ممبئی میں ہونے والے سلسلہ وار بم دھماکوں کے دس برس مکمل ہونے پر بھارت میں یادگاری سوگوار تقاریب کا اہتمام کیا جارہا ہے۔ اس موقع پر امریکا نے مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان ان واقعات میں ملوث دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرے۔
یاد رہے کہ پاکستانی ریاست نے عالمی دباو کو کم کرنے کے لیے ممبئی حملے کے ذمہ داروں کو گرفتار کیا تھا لیکن کئی سال سے ان کے کیس کی سماعت ہی نہیں ہو رہی ۔ جبکہ اس حملے کا مرکزی کردار ذکی الرحمن لکھوی ضمانت پر رہا ہو چکا ہے ۔
چھبیس نومبر 2008 کو بھارت کے تجارتی مرکز ممبئی میں کیے گئے منظم دہشت گردانہ حملوں کے دس برس مکمل ہونے پر ممبئی میں متعدد یادگاری سوگوار تقریبات کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ ان حملوں کے نتیجے میں 166 افراد ہلاک جبکہ 100 سے زائد شہری زخمی ہوئے تھے۔
دہشت گردی کے اس افسوسناک واقعے میں ہلاک ہونے والے افراد میں ممبئی پولیس کے ایک درجن سے زائد اہلکار بھی شامل تھے۔
بھارتی ریاست مہاراشٹر کے مرکزی سیاسی رہنما، پولیس، عام شہری اور ہلاک ہونے والے افراد کے لواحقین کی جانب سے آج بروز پیر ممبئی شہر کے مختلف مقامات پر متاثرہ افراد کو خراج عقیدت پیش کیا جا رہا ہے۔
بھارت کی جانب سے اس دہشت گردانہ کارروائی کے لیے پاکستان میں کالعدم جماعت لشکر طیبہ پر الزام عائد کیا گیا تھا۔ پاکستان نے ان حملوں کے ذمہ داروں کو گرفتار بھی کیا تھا لیکن یہ سب شاید دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے تھا۔ بعد ازاں ممبئی حملوں کے باعث پاکستان اور بھارت کے سفارتی تعلقات میں کشیدگی بڑھ گئی تھی۔
دوسری جانب امریکی سیکریٹری خارجہ مائیک پومپیو نے پاکستان پر ایک مرتبہ پھر دباؤ بڑھاتے ہوئے ممبئی حملوں کے ذمہ دار افراد کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ مائیک پومپیو نے اپنے بیان میں کہا، ’’ہم ان تمام ممالک سے، اور خصوصاﹰ پاکستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کے احکامات پر عمل درآمد کرتے ہوئے ان واقعات میں ملوث دہشتگردوں پر بشمول لشکرِ طیبہ اور ان کے اتحادی گروہ پر پابندیاں عائد کریں، ‘‘۔
واشنگٹن حکومت نے ممبئی حملوں کی کارروائی کے مبینہ ماسٹر مائنڈ حافظ محمد سعید کی گرفتاری میں مدد فراہم کرنے پر دس ملین امریکی ڈالر کے انعام کا اعلان کیا ہے۔ واضح رہے کہ دہشت گردی اور ممبئی حملوں میں ملوث ہونے کی وجہ سے اقوام متحدہ کی جانب سے لشکر طیبہ کے بانی حافظ سعید کی تنظیم کو کالعدم جبکہ ان کو دہشت گرد قرار دیا جا چکا ہے۔
سابق صدر ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف نے رواں برس انتخابات کے موقع پر نجی پاکستانی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے خود کو ’ لشکرِ طیبہ‘ کا حمایتی قرار دیاتھا۔ جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ایسٹیبلشمنٹ کیسے ان دہشت گردوں کی پشت پناہی کر رہی ہے۔
پاکستان کے نجی ٹی وی چینل ’اے آر وائی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے سابق صدر نے اپنی لبرل سوچ کے برعکس ’مجلسِ وحدت المسلمین‘ اور ’سنی اتحاد کونسل‘ جیسی مذہبی جماعتوں سے اتحاد کے بارے میں جواب دیتے ہوئے کہا،’’وہ ترقی پسند خیال کے حامی ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں وہ مذہبی جماعتوں کے خلاف ہیں۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ’’یہ ایک دلچسپ منظر ہوگا جب مذہبی جماعتیں لبرل سوچ کے حامیوں کے ساتھ مل کر کام کریں گی‘‘۔
مشرف نے بہت واضح انداز میں کہا تھا،’’وہ جماعت الدعوہ اور لشکرِ طیبہ کے سب سے بڑے حامی ہیں اور یہ جماعتیں بھی انہیں پسند کرتی ہیں۔‘‘ تاہم امریکا کو مطلوب حافظ سعید کو مشرف کے دورِ حکومت میں دو مرتبہ گرفتار بھی کیا گیا تھا۔ بعد ازاں جنوری سنہ 2002 میں انہوں نے لشکرِ طیبہ پر پابندی بھی عائد کی تھی۔
پابندی کے بعد، حافظ سعید نے لشکر طیبہ کو جماعت الدعوة کے نام سے ایک نئی تنظیم میں تبدیل کر دیا تھا۔ بعدازاں اس پر بھی پابندی لگنے کے بعد اب وہ تحریک فلاح انسانیت کے نام سے اپنی سرگرمیوں میں برابر مصروف ہیں۔ رواں برس پاکستان کے عام انتخابات میں ان کی جماعت نے حصہ بھی لیا لیکن ایک بھی نشست جیتنے میں کامیاب نہ ہوسکی۔
DW/News Desk