سنسرشپ کی ڈائن اور جنرل آصف غفور، ہم سب ایک پیج پر

حسن مجتبیٰ

میجرجنرل آصف غفور کی راولپنڈی میں پریس کانفرنس کو پاکستانی ٹیلی وژن چینلوں پرشروع سے آخر تک لائیو دیکھتے ہوئے مجھےپاکستان کے صحافیوں، رپورٹروں اور اینکروں سے مکمل ہمدردی پیدا ہوئی۔    

میں نے سوچا میرے ہم پیشہ، کئی ہم نوا بھائی اور بہنیں کس طرح کی ذہنی سنسرشپ میں نہفقط اپنے لیے روزی پیدا کر رہے ہیں بلکہ زندہ بھی ہیں۔ بلکل جیسے حبیب جالب نے کہاتھا، ’’زندہ ہیں یہی بات بڑی بات ہےپیارے‘‘۔ جنرل آصف غفور راولپنڈی میں انٹر سروسز پبلک ریلیشنز میں بلائےگئے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ان خواتین و حضرات کو ’’مشورہ‘‘ دے رہے  تھے کہ ملک نازک حالات میں ہونے کی وجہ سے وہ چھ ماہ تک ’’پاکستان کا مثبت امیج‘‘ لکھیں،شائع اور نشر کریں۔

دوسرےالفاظ میں اگر جنرل صاحب کے بیان کی مزیدوضاحت کی جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ظلمت کو ضیا، صرصر کو صبا، پتھر کو گوہر،دیوار کو در اور کرگس کو ہما لکھیں۔ یہپریس کانفرنس اور مشورے سے بھی بڑھ کرمیڈیائی مارشل لا نہیں ہے تو اور پھر کیاہے؟  پاکستان کا ’’مثبت تصور‘‘ کامطلب؟ اس کا جواب  جنرل آصف غفور نے اسی پریس کانفرنس میں ایک موقع پر ایک صحافی کے سوال پر خود ہی دے دیا کہ “آپ میراجواب  سمجھ رہے ہیں اور میں آپ کا سوال بھی سمجھ رہا ہوں‘‘۔

صحافی اتنا بھولا بھی نہیں تھا، جب اس نے کہا وہکیسے ’’مثبت تصور‘‘ لکھیں جب سیویلینزکی کرپشن دیکھ رہے ہوں‘‘۔ ستائیس کروڑپاکستانیوں میں فقط بچارے ’چھ لاکھ فرشتے‘ہیں، جن کے احتساب کا کڑا سسٹم ہے، جنرلآصف غفور کہہ رہے تھے، جیسے ایوب سے مشرف  تک کا ہوا۔

  ویسےتو بہت تگڑے لیکن جنرل آصف غفور کے حضورایک ’یرغمالی شکل‘ لیے بیٹھے راولپنڈیاور اسلام آباد کے صحافیوں (کئی دوستوں کو تو میں ذاتی طور بھی جانتا ہوں)کو دیکھا کہ جنرل کی بات شروع ہونے سے اثبات میں یا داد کے انداز میں ہلکی سی گردن ہلانا شروع کر دیتے تھے۔ میں نے سوچا یار’’گردن کٹوانے سے زیادہ گرد ہلانا ہی اچھا ہے‘‘۔

 مجھےحیات اللہ سے لے کر سلیم شہزاد تک سارےصحافی یاد آئے، مجھے بلوچستان کا صحافی میرا دوست ارشاد مستوئی یاد آیا، جو فوجاور بلوچ سرمچاروں دونوں کی بندوق کی زدمیں رہا تھا۔ جس پر دو بار بم حملہ ہوا اورایک دفعہ گوادر کے دورے کے موقع پر ہوٹل کے کمرے میں ’’بجلی کے کرنٹ‘‘ کا شکارہوکر اپنا ایک ہاتھ گنوا بیٹھا تھا۔

اسکاٹ لینڈ میں ایک کمپنی ہے ’’بائیونک ٹچ‘‘کے نام سے، وہ مصنوعی ہاتھ  بناتی ہے۔لیکن وہ اس کی جو رقم بتا رہے ہیں وہ ساٹھ لاکھ پاکستانی روپے ہے۔ ظاہر ہے کہ وہ نہیں ادا کر سکتا تھا۔ پھر ایک دن خبر آئی کہ یہ گردن نہ ہلانے والا صحافی اپنی نیوزایجنسی پر بندوق بازوں کے حملے میں اٹھائیساگست دو ہزار چودہ کو مارا گیا۔ کسی نےکہا کہ وہ ریاستی ایجنسیوں کی ایما ہرمارا گیا، تو کسی نے کہا بلوچ سرمچاروںکے ہاتھوں۔ یہ بھی گردن نہ ہلانے والاصحافی نفی کو اثبات نہ لکھ سکا تھا۔

ایسےکئی الفاظ ہیں،جو پاکستانی پرنٹ اورالیکٹرانک میڈیا میں آپ نہ لکھ سکتے ہیں نہ کہہ سکتے ہیں۔ شاید اس طرح  نہ کہنےاور لکھنے کو جنرل آصف غفور ’’پاکستان کا مثبت تصور‘‘کہتے ہیں۔ سی پیک یا چین پاکستان اقتصادی راہداری پر تنقید بھینہیں کی جا سکتی۔ گویا کہ سی پیک کے بارےمیں منفی لکھنا بلاسفیمی ٹھہرا، شایدمستقبل میں ’’کرتارپور راہداری‘‘ کےحوالے سے بھی ایسا ہی ہو۔ ماما قدیر توپہلے ہی ممنوع بور تھا اور اب منظور پشتین اور ساتھی بھی اس میں شامل ہو گئے ہیں۔

سندھی اخبارات کے اداراتی صفحے پر  کل کیاشائع ہونے جا رہا ہے؟  یہ رینجر کے مقامی کمانڈروں کو پتہ ہوتا ہے۔ سندھی اخبارات یا نام نہاد قومی اخبارات کیا بیچتے ہیں! نیویارک ٹائمز کے پاکستان میں شائع ہونے والےایڈیشن میں آرٹیکل کی جگہ خالی جاتی ہے۔

توعزیزو!پیارےپاکستان میں سنسرشپ کی ڈائن کی نیچے رکھےفاختہ کے انڈوں کو کوئی کس طرح نکالے؟ اباس ملک میں رضیہ بھٹی روز روز تو پیدا نہیں ہوتیں، جن کا  لکھا سانپوں کے بلوں میں ہاتھ ڈالنے کے مترادف تھا۔  آج رضیہ ہوتی تو پکا پکا سرل المیڈا کی صفائی میں کھڑی ہوتیں۔ اب تو نایاب حسین بھی نہیں رہا، نہ پرنٹر، نہ پبلشر، نہ مالک ۔ بس غداری کا مقدمہ بھگت رہا ہے تو وہ بس سرل کہ باقی سب ایک پیج پر ہیں۔ سرل سے اب یہ بھی تحقیقات ہو رہی ہیں کہ اپنی صفائی میں اس نے آئی ایس آئی کے سابق چیف سے کس کی اجازت سے ملاقات کی؟

توعزیزو!میں نے دیکھا کہ جنرل آصف غفور اور صحافی سب ایک پیج پر تھے۔ بلکہ اب آپ پاکستانی میڈیامیں نہیں کہہ سکتے کہ پیج کس نے لکھاہے؟جنرل  آصف غفور نے یا میڈیا والوں نے بقلم خود؟ بلکہ مجھے لگا کہ پیج وہی ہے، جو جنرل شیر علی سے لیکر جنرل آصف غفورتک اور الطاف گوہر سے لے کر چودھری فوادتک چلتا آیا ہے!۔

DW

Comments are closed.