جنگلوں، بیابانوں، صحراؤں اور غاروں میں رہنے والے اولین ادوار کے انسان کے لیے سب سے مہیب شے رات کا اندھیرا تھا جب وہ دیکھ نہیں پاتا تھا جس کی وجہ سے اس کا چلنا پھرناممکن نہیں رہتا اور وہ جہاں ہو وہیں تک محدود ہوجاتا تھا۔ ایسے میں چاند کی روشنی اس کے لیے دن کے اجالے کی نعم البدل بن کر اس کی مشکلات آسان کر دیتی یا پھر آسمان پر پر ٹمٹماتے ستارے اس کا سہارا بن جاتے۔ فطرت کے یہ مظاہر انسان کے لیے باعث تحیر و رحمت دونوں تھے۔ وقت کے ساتھ حیرت کو انسان نے تجسس، تعقل اور تفکر سے نئی دریافتوں میں بدل دیا اور رحمتوں کی تاویلات کو وسعت دے کر الیٰہات کے درجات تک پہنچا دیا۔
سورج ایک نجات دھندہ کے طورپر جب طلوع ہو جاتا تو اس کا خوف ختم ہوجاتا پھر انسان بھی دیگر چرند، پرند اوردرند کی طرح پیٹ بھرنے کے لیے نکل پڑتا۔ جاڑے میں رات کی تاریکی میں بڑھتی سردی بھی سورج کی کرنوں سے کم ہو جاتی اور حد نگاہ اس کو نظر بھی آجاتا تو اسرحمت کو وہ سورج کی ناقابل فہم قدرت سے منسوب کرتا اور اسی کی خوشنودی کے لیے ثناخواں ہوتا۔ سورج ہی کے طلوع ہونے سے ہی اس کی مشکلات کم ہوجاتی تھیں،پودے نمو پاتے ، جنگل سر سبز ہوجاتے، جانوروں کے جسم حرارت لیتے تو اس کو انسانآسمان میں سنہری کرنیں بکھیرتے سورج کی کرامات ہی سمجھتا۔
سورج کے بعد چاند ہی ایسامظہر تھا جو رات کے ہیبت ناک اندھیرے میں نہ صرف روشنی بن کر آتا بلکہ سمندروں کےمدو جزر اور پودوں کی نمو کا دارومدار بھی اسی پر تھا۔ غاروں اور صحراؤں میںبھٹکتے انسان کے لئے اماؤس کی کالی راتوں میں جب چاند بھی نہ ہوتا تو ستارے فلک پراس کی امید بن کر جگمگاتے تو انسان کے نزدیک وہی دھرتی پر مہربان تھے۔ انسان نے سب سے پہلے سورج چاند ستاروں کی پوجا سے ہی مذہب کا آغاز کیا۔ قدیم تہاذیب کی باقیات اورجتنے آثار قدیمہ اب تک ملےہیں وہ سب اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ سورج، چاند ستاروں کی پرستش تمام ہیانسانوں کا مشترکہ ورثہ ہے۔ اندھیرا اور تاریکی انسان کے لئے خوف کی علامات رہےہیں اس لئے کالا رنگ ہمیشہ برائی اور بدی کی علامت سمجھا جاتا رہا۔
سورج، چاند ستاروں کی پرستشکے دوران ان پر غور بھی کیا گیا تو پتہ چلا کہ سورج کے طلوع اور غروب کا بھی ایک قاعدہ ہے ، چاند بھی ایک منظم انداز میں مختلف اشکال اختیار کرتا ہے اورستارے بھی ایک جیسے نہیں ہوتے ہیں کچھ زیادہ روشن اور کچھ کم روشن، کچھ زیادہ بڑےاور کچھ کم۔ انسانی عقل کو یہ بات بھی سمجھ میں آگئی کہ گرمی ، سردی، خزاں اوربہار ایک خاص وقت میں خود بخود ہی آجاتے ہیں جس میں پودے نمو پاتے ہیں ، پھل پک جاتے ہیں اور پتے جھڑ جاتے ہیں۔
جب انسان نے پودے اور فصل خود اگائے تو انسانی طرز معاشرت بھی شکار سے کاشتکاری کے دور میں داخل ہو گئی اورزندگی کا ایک نیا نظم وجود میں آگیا اور انسانی سماج کی ابتدا ہوئی۔ نئے سماجمیں سورج کی روشنی، چاند کی چاندنی اور ستاروں کے جگمگانے سے زیادہ اہم اب دھرتی سے اگنے والی فصل تھی جس کا دارومدار موسم، پانی اور آب و ہوا پر تھا۔ کاشتکاری کےدور میں دھرتی کو بھی ماں جیسا درجہ ملا جو اپنے وجود سے تمام جانداروں کو خوراک فراہم کرتی تھی۔ دھرتی پر پانی ، مٹی، پہاڑ، سمندر ، پودے اور فصلیں سب مقدس ہوگئےاور ان کے الگ الگ مالک و خالق بھی مانے گئے جن کی خوشنودی بھی لازم ہوگئی۔ نہ صرفہر فصل، موسم اور جگہ کے دیوتا وجود میں آگئے بلکہ ہر قبیلہ اور گروہ کے اپنے انداتا بھی اب مالک و مہربان تھے۔
نئے سماج میں زیادہ زرخیززمینوں پر قبضہ کرنا اور زیادہ لوگوں کو غلام بناکر ان سےمشقت لینا ہی اولیٰ صفاتمیں شامل تھیں۔ زمین پر قبضے، لوگوں کی قتل و غارت گری اور ان کو غلام بنانےکے لیے معاش کی ترغیب کے ساتھ تقدیس کا رنگ بھرنے کے لیے اس میں دیوتاؤں اورمعبودوں کی تائید و رضا شامل کی گئی تو دیو مالا اور اساطیر کا آغاز ہوا جو آگےآنے والوں کے لئے عقیدے کا درجہ اختیار کرگئیں۔ آج مذاہب اور عقائد میں وہی دیو مالا اور اساطیر ہیں جن میں وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتا رہا ہے ۔
جب زرعی معاشرت فرات،نیل ، دجلہ، سندھ، گنگا، جمنا، میکانگ اور میڈیسان جیسے دریاؤں کے کنارے ذرخیزوادیوں میں ایک نقطہ عروج پر پہنچی تو انسانی مشاہدات اور تجربات کی بنیاد پرپنپنے والا علم بھی کافی حد تک متشکل حالت کو پہنچ چکا تھا لیکن کسی ایک جگہ مجتمعنہیں تھا۔ انسانی گروہ اب مشترکہ و انفرادی ملکیت کے تصور کے ساتھ ایک عمرانی معاہدے کے تحت منظم سماج کی شکل اختیار کر رہا تھا جہاں میل جول، خرید و فروخت،شادی بیاہ، خاندان اور جماعت کا بھی تصور موجود تھا۔
بعض جگہوں پر ایسے ابتدائی ضوابط تحریری حالت میں اب تک موجود ہیں لیکن یہ بات قیاس سے مبرا نہیں کہ ہرانسانی معاشرے میں اس وقت تک ایک ضابطہ وجود میں آچکا تھا۔ ہندوستان ، بابل، مصراور یونان میں ایسے ضوابط دیوتاؤں سے منسوب کئے گئے تھے مثال کے طور پر دنیامیں متعارف کردہ پہلے قوانین میں سے شاہ حمورابی کا ضابطہ بھی قانون کےدیوتا سے منسوب ہے ۔ ہر کام ، شعبے ، قوماور قبیلے کے الگ الگ دیوتا اور خداؤں کے احکامات لوگوں کی اطاعت اورفرمانبرداری کے لئے استعمال کئے جاتے تھے مگر ان احکامات میں تضاد اور الگ الگتقاضوں کی وجہ سے ان کی بجاآوری میں مشکلات درپیش تھیں جو لوگوں میں باعث نفاق بھی تھا۔
چونکہ مصر اور بابل میں بادشاہت کے نظام کو اپنایا تھا جس میں ایک بادشاہ دیگر چھوٹے بڑے سرداروں،نامداروں اور عہدیداروں پر حاکم اعلیٰ ہوتا تھا جس کے احکامات سب پر مقدم ہوتے تھےاسی انسانی نظام کی تمام دیوتاؤں اور خداؤں پر بھی ترویج کی گئی۔ فرعون اخناتن نے 1332 قبل مسیح میں ایک خدا کا تصور دیا جس کے مطابق آسمانوں پر صرف ایکہی مالک ہے جس کے نیچے دیگرسب دیوتا اور خدا ہیں اور وہ خود بھی اسی کی رضا سےحاکم ہے۔ مگر فرعون اخناتن کی موت کے بعد یہ تصور بھی ختم ہوا کیونکہ دیگردیوتاؤں اور خداؤں کے نام پر اپنی اجارہ قائم کرنے والوں کو یہ راز نہیں آتا تھا۔
بابل اور مصر کی تہذیبیں توصفحہ ہستی سے مٹ گئیں مگر یہاں سے ابھرنے والا خدا کا تصور اور انسانی معاشرت کاضابطہ آج تک کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے۔ نہ صرف فرعون اخناتن کا تصور خداابراہیمی مذاہب کے تصور وحدانیت کی شکل میں موجود ہے بلکہ شاہ حمورابی کے دئےقوانین کو دیکھیں تو وہ بھی کم و بیش صحیفات اور آسمانی کتب کے مندرجات میں شامل ہیں۔
دیوتاؤں کی خوشنودی کے لئےدی جانے والی قربانیوں کی رسوم اور گائے جانے والے گیت اور بھجن آج بھی انسانیعبادات کا اہم حصہ ہیں۔مگر دوسری طرف ان تصورات کی حقانیت کے سوالات پر بھی روزاول سے کی جانے والی بحث بھی آج تک جاری و ساری ہے۔ ان میں ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا انسانی معاشرت کا ضابطہ اور تصور وحدانیت الہامی ہے؟