آپ اپنے بیٹے کا نام شیر رکھتے ہو
کھوتا اور گدھا
کیوں نہیں
جس وقت صوبے کے لئے نام دینے کا مسئلہ تنازعہ کی صورت اختیار کرگیا تو ان دنوں میں بعض لکھاریوں اور سیاست دانوں نے یہ بھی کہا کہ نام میں کیا رکھا ہے اور یہ زیادہ تر وہ کالم نگار یا سیاست دان تھے جن کے اپنے صوبوں کا اپنا ایک نام تھا
بہر حال نام کا اپنا ایک مقام ہوتا ہے
نئے ملک کا نام پاکستان رکھنے والے نے سوچ سمجھ کر ہی یہ نام رکھا ہے
البتہ اگر نام کے ساتھ وابستہ خوبیاں اور صفات نہ ہوں تو پھرمذاق کا باعث بھی بن سکتا ہے میرا نام نواب ہے اور معاشی حالت کا یہ عالم ہے کہ صبح ہے اور شام کو بھوک سے سیٹی بجاتا ہوں تو لوگ مجھے نام کانواب کہنے میں حق بجانب ہوں گے اگر کسی کا نام نواب ہے تو اس کے یہ ہرگز معنی نہیں کہ اس کے پاس پیسہ بھی ہے اور بے حساب ہے چنانچہ لوگو ں کا یہ کہنا صحیح ہے کہ کسی کو صرف نام کا ہی نواب نہیں ہونا چاہئے
مہاتما بدھ ہماری قدیم تہذیب کا ایک عظیم نام ہے ان کی یوگا اور آسن کو آج یورپ میں بھی ایک اہم مقام دیا گیا ہے آسن کے دوران الفاظ کا ذہن پرکیااور کتنا اثر ہوتا ہے راقم الحروف اس سے ذاتی طور پر مستفید ہوچکے ہیں شاید یہی وجہ ہے کہ کہا جاتا ہے کہ دعا میں اثر ہوتا ہے جو کہ بنیادی طور پر نفسیاتی اثر ہوتا ہے اسی بدھا کے شاگرد بدھ بھکشو کہلاتے تھے وہ عوام میں بدھ کی تعلیمات پھیلاتے تھے وقت آگے کی جانب سرکتا گیا مگر وہ ان ہی تعلیمات تک محدود رہے چنانچہ دنیا کی علم اور معلومات کے حوالے سے دوڑ میں وہ پیچھے رہ گئے تو بدھ بھکشو سے بدھو کہلائے جانے لگے اور رفتہ رفتہ بدھو کا یہ لفظ سادہ، ناسمجھ، نابلد اوربے وقوف کے ہم معنی ہوگیا
اسی طرح
کسی کا نام سخی جان ہے اور اس میں سخاوت کی خوبی نہیں ہے بلکہ وہ بخیل اور کنجوس ہے تو ایسی صورت میں بھی وہ صرف نام کا ہی سخی جان ہے اور ایک باغی کانام تو غلام علی یا غلام خان وغیرہ بالکل نہیں ہونا چاہئے ایسی صورت میں نہ صرف عوام کے دھوکہ کھانے کا احتمال رہے گا بلکہ حکومت کو بھی مشکل پیش آئے گی
فرض کیا ایک بندہ حکومت کا باغی ہے اور اس کا نام غلام ہے تو وہ اسے کیا کہے گی
غلام باغی کو گرفتار کیا جائے
ہاں البتہ وہ یہ کہہ سکتی ہے کہ باغی غلام کو گرفتار کیا جائے
نام دو یا چار الفاظ پر بھی مشتمل ہوسکتا ہے اور اس سے زائد الفاظ کا مجموعہ بھی ہوسکتا ہے لیکن اگر آپ کا نام ان الفاظ سے بھی زیادہ طویل ہے تو اس کا زیادہ امکان ہے کہ بڑھیا آپ کو اندر آنے کی اجازت نہ دے اور دروازے کے پیچھے کھڑی ہی کہہ دے:
’’بیٹا اتنے سارے بندوں کے لئے گھر میں جگہ نہیں ہے‘‘
یہ قصہ یوں ہے کہ ایک بادشاہ اور اس کا وزیر باتدبیر شکار کرتے کرتے جنگل میں راستہ بھول گئے اتنے میں رات کا اندھیرا چھانے لگا تو وزیر نے بادشاہ کو مشورہ دیا کہ یہیں کہیں ٹھکانہ تلاش کرکے رات بسر کرلیتے ہیں ادھر ادھر دیکھنے لگے تو ایک جگہ روشنی دکھائی دی دروازہ کھٹکھٹایا تو اندر سے ایک بوڑھی زنانہ آواز آئی:
’’کون ہے؟‘‘
وزیر نے بادشاہ کا نام لینے سے پہلے بادشاہ کے صفاتی الفاظ اور کلمات ادا کئے جو کہ نام سے پہلے لینا ضروری خیال کئے جاتے تھے تو اندر سے بڑھیا نے کہا:
’’ بیٹا چھوٹا گھر ہے اتنے بندوں کے لئے جگہ نہیں ہے‘‘
ہمارے سماج میں امارت و غربت موجود ہے اور یہ پہلے بھی تھی اور اب بھی ہے یہ غربت و امارت بسا اوقات مفلس و قلاش کنبوں کے ناموں میں بھی چھپی ہوتی ہے غریب انسان اپنے دولت مند ہونے کی حسرت و امید بچوں کے نام نواب، امیر، دولت خان، شاہ ایران اور شاہ فہد رکھ کر پوری کرنے کی سعی کرتا ہے اس طرح وہ اپنے آپ کو نفسیاتی طور پر تسلی دیتا ہے کیا ہواا گر دولت اور پیسہ نہیں، کاروبنگلہ نہیں ہے بیٹے کا نام تو نواب رکھ سکتے ہیں یا پھر اپنی عاجزی کا اظہار اپنے بچوں کے نام غلام اور سادہ رکھ کر کرتا ہے چنانچہ نام صرف نام نہیں ہوتا ہے یہ آپ کے طبقہ کی غمازی اور چغلی بھی کھاتے ہیں
آپ کو شاید ہی کسی امیر کبیر شخص کے بیٹے کا نام غلام یا پھر سادہ گل ملے گا بلکہ ایک صاحب جائیداد کی کوشش ہوتی ہے کہ اس کے بچے کانام ایسا ہو کہ اس سے ا سارت و وجاہت ٹپکتی ہو جبکہ غریب بچوں کے نام غلام علی اور غلام محمد رکھ کر اپنی عاجزی کا اظہار کرتا ہے تو مالک کو بھی یہ احساس دلانا چاہتا ہے کہ بندہ آپ کا غلام ہے اور اس کا کنبہ بھی غلام ہے ایک غریب اگر کسی جاگیردار اور وڈیرے یا خان کا ملازم ہے تو ایسے نام رکھنے کا اسے ایک فائدہ بھی ہے
چنانچہ اگر اس کا نام غلام ہے اور آقا اسے غلام کہہ کر بلاتا ہے تو وہ ناراض بھی نہیں ہوگا تو کیوں نہ بیٹے کا نام ہی غلام رکھ لیا جائے آقا و مالک تو کیا اگر کوئی دوسرا بھی اسے غلام کہتا ہے تو وہ اس لئے بھی برا نہیں منائے گا کہ اس کا تو نام ہی غلام ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ غریب کی سرے سے ذہنیت ہی غلامانہ ہے اور اس نے اپنے بیٹوں کے ناموں کے ساتھ غلام کا لفظ لگایا ہے
ایک بندے کا نام غلام محمد تھا
اس کے بھائی کانام غلام خان اور باپ کا نام غلام رسول تھا تو انٹرویو کرنے والے نے ہنس کر پوچھا:
’’آپ کا تعلق خاندان غلامان سے ہے!‘‘
یاد رہے کہ ہندوستان میں غلاموں نے کئی برس تک حکومت بھی کی تھی جنہیں خاندان غلامان کہا جاتا ہے
نام ہمیں یہ بھی یاد دلاتے ہیں کہ ہمیں کیا چیز عزیز ہے یا پھر ہم کس علاقہ،تہذیب اور عقیدہ کے پیرو کار ہیں آج کل تبلیغی جماعتوں کے پرچار اور مذہب کے احیاء کی کوششیں زوروں پر ہیں اسی لئے اب کئی مذہبی خاندانوں میں والدین نے اپنے بچوں کے نام عربی طرز پر ر کھنا شروع کئے ہوئے ہیں جن سے بسا اوقات یہ غلط فہمی بھی پیدا ہوسکتی ہے کہ بندہ کسی عرب سرزمین کا باشندہ ہے چنانچہ اگر علی کے باپ کانام غلام علی خان خٹک ہے تو وہ ابو علی بھی لکھ سکتا ہے یا پھر بیٹا علی بن غلام بھی لکھ سکتا ہے
ایسے ناموں کا ایک فائدہ بھی ہے اگر آپ کا نام ایسا ہے جو ناخواندہ ماں باپ نے رکھا تھا اور آپ کو پسند نہیں تو آپ اپنے بیٹے کا اچھا سا نام رکھ کر یہ کجی دور کرسکتے ہیں یا آپ باپ کے نام کو مناسب سمجھتے ہیں چنانچہ آپ ابن علی یا ابو علی رکھ کر یہ کمی دور کرسکتے ہیں یا اگر آپ کا عہدہ کم ہے اور آپ کا بچہ کسی اہم اور اعلیٰ عہدے پر فائز ہے اور آپ کو کوئی نہیں جانتا ہے تو اپنے نام کو اس طرز پر لکھ کر دفتر کے ملازمین کو یہ احساس دلا سکتے ہو کہ میں علی کا باپ ہوں جو کہ آپ کا باس ہے چنانچہ وہ آپ کو نیم باس جان کر قدرے جھک کر دونوں ہاتھ مصافحے کے لئے بڑھا دیں گے اور پھر نہایت آہستگی سے اندر جانے کے لئے دروزہ کھول دیں گے جب آپ ابو علی یا ابن علی کہیں گے تو بابوؤں کو آپ سے پوچھنے کی ضرورت بھی نہیں رہے گی یہ کہ میں علی کا باپ ہوں جو کہ آپ کے ادارے کا مالک یا جی ایم ہے اور ملاقات کرنا چاہتا ہوں آپ کا اتنا کہنا ہی ان کے لئے کافی ہوگا کہ میں ابو علی ہوں
لوگ ایک دوسرے کا نام بگاڑ لیتے ہیں اور پھر مذاق اڑاتے ہیں یا پھر ایک مالک اپنے ملازم کا نام ایسے رکھ لیتا ہے جس سے اس کی تضحیک ہوتی ہے اور غریب اس لئے کچھ نہیں کہتا کہ مالک کو یہ اختیار خود اختیاری کے قانون کے تحت مل جاتا ہے کہ وہ چاہے تو اپنے نوکر کا نام بگاڑ کر بھی اسے بلا سکتا ہے بہر صورت یہ نوکروں کی خوش قسمتی ہے کہ سماج نے اتنی ترقی کرلی ہے کہ اب مالک نام بگاڑ کر اپنے احساس برتری کو ٹھنڈا اور سرد کرسکتا ہے ورنہ تو ایک ایسا دور بھی تھا جب یہی مالک اور آقا اپنے غلام اور نوکر کو جان سے مارنے کا قانونی اور اخلاقی حق بھی رکھتا تھا صرف مالک ہی ملازم کا نام بگاڑتا نہیں بلکہ ایک گاؤں یا محلہ میں بھی اگر ایک شخص انتہائی غریب ہے تو محلے کے باسی اس کو اس کے اصل نام سے پکارنا پسند نہیں کرتے اور خواہ مخواہ کچھ سے کچھ بنادیتے ہیں
نامو ں کو بگاڑنا ہماری حس مزاح کا پتہ بھی دیتی ہے اور ہماری زندہ دلی کو بھی ظاہر کرتی ہے مجھے اپنے لڑکپن کا ایک واقعہ آج بھی یاد ہے پشاور صدر کے ریلوے کالونی میں ایک شخص تھا جو کہ پاک بھارت فسادات کے دوران بھارت سے ادھر آگیا تھا اس کا شاید یہاں پر کوئی عزیز یا رشتہ دار نہیں تھا شروع شروع میں ریلوے میں ملازمت کی ہوگی اس کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا وہ کالونی میں کبھی ایک تو کبھی دوسری جگہ دکھائی دیتا تھا اس کی ایک عادت تھی کہ مبالغہ آرائی کرتا تھا اور یہی بات علاقہ کے باسیوں کے لئے دلچسپی کا باعث تھی انہوں نے اس کا نام بگاڑ دیا تھا اور اسے سنتے بھی اور مذاق بھی اڑاتے تھے اور کبھی کبھار ہمدردی کا اظہار بھی کرتے تھے
اس کا کوئی نہیں تھا لیکن جب وہ فوت ہوگیا تو جنازہ گاہ میں تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی اور ایسا لگ رہا تھا کہ علاقہ کی کوئی اہم اور بڑی شخصیت ہم سے جدا ہوگئی ہے اس کے جنازے میں چھوٹے اور بڑے اور اعلیٰ و ادنیٰ ہر ایک نے شرکت کی جو لوگ اس سے ہنسی مذاق کرتے اور اس کا مذاق اڑاتے تھے وہ خدمت میں پیش پیش تھے اور اداسی ان کے چہروں سے عیاں تھی گویا وہ ان کا کوئی قریب ترین عزیز یا جاننے والا تھا میں نے دیکھا کہ ریلوے کے نکمے اور بیکار لوگوں میں انسان دوستی کھوٹ کھوٹ کر بھری ہوئی ہے
ناموں کی اہمیت اس زمانے میں دیکھی جاسکتی ہے جبکہ برصغیر پاک و ہند میں جاگیرداری اپنے عروج پر تھی چونکہ جاگیرداروں اور نوابوں کو عام محنت کشوں کی بغاوت کا خدشہ بھی رہتا تھا لہٰذا وہ اگر بادشاہ کی طرح اپنے ناموں کے ساتھ ظل اللہ نہیں لکھ سکتے تھے تو اس کے قریب قریب سید،میاں، قاضی اور پیر وغیرہ لکھ لیتے تھے اور جو یہ بھی نہیں کرسکتے تھے تو وہ حج کرکے اپنے نام کے آگے حاجی لکھوانے میں کامیاب ہوجاتے تھے اس کی وجہ سے اسے اپنا پرانا پیشہ یا ذات چھپانا بھی آسان ہوجاتا تھا یہ کہ کل وہ کیا تھا اور آج کیا ہے رفتہ رفتہ لوگ اس کا نام بھول جاتے تھے اور صرف اسے حاجی کے نام سے یاد کرتے تھے آج بھی ایسا ہی ہوتا ہے آپ کو کئی لوگوں کے نام یاد نہیں ہوں گے اور صرف حاجی ہی کہو گے
ناموں کے آگے لفظ یا الفاظ یعنی القابات یا خطابات کا یہ فائدہ بھی ہوتا ہے کہ آپ کے مخاطب کو معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ تنقید کرنے میں کس حد تک جاسکتا ہے چنانچہ اگر کسی کے نام کے آگے پیر یا میاں ہوتا تھا تو بلانے والے کی زبان میں خودبخود حلاوٹ آجاتی تھی اور دوسرا یہ کہ کوئی اس کا نام توڑنے مروڑنے کی جرات بھی نہیں کرسکتا ہے چنانچہ کوئی بچہ کسی پیر کا کہتا اور اس میں بدتمیزی کا شائبہ بھی ہوتا تو ماں اسے فوراً کہتی ایسی بات مت کرو منہ ٹیڑھا ہوجائے گا چنانچہ یہ الفاظ یا نام کے آگے ایسا لفظ پکارنے والوں کو پھاٹک بھی دیتا تھا اور اس طرح کچھ لوگ معاشرے میں تنقید سے مبرا ہوجاتے تھے عدالتوں نے بھی خود کو تنقید سے بچانے کے لئے توہین عدالت کی اصطلاح ایجاد کی ہے چنانچہ آپ عدالت میں ایسے ہی خاموش کھڑے رہتے ہو جیسے بچپن میں سکول میں رہتے تھے
اب یہ گئے وقتوں کی بات ہوگئی ہے کیونکہ اب میڈیا ہے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا ہے پرنٹ میڈیا اگر کچھا چھٹا چھاپنے کے لئے ادھار کھائے بیٹھا ہے تو پرنٹ نے ان بچوں کا کام کرنا ہے جنہوں نے بادشاہ کو ننگا دیکھ لیا تھا میڈیا کی زد سے نہ سادہ گل بچا ہے اور نہ مولوی جان محمد یا چوہدری مہذب خان محفوظ ہے اب نام آپ کو تحفظ فراہم کرنے سے معذور ہیں آپ کو خاندانی مراتب و القابات بھی تنقید سے نہیں بچا سکتے ہیں
بس سیدھا اچھے انسان بنو اور انسان کا بچہ بنو
آج کل جہاں مذہب کے احیاء سے متاثر لوگ اپنے بچوں کے نام عربی طرز پر رکھ رہے ہیں وہاں کئی لوگ ٹیلی ویژن پر کسی اداکار یاا داکارہ کا نام سن کر بھی اپنے نومولود بچے کا رکھ لیتے ہیں جس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ لوگ تبدیلی کے خواہاں ہیں وہ کچھ نیا پن چاہتے ہیں اس کا سبب تعلیم بھی ہے ورنہ جب تعلیم کا فقدان تھا تو لوگوں کے نام کسی درخت، پھل، سبزی اورپتھروں کے نام پر بھی ہوتے تھے اور نام لینے سے فوراً آپ کو یاد بھی آجاتا تھا کہ کیا لینا ہے یا آپ کا دل لینے کے لئے پریشان ہوجاتا تھا جیسا کہ کسی کا نام بادام گل ہے اور کوئی کہتا کہ بادام گل کہاں ہے تو باپ بیٹے کو آواز دیتا جاؤ بیٹا ایک دس روپے کے بادام تو لے آؤ بڑادل کررہا ہے یا انذر گل سے انجیر یاد آجاتے کیونکہ انذر پشتو میں انجیر کو کہتے ہیں سبز علی سے آپ کو رنگ کا احساس بھی ہوجاتا تو یہ خیال بھی آجاتا کہ پودے لگانے کا موسم ہوگیا ہے طورے سے توری کا یاد آنا فطری ہے لیکن کدو گل کسی کا نام نہیں ہے کیونکہ پشتو میں کدو گل بے وقوف کے معنی میں لیا جاتا ہے اور کوئی بھی اپنے کو بے وقوف کہنا اچھا نہیں سمجھتا ہے زمرد ایک فلمی اداکارہ کا نام ہے اور ایک مشہور پتھر بھی ہے اسی طرح اگر ہر ملک کا اپنا قومی ترانہ ہے تو ہماری فلمی دنیا میں ایک اداکارہ کا نام ترانہ تھا جس کے بارے میں ایک انڈین رسالے نے دل چسپ کہانی لکھی تھی
جنرل یحیےٰ خان کوحسن دل و جان سے عزیز تھا چنانچہ ترانہ قسمت آزمائی کے لئے پہنچ گئی تو گیٹ پر پٹھان چوکیدار نے روک کر پوچھا:
’’کدھر جانا مانگتا ہے؟‘‘
ترانہ نے کہا: ’’ جنرل صاحب نے بلایا ہے‘‘
چوکیدار نے معلومات حاصل کئے اور جانے دیا اگلے روز ترانہ پھر آئی تو اس نے دیکھا کہ چوکیدار نے پوچھ گچھ نہیں کی وجہ پوچھی تو چوکیدار نے جواب دیا:
’’بی بی کل آپ ترانہ تھیں اور آج قومی ترانہ ہو‘‘
نام ملکیت یا حق زوجیت بھی ظاہر کرتے ہیں اگر ایک خاتون کا نام شیریں ہے اور اس کے شوہر کا نام شوکت ہے تو وہ اپنا نام شیریں شوکت بھی لکھ سکتی ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ شوکت نامی مرد کی بلا شرکت غیرے ملکیت ہے اور اسے اپنے شوہر کی امانت کا خیال رکھنا چاہئے کیونکہ اب جملہ حقوق اس کو قانونی اور مذہبی طور پر تفویض ہوچکے ہیں اسی طرح بچی کے نام کے ساتھ بھی باپ کا نام ہوتا ہے فاطمہ بھٹی، ماہ نور قاضی وغیرہ سے یہ ظاہر ہوجاتا ہے کہ کس کی بیٹی ہے بہرحال خواتین کی حیثیت ہمارے معاشرے میں برتنوں کی طرح ہے باپ کے گھر میں اگر فاطمہ بھٹی ہے تو شوہر کے گھر جاکر وہ فاطمہ قریشی بن جاتی ہے
آپ نے دیکھا ہوگا بعض تاجر اپنے پراڈکٹ کے ساتھ لکھ دیتے ہیں کہ ناموں سے دھوکہ مت کھائیے کیونکہ ملتے جلتے نام دھوکہ دے جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اکثر تاجر کسی مشہور پراڈکٹ سے ملت
جلتا نام رکھ لیتے ہیں لیکن یہ طریقہ نیا نہیں ہے پہلے بھی اور آج بھی لوگ اپنے بچوں کے نام کسی بڑی شخصیت کے نام پر رکھ لیتے ہیں چنانچہ ذوالفقار علی بھٹو کی وفات پر ان کے کئی چاہنے والوں نے اپنے بچوں کے نام ذوالفقار رکھ لئے تھے جبکہ ان کے مخالفین اورجنرل ضیاء الحق کے حامیوں نے اپنے بچوں کے نام ضیاء الحق رکھ لئے تھے اور اگر ان کا بس چلتا تو ان کے آگے جنرل بھی لکھ لیتے لیکن فی الحال یہ ممکن نہیں تھا
بعض نام ڈگری کی حیثیت اختیار کرلیتے ہیں اور اسی سے پہچانے جاتے ہیں جس طرح ایک ڈاکٹر اپنے نام کے ساتھ ڈاکٹر لکھتا ہے تو لوگ اسے نام سے نہیں پکارتے بلکہ ڈاکٹر کہتے ہیں
نام سفر کرتے ہیں تو اپنی جنس بھی تبدیل کرجاتے ہیں شیریں، فرحت اورنسیم پنجاب میں زنانہ نام ہیں اس کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ پنجاب سے کوئی شیریں نام کی عورت پختونخوا آگئی اور لوگوں کو وہ نام نیا یا اچھا لگا تو یہ دیکھے بنا کہ زنانہ ہے یا مردانہ اپنے بیٹے پر رکھ دیا یا پھر کوئی ادھر سے پنجاب گیا بہرحال پشتونوں میں آج بھی ایسے کئی نام ہیں
شیریں گل
نسیم خان
شمیم خان یا فرحت اللہ
کئی لوگ قرآن پاک سے بھی نام لیتے ہیں میرا نام بھی میری ایک رشتہ دار خاتون نے اسی مذہبی کتاب سے لیا تھا بہر طور ناموں کی وجہ سے ایسے اتفاق بھی ہوتے ہیں مجھے ایک اخبار میں ملازمت ملی اور میں نے اپنا نام رجسٹر میں لکھا تو شام کی ڈیوٹی کے دوران ایک ملازم نے کہا لگتا ہے ہمارے ساتھیوں میں ایک اور دوشیزہ کا اضافہ ہوگیا ہے اس پر دوسرے نوجوان سب ایڈیٹر نے کہا یہ لڑکی نہیں لڑکا ہے وہ یہ دھوکہ نہ کھاتا اگر میں نے پورا نام لکھا ہوتا میری عادت تھی کہ میں اپنا مختصر نام فرحت لکھتا تھا لیکن اگر میں فرحت قاضی بھی لکھتا تو پھر بھی دھوکا کھانے کا امکان رہتا پڑھنے والا سوچتا کہ فرحت قاضی کی ذاتی ملکیت ہے
ہمارے ادھر کئی خاندانوں نے اپنے بچوں اور بچیوں کے نام پرندوں کے ناموں پر رکھے ہیں چنانچہ کسی بچی کا نام خارو تو کوئی طوطی کے نام کا بھی مل جاتا ہے یہاں ایک لطیفہ بھی مشہور ہے دو بندوں نے نئی نئی شادی کی تھی ایک نے دوسرے سے پوچھا بتاؤ تمہاری بیو ی کا کیا نام ہے
اس پر اس بندے نے کہا:’’پرندوں میں تلاش کرو‘‘
وہ پرندوں کے نام لیتا گیا جب خارو کا لفظ آگیا تو اس نے کہا یہی ہے
پھر اس نے پوچھا تم بتاؤ تو اس نے کہا:’’ سبزیوں میں ڈھونڈو‘‘
جب وہ توری پر پہنچاتو اس نے کہا بس یہی ہے
پھولوں کے نام سے انسانی نام رکھنا عام ہے گل، گلاب، نرگس، یاسمین اور جمبیلی پھولوں کے نام ہیں اور یہ انسانوں کے بھی نام ہیں
خیبر ایجنسی کے میرے ایک قبائلی دوست خان حبیب نے اپنے بچے کا نام افغانستان کے مشہور پہاڑ کے نام پر پامیر رکھا ہوا ہے بعض لوگوں کے نام عوام کو یاد نہیں رہتے ہیں کیونکہ وہ کسی جسمانی وذہنی نقص کے باعث مشہور ہوجاتے ہیں مثال کے طور پر ایک بندہ ایک آنکھ یا ٹانگ سے معذور ہے تو لوگ رفتہ رفتہ اس کا نام بھول جاتے ہیں یا پھر اس کی غیرحاضری میں اندھا یا لنگڑا کہتے ہیں
’’ہاں، ہاں، وہ لنگڑا، یہیں رہتا ہے وہ سامنے مکان ہے ‘‘
یا یہ بھی ہوتا ہے کہ لوگ اپنی آسانی کے لئے کسی کا مشکل یا لمبا نام کاٹ چھانٹ کر کچھ سے کچھ بنالیتے ہیں یہ بھی بعض الفاظ کی طرح ہوتا ہے جو سفر کرتے کرتے اچھے سے برے میں بدل جاتا ہے فضول عربی میں فضل کی جمع ہے اور یہاں پہنچتے پہنچتے یہ اپنے معنی بدل کر بے کار، نکما اور غلط بن گیا ہے
حالانکہ کئی افراد کے نام فضل ہیں
شعراء و ادباء الفاظ اور ناموں کی اہمیت سے واقف ہوتے ہیں وہ ان کی افادیت بخوبی جانتے ہیں کیونکہ وہ خود الفاظ کے کھلاڑی ہوتے ہیں ان کی اکثر و بیشتر یہ خواہش ہوتی ہے کہ ان کو اس مخصوص لفظ یا الفاظ سے یاد رکھا جائے چنانچہ اگر کسی شاعر کا نام رحمت شاہ ہے اور اس نے اپنا تخلص سائل رکھا ہے اور شعروں میں اس نے یہ لفظ استعمال کیا ہے تو لوگوں کے ذہن میں اس کے کسی شعر کے آتے ہی یہ لفظ’’ سائل‘‘ آجاتا ہے جبکہ ادباء بسا اوقات اپنا پورا نام ہی بدل لیتے ہیں یا قلمی نام اختیار کرلیتے ہیں
اب تو ہر شعبہ علم کی مانند طب کے شعبہ میں بھی ترقی ہوئی ہے اور اولاد اور نارینہ اولاد کے ہونے یا نہ ہونے کی وجوہات سامنے آچکی ہیں مگر کئی سال پیشتر ایک خاندان یہ نہیں جانتا تھا کہ بالآخر اس کی نارینہ اولاد کیوں نہیں ہورہی ہے یا پھر بچیاں یا بچے پیدا تو ہوجاتے ہیں مگر کچھ ہی عرصہ زندہ رہ پاتے ہیں یہ میاں بیوی دعا یا تعویز کے لئے کسی زیارت اور پیر کے پاس جاتے تو ان کے پاس بھی وجوہات معلوم کرنے کے آلات نہیں ہوتے تھے اور وہ اس حوالے سے اپنی کم علمی بھی ظاہر نہیں کرنا چاہتے تھے چنانچہ وہ دعاؤں اور تعویزات بناتے وقت اسے نظر سے بچانے کے لئے بچی کے لئے بلہ نشتہ یا بلہ نہ اور بچے کے لئے ڈیرانے کا نام تجویز کردیتے تھے
بلہ نشتہ یا بلہ نہ بعد ازاں بلنہ کی صورت میں لکھا جانے لگا پشتون سماج میں یہ نام عورت کا رکھا جاتا تھا اور اس صورت میں رکھا جاتا تھا جب ایک خاندان میں یکے بعد دیگرے بچیاں پیدا ہونے لگتی تھیں اور ان کی یہ شدید آرزو ہوتی تھی کہ بچیوں کا یہ سلسلہ اب مزید آگے نہیں بڑھے بلکہ بچہ پیدا ہو اسی طرح ڈیرانے کا نام اس وقت رکھا جاتا تھا جب ایک بچہ پیدا ہوتا اور کچھ ہی ماہ و سال زندہ رہ پاتا دوسرا ہوتا تو اس کی بھی یہی صورت حال ہو جاتی تو اسے نظر بدسے تعبیر کرتے ہوئے والدین کواس سے بچنے کے لئے یہ نام تجویز کیا جاتا تھا
بلہ نشتہ یا بلنہ کے معنی ہیں بس اور بچیوں کی ضرورت نہیں ہے اے اللہ اب بچہ دے دے ڈیران پشتو میں گندگی کے ڈھیر کو کہتے ہیں جبکہ ڈیرانے اس پر پھرنے والے اور کباڑ اکھٹا کرنے والے کو کہا جاتا تھا سائنسی ترقی اور علوم کے فروغ کے باعث اب ہر کوئی نر یا مادہ بچے کے پیدا ہونے اورجلد ہی مرجانے کی وجوہات سے آشنا ہوگیا ہے لہٰذا یہ دونوں نام قریب قریب متروک ہوچکے ہیں
ہمارے معاشرے میں بعض جانوروں اور پرندوں کو پاک اور بعض کو نجس ماننے کا تصور قبائلی دور سے چلا آرہا ہے اور کچھ کو مذہب نے برا تصور کیا ہے اور پھر قبائلی زمانہ بنیادی طور پر عسکرانہ تہذیب و تمدن سے مملو ہوتا تھا لہٰذا اس میں تیز رفتار اور چیر پھاڑ دینے والے جانوراوربلندیوں کو چھونے والے پرندوں کو قابل قدر سمجھا جاتاتھا چنانچہ کئی افراد اپنے بچوں کے نام کسی جانور یا پرندے کے نام سے رکھتے تھے جبکہ پشتو کے قدیم ناموں میں پھولوں کے ساتھ پھلوں اور پتھروں کے نام سے منسوب انسانی نام بھی ملتے ہیں
شیر،باز، شاہ باز،انذر گل اور زمرد
ایسے ہی چند نام ہیں
اگر ناموں کی کوئی اہمیت نہ ہوتی تو حکومت سڑکو ں کے نام جنرل بخت خان اور سٹیڈیم کے نام جنرل شیر خان اور قیوم سٹیڈیم نہ رکھتی جب وہ ایسا کرتی ہے تو یہ نوجوانوں کو ترغیب دی جاتی ہے کہ وہ بھی فوج میں بھرتی ہوں اور وطن یا ملک پر اپنی جان نچھاور کردیں بلکہ ایسے نام رکھنے سے ان عہدوں کا وقار بھی بڑھانا ہوتا ہے اس کا انحصار ملک کے نظام پر ہوتا ہے اگر اس ریاست میں وہاں علم اور ترقی دوست حکومت ہے تووہ یقیناًسڑکوں کے نام ملک و علاقے کے مشہور شاعر، ادیب،موجد، سائنسدان، فلسفی،طبیب،صحافی اورپروفیسر کے نام پر بھی رکھے گی
نام ایک ماں یا باپ کی اپنے آبائی گاؤں دیہہ،شہر، علاقہ، عمارت، پہاڑ،پھول، ملک یا شخصیت سے محبت کا اظہار بھی ہوتے ہیں اسی طرح ایک باپ کو اپنا ایک دوست عزیز ہے تو وہ اپنے بیٹے کا نام بھی وہی رکھ دیتا ہے جو کہ اس کے دوست کے بچے کا ہوتا ہے اسی طرح مذہبی جذبے کے تحت بھی نام رکھے جاتے ہیں پشتون کنبوں میں عمر،علی، ابوبکر،عبیدہ،عائشہ اورخدیجہ کے نام ان ہی جذبات کے آئینہ دار لگتے ہیں انتقامی نام بھی ہوتے ہیں ایک خاندان میں ایک نام کا لڑکا یا لڑکی موجود ہے اور ہمسایہ یا رشتے دار نے بھی وہی نام اپنے بچے یا بچی کا رکھ لیا ہے تو اولالذکر میں نیا بچہ یا بچی پیدا ہوتی ہے تو وہ اس خاندان میں کسی بچے کا نام اپنے بچے یا بچی پر رکھ کر ایک طرح سے انتقام لے لیتا ہے
افغانستان میں ثور انقلاب اور سوویت افواج کی آمد سے خطے میں صورت حال بدل گئی تو دنیا بھر سے جہادیوں کو اکھٹا کرکے افغانستان میں مداخلت کا آغاز کیا گیا اور اس جہاد کا گڑھ پاکستان خصوصاً قبائلی علاقہ جات کو بنایا گیا تونومولود بچوں کے نام بھی اس سے ملتے جلتے
جہاد خان مومند
شہید آفریدی
غازی الحق کوکی خیل رکھے گئے
نائن الیون واقعہ نے کایا پلٹ دی جہاد فساد بن گیا اور جہادی ہیرو زیرو بن گئے اور ملک و قوم کے لئے ان کی موجودگی کو خطرناک بنادیا گیا وہ مجاہدین اور طالبان نہیں دہشت گرد مشہور کردئیے گئے تو قبائلی ناموں میں بھی انقلاب آگیا
ان علاقہ جات میں کئی سالوں سے فوجی کارروائیاں ہورہی ہیں جس کے نتیجہ میں مقامی آبادی کو آئی ڈی پیز بننا پڑا ان کا روزگار گیا کاروبار بھی گیا دکانیں خالی اور مکانات ملبہ کا ڈھیر بن گئے تو نام بھی غریبانہ اور معذرت خواہانہ ہوگئے چنانچہ مستقبل میں حسب ذیل نام پڑھنے اور سننے کا امکان ہے
غریب خان اورکزئی
فقیر گل آفریدی
غلام محمد کوکی خیل
عاجز خان
تابعدار اللہ مہمند
سادہ گل
اسلام خان
کشمیر خان باجوڑے
جہاد خان
پاکستان خان
جنرل ضیاء الحق خان مومند
ناموں سے کسی قوم کی توجہ جنگ وجدل اور لڑائی مارکٹائی کی جانب بھی کرائی جاتی رہی ہے آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے ایک تعلیمی ادارے میں پرنسپل کے دفتر اور اس کی بیرونی دیواروں کے ساتھ ساتھ کلاس رومز اور صحن میں مشہور شخصیات کے اقوال اور پند و نصائح سے مزین ہوتے ہیں یہ سب کچھ بھی تعلیم وتربیت کا حصہ ہوتا ہے پختونخوا کے دارالحکومت پشاور سمیت بڑے بڑے اضلاع کے تعلیمی اداروں کے ناموں کی تختیوں، سڑکوں،کھیل کود کے میدانوں، سٹیڈیم، پارک،لائیبریری، ہسپتال کے بورڈوں پر نظر پٹرتی ہے تو پہلااحساس یہی ابھرتا ہے کہ یہ صوبہ بھی ایک ایسے بڑے تعلیمی ادارے میں بدل دیا گیا جس سے مستقبل قریب میں نکلنے والے نوجوان ظاہری لباس و پوشاک سے تو انجینئر، ڈاکٹر، صحافی،حکیم،استاد،تاجر اور مکینک ہوں گے مگر ان کے اذہان پاک بھارت جنگ اور جنگ۔۔۔،جنگ۔۔ سے بھرے ہوں گے
بعض نام بغاوت اور انتھک جدو جہد کی وجہ سے عالمی شہرت اختیار کرکے اس کی علامت بن جاتے ہیں چی گویرا سرمایہ دارانہ جبر و جارحیت کے خلاف جد وجہد میں ایسا ابھرا کہ چی یا چی گویرا صرف ایک شخص اور ایک انقلابی کا نام نہیں رہا بلکہ اس کی علامت بن گیا اس لئے یہ کہنا کہ نام میں کیا رکھا ہے بڑی غلط فہمی ہے نام جتنا کھنکتا یا کھنک دا ر ہوگا اس کی موسیقی بھی اسی طرح دل پر لگے گی میں نے دیکھا ہے کہ بعض ادیبوں کی وجہ ان کی اعلیٰ تصانیف نہیں بلکہ صرف نام ہی ہے آپ نام سنتے ہو تو پڑھنے کا شوق پیدا ہوجاتا ہے اسی طرح بعض لکھاری اپنی کتاب کا نام ایسا رکھ لیتے ہیں کہ دیکھ کر قاری خریدنے پر مجبور ہوجاتا ہے
کسی شاعر نے یوں ہی نہیں کہا ہے
’’میرا نام کرے گا روشن جگ میں میرا راج دلارا‘‘