کوئٹہ میں ریاستی اداروں کی طرف سے جبری طور پر اغوا شدہ افراد کی رشتہ دار خواتین احتجاج کر رہی ہیں۔ جس کا پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں مکمل بلیک آوٹ ہے۔ مین سٹریم میڈیا میں کسی میں اتنی جرات نہیں ہے کہ وہ ریاستی اداروں کے ظلم وستم پر آواز اٹھا سکے۔اس احتجاج کی خبریں سوشل میڈیا یا پھر چند غیر ملکی چینلز پر آرہی ہیں۔
صوبہ بلوچستان سے لوگوں کی جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاج کا سلسلہ گذشتہ دس سال سے جاری ہے، لیکن اس میں نمایاں بات یہ ہے کہ اس میں خواتین کی بڑی تعداد شرکت کر رہی ہے۔
کوئٹہ پریس کلب کے باہر لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے قائم بھوک ہڑتالی کیمپ میں خواتین کی بڑی تعداد میں آمد اور ہر روز احتجاج میں شرکت کا سلسلہ طالب علم رہنما شبیر بلوچ کی خواتین رشتہ داروں کی علامتی بھوک ہڑتال پر بیٹھنے کے بعد سے شروع ہوا۔
چھ سات سال بعد لاپتہ افراد کے مرد رشتہ داروں کی بجائے خواتین رشتہ داروں کی اتنی بڑی تعداد میں شرکت کی کیا وجوہات ہیں ان کے بارے لاپتہ افراد کے رشتہ داروں کی تنظیم وائس فار مسنگ بلوچ پرسنز کے چیئرمین نصراللہ بلوچ کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ خوف کا ماحول ہے۔
ان کے بقول لاپتہ افراد کے مرد رشتہ داروں کو اس بات کا ڈر ہوتا ہے کہ کہیں ان کو بھی لاپتہ نہ کیا جائے اس لیے وہ زیادہ تر کسی احتجاج میں شرکت نہیں کرتے۔
بڑھتے ہوئے احتجاج کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ طویل عرصے سے جو وعدے اور دعوے کیے گئے اس پر عمل درآمد نہیں ہوا جس کے باعث لاپتہ افراد کے خواتین رشتہ داروں کو نکلنا پڑا۔
اس احتجاج میں خاران سے تعلق رکھنے والی دو چھوٹی بچیاں انسہ اور ان کی بہن بھی شامل ہیں۔
کوئٹہ سے جنوب مشرق میں چار سو کلومیٹر دور خاران سے تعلق رکھنے والی ان بچیوں کے ہاتھ میں ان کے نوجوان بھائی عامر بلوچ کی تصویر ہوتی ہے۔انسہ نے بتایا کہ ان کا بھائی کوئٹہ میں پولی ٹیکنک انسٹیٹیوٹ کے سیکنڈ ایئر کا طالب علم ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ دو سال قبل ان کا بھائی چھٹی پر خاران آیا تھا۔ ان کو ان کے گھر سے سیکورٹی فورسز کے اہلکار اٹھا کر لے گئے جس کے بعد سے وہ لاپتہ ہے۔
انسہ نے بتایا کہ ان کے بھائی کو جبری طور پر لاپتہ کرنے سے ان کا خاندان ایک اذیت ناک صورتحال سے دوچار ہے۔
وہ کہتی ہے کہ انہیں صرف ان کا بھائی چاہیے۔ اس کے علاوہ کچھ نہیں چاہیے۔
شبیر بلوچ کی خواتین رشتہ داروں کے ساتھ جن دیگر خواتین نے علامتی بھوک ہڑتال شروع کی ہے ان میں مکران سے تعلق رکھنے والی نصیر بلوچ کی بیوی زبیدہ بھی شامل ہیں۔
زبیدہ بلوچ کا کہنا ہے کہ نصیر بلوچ کو ان کے تین دیگر ساتھیوں کے ساتھ کراچی میں یونیورسٹی روڈ سے 15نومبر 2017ء کو لاپتہ کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک سال گزرنے کے باوجود یہ معلوم نہیں کہ وہ کہاں ہیں اور کس حال میں ہیں۔
زبیدہ بلوچ نے بتایا کہ ’شوہر کی گمشدگی کے بعدان کی 6سالہ بچی ہر وقت یہ پوچھتی رہتی ہے کہ بابا کہاں ہے اور وہ کب آئیں گے۔ میرے پاس ان کو جھوٹی تسلیاں دینے کے سوا کچھ نہیں ‘۔
لاپتہ افراد کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے اس احتجاج میں حقوق انسانی کی کارکن جلیلہ حیدر ایڈووکیٹ بھی شرکت کررہی ہیں۔
جلیلہ حیدر کا کہنا ہے کہ لوگوں کو جبری طور لاپتہ کرنا خود ملکی آئین اور قوانین کی بھی خلاف ورزی ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ اگر لاپتہ افراد کے خلاف کوئی الزام ہے تو ان کو عدالت میں پیش کیا جائے۔
BBC/Web Desk