کوئٹہ میں لاپتہ افراد کے لواحقین نے 19 نومبر بروز سوموار ایک احتجاجی ریلی نکالی، جو لاپتہ افراد کے کیمپ سے نکل کر مختلف شاہراہوں سے ہوتی ہوئی پریس کلب کے سامنے اختتام پذیر ہوئی۔
ریلی میں مرد و زن کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ مختلف سیاسی جماعتوں، طلبا تنظیموں، سول سوسائٹی کے افراد سینکڑوں کی تعداد میں شریک ہوئے اور لاپتہ افراد کے ورثا سے اظہارِ یکجہتی کیا۔
ریلی سے ایک روز قبل، لاپتہ افراد کے ورثا خصوصاًخواتین اور معصوم بچوں کی جانب سے احتجاجی ریلی میں شمولیت کے پمفلٹ بھی شہریوں میں تقسیم کیے گئے۔ بچوں کے پمفلٹ تقسیم کرنے کی تصویریں سوشل میڈیا پہ وائرل ہونے سے شرکا کی تعداد میں خاصا فرق پڑا اور نوجوانوں نے ایک دوسرے سے کمیونیکیشن کر کے ایک دوسرے کو ریلی میں شمولیت کا پیغام پہنچایا۔
مظاہرین نے مختلف بینرز اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے، جن پر لاپتہ افراد کی بازیابی کے حوالے سے مطالبات اور نعرے درج تھے۔ ریلی کے شرکا اس حوالے سے نعرہ بازی بھی کرتے رہے۔
مظاہرین سے خطاب کرنے والے مقررین نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ ان کے پیاروں کی بازیابی کو یقینی بنائے اور صوبہ بھر میں ماورائے عدالت گرفتاریوں کا سلسلہ ختم ہونا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر کسی نے قانون کے خلاف کوئی کام کیا ہے، تو ان پر مقدمہ درج کیا جائے، عدالتوں میں پیش کیا جائے اور قانون کے مطابق سزا دی جائے۔ اس طرح ماورائے قانون شہریوں کی گمشدگی ریاست کے کردار پر سوالیہ نشان پیدا کرتی ہے۔
مقررین کا کہنا تھا کہ اگر ریاست اپنے شہریوں کو انصاف فراہم کرنے میں ناکام ہو جائے تو شہری انسانی حقوق کے عالمی اداروں کی طرف دیکھنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ جس کی ذمہ داری ریاستی اداروں پر عائد ہوتی ہے۔
واضح رہے کہ بلوچستان میں سیاسی کارکنوں اور شہریوں کی گمشدگی کا سلسلہ ایک دہائی سے جاری ہے۔ جس کے حوالے سے ماما قدیر بلوچ اور وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز گزشتہ کئی برسوں سے آواز اٹھاتے آ رہے ہیں۔ البتہ حالیہ احتجاج میں اس وقت شدت دیکھنے کو آئی جب آواران سے طلبا تنظیم کے لاپتہ کارکن شبیر بلوچ کی ہمیشرہ اور اہلیہ اس کیمپ میں پہنچیں۔ ان کے احتجاج کے بعد دیگر لاپتہ افراد کے اہلِ خانہ خصوصآ خواتین نے اس کیمپ کو جوائن کیا۔ جس کے بعد اس احتجاج میں دن بدن شدت دکھائی دے رہی ہے۔
کوئٹہ میں پچھلے کچھ ہفتوں سے جبری طور پر لاپتہ کیے گئے افراد کے لواحقین احتجاج کر رہے ہیں ۔ ان لاپتہ بلوچ افراد کی بازیابی کے لیے ہزاروں کی تعداد میں بلوچ خواتین ، بچے اور مرد بلوچستان ہائیکورٹ کے سامنے دھرنا دیئے بیٹھے ہیں مگر بہت سے معاملات پر آزاد و بے لگام قومی میڈیا اور روشن خیال صحافیوں کی خاموشی معنی خیز ہے۔
سوشل میڈیا پر ایک بلوچ نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ احتجاج کرنے والوں میں سے کسی نے جان لاک، جان سٹیورٹ مل یا رچرڈ پرائس کا نام نہیں سنا۔ کسی کو قدیم یونان میں جنم لینے والی لبرل روایات کا علم نہیں ہے۔ کوئی یہ نہیں جانتا کہ آج جس پارلیمانی نظام کے باعث عام آدمی کو آواز ملی ہے وہ اسی لبرلزم کی دین ہے۔
لیکن جنہوں نے جان لاک ،جان اسٹیورٹ مل یا رچرڈ پرائس کا نام سنا بھی انہیں پڑھا بھی انہیں قدیم یونان میں جنم لینے والی روایات کا علم بھی ہے اور وہ دانشور یہ بھی جانتے ہوں کہ پارلیمانی نظام کے باعث عام آدمی کو جو آواز ملی ہے وہ بھی اسی لبرل ازم کی دین ہے یہ سب کچھ جاننے اور سمجھنے کی باوجود انکی روشن خیالی پہ لاپتہ افراد کے مسئلے پر تالے کیوں پڑجاتے ہیں۔
حال احوال ۔نیٹ نیوز