حبیب شیخ
“میں تم سے تنگ آ چکا ہوں ۔ اب اسی سوچ میں ہوں کہ کس طرح تم سے جان چھڑاؤں ۔“
” وہ کیوں ؟”
” تمہارے پاس انسانوں کو دینے کے لئے کیا ہے ؟ جنگ ، ظلم ، بھوک ، جہالت ، بیماری ۔ تم کس بات پر اتنا اکڑتے ہو؟ “
” میں حقیقت ہوں اور تم صرف فریب ہو۔ میں تمہارے بغیر زندہ رہ سکتا ہوں لیکن تمہارا وجود میرے بنا ممکن نہیں ۔”
” اس فریب کے زریعے ہی تو انسان جی رہا ہے ۔ تمہاری حقیقت میں تلخی کے علاوہ کچھ بھی نہیں !”
” تمہارے پاس جھوٹے وعدے ، جھوٹے خواب ہیں۔ کیا کسی کو دھوکا دینا اچھی بات ہے ؟”
” تمہاری تلخ حقیقتوں نے مجھے مجبور کیا ہے کہ میں انسان کو آس دوں ، کچھ مسکراہٹ دوں ، کوئی سہانا خواب دکھاؤں تا کہ وہ زندگی گزار سکے ۔ انسان امید کے سہارے سب کچھ برداشت کر لیتا ہے۔ اگر میں کوئی امید نہ دوں تو وہ حقائق کے پہاڑ تلے دب جائے گا ۔ مرنے سے پہلے ہی مر جائے گا ۔ پاگل ہو کر اپنی نسل کو خود ہی ختم کر دے گا ۔”
” لیکن ان ساری مصیبتوں کے ذمے دار تم ہی تو ہو۔”
” اب تم اپنے گناہ مجھ پر لاد رہے ہو !”
” یہی انسان غاروں اور جنگلات میں رہتا تھا ۔ اس کو صرف اس دن کے کھانے کی فکر تھی۔ اس لئے اس کو عام طور پر دوسرے انسانوں سے لڑنے یا ان کو لوٹنے کی ضرورت نہیں تھی ۔ تم وجود میں آئے اور اس کے ذہن میں کل کی فکر ڈال دی ۔ وہ فصلیں اگانے لگ گیا۔ اور اسی سے اس کو ملکیت کا خیال آیا ۔
۔ میری فصل، میری زمین ، میری ملکیت ، میرے قبیلے کی ملکیت ۔ اور یہ ملکیت ہی اس ارض پر دنگے فساد کا سبب بن گئی ، بے چینی کا سبب بن گئی ، چھیننے اور لڑنے مارنے کا سبب بن گئی ۔ اب تم یہ قیامت برپا کر کے انسان کو خیالوں اور خوابوں سے بہلاتے ہو اور مجھے تلخ حقیقت کا طعنہ دیتے ہو ۔ اب بتاو کہ کون ہے اس لوٹ مار، جنگ و جدل کا ذمے دار ؟”
دوسری طرف سے کوئی جواب نہیں آیا۔
” تم نے انسان کو مستقبل کا شعور دے کر اس سے چین سکون چھین لیا ۔ وہ اپنی کل کی فکر میں آج کو خراب کرتا ہے۔ لیکن اب تمہارا وجود ایک مجبوری بن گیا ہے جسے مجھے ہمیشہ برداشت کرنا پڑے گا۔ تمہارے سہارے ہی انسان سب کچھ سہہ لیتا ہے ، اچھے وقت کا انتظار کرتا رہتا ہے۔ تم ہی اس زخم کے ذمے دار ہو اور اب تم ہی اس کا مرہم ہو!”۔
♦