ کی سہولت بھی موجود نہیں ہے ۔
چونکہ اس جنسی تشدد کو خاندان والوں نے خود پلان کیا ہوتا ہے اس لئے عورت اپنی ماں بہن کے پاس اپنے مرد سے ملے ذہنی مسائل کا زبانی کلامی گلہ کرتی ہے ۔مگر جنسی عمل کے دوران ہونے والے اندرونی جسمانی زخموں کا صرف رو کر اظہار کرتی ہے ۔
اپسالا یونیورسٹی سویڈن کی ریسرچ کے مطابق گھریلو تشدد زیادہ تر گھر کی چار دیواری میں ہوتا ہے اور ان افراد کے ہاتھوں جو اپ کے انتہائی قریب ہوتے ہیں ۔اور یہ شدت اختیار کر جاتا ہے جب آپ اس ٹوٹے پھوٹے رشتے کو مجبوری یا معاشرتی دباو کی وجہ سے نبھانے پر مجبور ہو کر برقرار رکھتے ہیں۔
ایک نجی ریسرچ کے مطابق شادی شدہ عورت اپنے مرد سے جنسی تعلق کرنے سے انکار کر بھی لے تو وہی مرد جو کہ معاشی طور پر کنبے کا مالک ہے اپنی ہی بیوی اور بچوں کو کئی دن تک بنیادی ضروریات جس میں گھر کا راشن وغیرہ شامل ہے اور سرد مہر رویہ اختیار کر کے ذہنی سزا دیتا ہے ۔
اقوام متحدہ کے انسانی قانون کے مطابق بین الاقومی سطح پر ہر حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ عورت کے ساتھ ہوئے جنسی تشدد کی نشاندہی کرے بلکہ ملزم کو سزا اور عورت کو اس تشدد کے بعد علاج معالجہ کی سہولتیں بھی فراہم کرے ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ انسانی قانون پاکستان کے اندر موجود انسانوں کی زندگیوں کو بہتر بنانے کے لئے کیوں لاگو نہیں کیا جا سکتا ۔
ساری بحث سے نتیجہ تو یہی نکلتا ہے کہ مذہبی قوانین اور پرانی ثقافتی تحریریں ہمارے لیے اذیت ناک ہیں ان کے بےجا استعمال سے ہمارے شادی کے ادارے کی صحت بہت ہی مشکوک ہے اور اس میں آنے والی نئی نسلوں کی بھی خانہ خرابی ہے چاہے وہ پاکستان میں ہوں یا یورپ اور ترقی یافتہ ملکوں کی تازہ ہواؤں میں پیدا ہوں ۔کیونکہ ذہن تو وہی ہیں انہیں پاکستان میں بنا لو یا پاکستان سے باہر ۔
لہذا صحت مند جنسی تعلق کے لئے ضروری ہے کہ شادی کا ادارہ مرد اور عورت کو جنسی تعلیم برابر کی بنیادوں پر دے اور دو انسانوں کے درمیان ہونے والے جنسی کنٹریکٹ کو والدین قبول کریں ناکہ دو افراد والدین کے بنائے ہوئے کنٹریکٹ پر عمل کریں ۔
♦