پاکستان کی سپریم کورٹ نے وزیراعظم عمران خان کی بہن علیمہ خان کو بیرون ملک جائیداد کو ٹیکس گوشواروں میں ظاہر نہ کرنے پر ایف بی آر کی جانب سے دو کروڑ 94 لاکھ روپے جرمانہ ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔
تاہم عدالت نے ان سے یہ بھی نہیں پوچھا کہ پیسے کہاں سے آئے ،نہ ہی ان کی تحقیق کے لیے کوئی جے آئی ٹی تشکیل دی گئی اور نہ ہی منی ٹریل کے متعلق پوچھ گچھ ہوئی۔اور نہ ہی اپنے اثاثے چھپانے کے جرم میں ان کے خلاف نیب میں کوئی ریفرنس دائر ہوا۔جبکہ مریم نواز شریف نے عدالت مے فئیر اپارٹمنٹس کے متعلق جو وضاحت دی تھی اس کو تسلیم کرنے کی بجائے نہ صرف نیب میں درخواست دی، جے آئی ٹی بنی اور انہیں جیل بھیجا گیا۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے ان کی دبئی میں جائیداد کے حوالے سے ازخود نوٹس لے رکھا ہے۔ جمعرات کو سپریم کورٹ میں علیمہ خان کے مقدمے کی سماعت ہوئی۔
اسلام آباد میں بی بی سی کے نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق عدالت عظمیٰ نے ایف بی آر کو احکامات جاری کیے ہیں کہ اگر علیمہ خان ایک ہفتے کے اندر جرمانہ ادا نہ کر سکیں تو ان کی جائیداد ضبط کر لی جائے۔
نامہ نگار کے مطابق علیمہ خان کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے عدالت کو بتایا کہ ان کی مؤکلہ پر جرمانے کی مد میں ایک کروڑ 80 لاکھ روپے بنتے ہیں۔
تاہم ایف بی آئی کے چیئرمین نے علیمہ خان پر جرمانے کے حوالے سے تصحیح کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ ان پر واجب الادا جرمانہ دو کروڑ 94 لاکھ روپے ہی بنتا ہے۔
وزیر اعظم عمران خان کی بہن علیمہ خان پر الزام ہے کہ اُنھوں نے دبئی میں اپنی جائیداد کو انکم ٹیکس کے گوشواروں میں ظاہر نہیں کیا تھا۔
عمران خان کی ہمشیرہ علیمہ خان نے روسٹرم پر آ کر کہا کہ سنہ 2008 میں انھوں نے تین لاکھ 70 ہزار امریکی ڈالر کی لاگت سے یہ جائیداد بنائی تھی جس میں سے نصف رقم بینک سے بطور قرض حاصل کی تھی اور بعد میں یہ جائیداد فروخت کر دی۔
اس موقع پر عدالت نے علیمہ خان سے ان کے ذرائع آمدن اور رقم کی منتقلی کے بارے میں استفسار نہیں کیا۔
چیف جسٹس ثاقب نثار نے علیمہ خان کے مقدمے کا ازخود نوٹس لیا تھا۔خیال رہے کہ علیمہ خان اور دیگر پاکستانیوں کی بیرون ملک جائیدادوں کا یہ معاملہ اس وقت سامنے آیا جب سپریم کورٹ نے پاکستانی شہریوں کے بیرون ممالک کے بینکوں میں اکاؤنٹس اور جائیدادوں سے متعلق از خود نوٹس لیا تھا۔
BBC/Web Desk
One Comment