عامر گمریانی
حج کے مبارک عبادت کا احوال سننا اور سنانا دونوں دلچسپی کا باعث ہوتے ہیں۔ وہ جس کا قصہ سنا رہا تھا اُس سے اُس کی ملاقات مقدس سرزمین پر ہوئی تھی اور جو احوال وہ سنا رہا تھا دلچسپی سے خالی ہرگز نہ تھا، یہ اور بات کہ اس کے قہقہے بھرے قصے سے حجاز مقدس کے دلگداز احساسات کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ وہ لہک لہک کر مزے لے لے کر ہمیں ہمارا چہرہ دکھا رہا تھا۔ وہ جس لطف سے قصہ سنا رہا تھا وہ کسی المیے سے کم نہ تھا۔ کوئی کس طرح اپنی بدصورتی کو اس سہولت کے ساتھ مزے لے لے کر بیان کر سکتا ہے۔
ہماری اس ملاقات کو ایک سال سے زائد بیت چکا اور میں کب کا بھول بھی چکا لیکن نئے پاکستان میں پرانے نیب کی پھرتیاں دیکھ کر وہ ملاقات یاد آ ہی گئی۔ جو بندہ ہمیں اس واردات کے متعلق بتا رہا تھا خود پاکستان تحریک انصاف کا سرگرم رکن ہے۔ عمران خان تک ان کی رسائی ہے اور پارٹی کے اندر اس کی کافی پہنچ ہے۔ جس بندے کے متعلق وہ ہمیں بتا رہا تھا اُس نے خود اُسے اپنی کارگزاری پیش کی تھی۔
اپنی کارگزاری بلکہ کارہائے نمایاں بیان کرنے والا بندہ پاکستان کے ایک نہایت اہم تحقیقاتی ( انویسٹیگیٹیو) ادارے میں پچھلے کم و بیش پچیس سال سے کام کررہا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے دور میں بھرتی ہوا تھا اور کئی نشیب و فراز سے گزر کر تاحال اسی ادارے میں سر گرم بلکہ سرگرم عمل ہے۔ دونوں صاحبان فریضۂ حج ادا کرنے گئے تھے اور وہاں پر ایک دوسرے کے سامنے اپنے دل کھول کر رکھ دیے۔ جس کا قصہ ہے، اسی کی زبانی سن لیجیے۔
جنرل پرویز مشرف کا ابتدائی زمانہ تھا اور احتساب کا نعرہ زوروں پر تھا۔ انکوائریاں چل رہی تھیں کہ میری قسمت جاگ اٹھی۔ ایک بندہ میرے پاس آیا اور کہا کہ یار سنا ہے نیب نے ایک فہرست تیار کی ہے جس میں بہت سارے لوگوں کے نام ہیں، آپ کسی طرح میرے نام کا پتہ کرو اس فہرست میں، اور چائے پانی کی فکر مت کرو، سب کچھ ہوجائے گا۔ میں نے اس بندے کو تسلی دے کر بھیج دیا اور اسی سے میرے ذہن میں ایک انوکھا خیال آیا۔ بدعنوان لوگ چونکہ سارے اپنے ہی قبیلے سے ہیں، میں نے چند لوگوں میں یہ خبر پھیلا دی کہ نیب کی اس ٹیم میں مجھے بھی شامل کرلیا گیا ہے جو کرپٹ افراد کی فہرست بنا رہی ہے۔
جن لوگوں کے کانوں میں، میں نے بات ڈال دی اُن لوگوں نے اس کارِ خیر کی ذمہ داری اپنے کاندھوں پر لے لی اور ایک سے دوسرے تک ہوتے ہوئے بات سب میں پھیل گئی۔ میری توقع کے عین مطابق مجھ سے رابطے ہونے لگے۔ جو بھی میرے پاس آتا، میں سب کو ایک ہی جواب دیتا ”فکر مت کریں میں ہوں نا“۔ چند ہی دنوں میں لمبی فہرست بن گئی، جسے لے کر میں نیب کے آفس پہنچا۔ یار دوستوں سے کہا کہ اس ٹیم میں مجھے شامل کر لو کہ اُن سے لمبی فہرست میرے پاس ہے۔
تھوڑی کوشش سے میں اس ٹیم کا حصہ بن گیا اور پھر کیا تھا لکشمی دیوی میرا انتظار کررہی تھی کہ جلدی سے انگلی سے پکڑ اور گھر لے چل۔ میرے پاس لوگ وہ تھے جو چور کی داڑھی میں تنکا کے مصداق خود ہی میرے پاس آئے تھے، اکثر کے نام فہرست میں شامل ہی نہیں تھے۔ بس انہیں اپنی چوریوں کی فکر تھی۔ خود ہی نذر و نیاز سمیت آنے لگے۔ بہ مشکل ایک ہی مہینہ گزرا ہوگا کہ نوٹوں کی برسات ہونے لگی۔ ایک سہانی رات ساری گاڑی نوٹوں سے بھر کر اسلام آباد سے گھر کے لئے روانہ ہوا۔ کمرہ نوٹوں سے بھر گیا۔ آج بھی جنرل مشرف کو دعا دیتا ہوں کہ اس کے ایک فیصلے کی وجہ سے سالوں کا سفر دنوں میں طے کرنے کے قابل ہوا۔
احتساب کی جو تازہ تازہ ہوا چلی ہے اس میں نہ جانے کتنے لوگوں کے نصیب جاگ گئے۔ حکومت اور کچھ کرنے میں سنجیدہ ہو نہ ہو، احتساب کے ذریعے انقلاب لانے میں ضرور سنجیدہ ہے۔ جنرل مشرف کو دعائیں دینے والے آج بھی موجود ہیں، آنے والا کل عمران خان کو دعائیں دینے والے لائے گا۔ ایک بات البتہ غور طلب ہے کہ بند کمروں میں کروڑوں روپے کے سودے کرنے والی نیب کے بدعنوان عناصر کا احتساب کون کرے گا؟ میں نے جو قصہ سنایا وہ ایک معمولی اہلکار کا تھا۔ آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ نیب کے اعلی عہدوں پر کام کرنے والوں میں سے بدعنوان لوگوں نے پلی بارگیننگ کے نام پر کیا کیا نہیں کیا ہوگا؟ کبھی کسی حکمران کو نیب کے احتساب کا خیال آیا تو نہ جانے کیا کیا قصے برآمد ہوں گے۔
احتساب ضروری ہے لیکن اپنے سیاسی مفادات کے لئے مخصوص لوگوں کا احتساب کیا اس قوم کا کچھ بھلا کر سکے گا؟ ویسے ایک افواہ نما خبر یا خبر نما افواہ یہ بھی ہے کہ عمران خان اپنے وزیرِ دفاع سے بھی جان چھڑانے کے چکر میں ہیں اور اس کے لئے بھی نیب کے نیک نام ادارے کو بروئے کار لایا جائے گا۔ اس طرح خان صاحب ایک تیر سے دو شکار کرنے کے قابل ہو جائیں گے، ایک تو جان چھوٹ جائے گی اور دوسرا احتساب کے عمل کی شفافیت کا ایک ثبوت بھی عوام اور اپنے مخالفین کے سامنے پیش کرنے کی پوزیشن میں آجائیں گے۔ اس بات پر یقین کرنا مشکل ہی ہے لیکن پاکستان کی سیاست میں کوئی بھی چیز انہونی نہیں اور یہ اس ملک کا بچہ بچہ اچھی طرح جانتا ہے۔
♥