علی احمد جان
معذوری جسمانی ہی نہیں نفسیاتی بھی ہوتی ہے اور یہ انفرادی ہی نہیں اجتماعی بھی ہوتی ہے۔ جسمانی معذوری پر تو متبادل صلاحیتوں سے قابو پایا جاسکتا ہے اور انفرادی معذوری بھی ختم کی جاسکتی ہے مگر نفسیاتی اور اجتماعی معذوری آسانی سے دور نہیں ہوتی۔ اگر انفرادی طور پر افراد اچھے اور برے میں تمیز کرنے سے معذور اور فہم و فراست سے عاری ہوں اور یہ رویہ جب اجتماعی نفسیات کا حصہ بن جائے تو پورا معاشرہ ہی معذور ہوجاتا ہے۔
تیمور ایک ٹانگ سے معذور ہونے اور رنجیت سنگھ ایک آنکھ سے معذور ہونے کے باوجود دو دو ٹانگیں اور آنکھیں رکھنے والی بڑی فوجوں کو شکست دینے میں کامیاب اس لئے ہوئے کہ مد مقابل جسمانی نہیں اجتماعی طور پرنفسیاتی معذوری کا شکار تھے۔ ہمارے دور میں اسٹیفن ہاکنگ نے تو جسمانی معذوری کی تعریف ہی بدل ڈالی جب تمام تر جسمانی صلاحیتوں سے محروم ہونے کے باوجود وہ فہم و ادراک کی کہکشاؤں کو چھونے اور علم و دانش کی گہرائی سے موتی چن کر لانے میں کامیاب ہوا۔
یونان کے زوال کے بعد سلطنت روما کے چہار سو چرچے کے باوجود علم و دانش میں کوئی نابغہ پیدا نہ ہوسکا اس دور کو یورپ کا تاریکی کا زمانہ کہا جاتا ہے۔ جب یونان کے علم و دانش کو اہل عرب نے دوبارہ اہل یورپ کو سمجھا دیا تو وہاں نشاط ثانیہ کا آغاز ہوا۔ اہل یورپ کو جہالت کے اندھیروں سے نکالنے والے بو علی سینا، ابن رشد، الکندی اور فارابی اپنے مادر وطن میں تکفیر اور تضحیک کا شکار رہے کیونکہ سلطنت روما کی طرح یہاں کا معاشرہ بھی اجتماعی طور پر عقلی معذوری کا شکار ہے۔
سال میں ایک بار معذوروں کا دن منانے ، سفید چھڑی کا دن منانے یا کسی قسم کی جسمانی معذوری کو یاد کرنے سے معذوری پر کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ صحت مند ہونے کے زعم میں مبتلا لوگوں نے کبھی یہ بھی معلوم کرنے کی کوشش نہیں کی ہے کہ ان کے ملک میں معذور کہلانے والے لوگوں کی تعداد کتنی ہے،کبھی کسی نے ایسے لوگوں کے بارے میں مستند اعداد و شمار بھی اکھٹے نہیں کئے ۔
دنیا میں سب سے بہتر ہونے کی غلط فہمی اور خوش فہمی میں مبتلا ہمارے معاشرے کے سب سے زیادہ معذور افراد ہماری درس گاہوں اور جامعات سے نکلتے ہیں جہاں ان کی ذہنی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے بجائے تالہ بندی کی جاتی ہے ۔ تعلیم کے نام پر نوجوانوں سے پیسے اینٹھے جاتے ہیں ان کے ہاتھ میں ڈگری تھمادی جاتی ہے جو درسگاہوں سے نکلتے ہی اپنے سرمایہ کی واپسی کے لئے تگ و دو شروع کرتے ہیں۔ جب وہ نوکری کے لئے سرکاری اداروں میں جاتے ہیں تو وہاں ان کا واسطہ بڑے ذہنی مریضوں سے پڑتا ہے جو ان کو زبان، ذات، مذہب اور اعتقادات کی عینک سے دیکھ کر منتخب یا مسترد کرتے ہیں۔
ملک کی سب سے بڑی سول سروس کے لئے مقابلہ کرنے والوں سے ایسے مضامین میں امتحان لیا جاتا ہے جن کا ان کی علمی اور عملی زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ فزکس، کیمسٹری، تاریخ یورپ ، تاریخ امریکہ یا ریاضی میں امتحان لے کران مضامین کی تدریس، تصنیف و تالیف کے بجائے پولیس میں بھرتی کیا جائے یا اس کے ہاتھ میں ٹیکس کے معاملات دئے جائیں تو وہ پیشہ ورانہ زندگی میں معذور رہتے ہیں۔ سول سروس کےزبانی امتحان میں مخصوص اعداد و شمار، معلومات اور دعاؤں کے یاد ہونے کو معیار بنا کر منتخب کیا جائے تو امتحان لینے اور دینے دونوں کی ذہنی صلاحیتوں پر سوال اٹھتا ہے۔
ہسپتال، ڈاک خانہ، ریلوے، ہوائی جہاز ، پولیس، انتظامیہ سب صحت مند لوگوں کے ہاتھوں میں ہوتے ہوئے بھی مفلوج ہیں کیونکہ ان کو چلانے والے افراد کو صلاحیتوں کی بنیاد پر نہیں بلکہ لسانی، مذہبی، قومیتی، سیاسی اور ذاتی اثر و رسوخ کی بنیاد پر منتخب کیا جاتا ہے۔ ان اداروں کو چلانے کے لئے جو طریقہ کار بنایا گیا تھا اس کو بدل ینے سے یہ ادارے ا ب اپنی کارکردگی دکھانے سے معذور ہیں جس کی وجہ سے ملک کی کی معیشت بیمار ہوئی ہے جس کا برملا اظہار کرتے ہوئے ارباب اختیار کو ایک لمحے کے لئے بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوتی۔
ملک کی نصف آبادی کو گھر بٹھانے پر فخر کیا جاتا ہے ۔ لوگ اپنی بیٹیوں کو اعلیٰ تعلیم صرف اس لئے دلاتے ہیں کہ ان کی شادیاں اچھے گھروں میں ہوں ۔ اچھے گھروں سے مراد بھی یہاں اعلیٰ معاشرتی اقدار نہیں بلکہ پیسے کی ریل پیل اور کام کاج کی زحمت سے چھٹکارا ہوتا ہے۔ ایسا معاشرہ جس کی نصف آبادی اس کی تعمیر و ترقی میں اپنا حصہ ڈالنے سے معزور ہو وہ کیسے صحت مند معاشرہ کہلائے گا؟
اگر یہ معذوری کسی مجبوری کی بنا ء پر ہوتی تو شائد قابل معافی بھی ہوتی اور دیکھنے والوں کو افسوس بھی ہوتا مگر اس معذوری پر فخر کرنا اور اس پر روز صبح شام تاکید اور تائید کرناپورے معاشرے کی اجتماعی نفسیاتی معذوری کا عکاس ہے جس کا علاج ممکن نظر نہیں آتا۔
ملک کے آئین میں وعدہ کئے جانے کے باوجود اس کے شہریوں کا بنیادی تعلیم، صحت ، رہائش کی سہولتوں اور جان و مال کے تحفظ کے حق سے محروم رہنا شاید اس ملک کی سب سے بڑی معذوری ہے جس کا اظہار کرتے ہوئے اب کسی کو شرم بھی نہیں آتی۔
اپنے شہریوں کو خلاء پر لے جانے کے منصوبوں پر کام کرنے والی حکومتوں کو اپنے ایوانوں اور محلات کے آس پاس زمین پر رینگتے گندگی کے ڈھیر پر اپنی خوراک تلاش کرتے انسان نما کیڑے مکوڑے نظر نہیں آتے ہیں تو اس سے بڑی کیا بصری معذوری ہوسکتی ہے۔ سینکڑوں میل دور مغرب کے قبحہ خانوں میں موسیقی کے شور پر اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونسنے والوں کو اپنے آس پاس چیختے چلاتے عورتوں اور بچوں کی آوازیں سنائی نہیں دیتی جو روز اپنے جسم و روح کے رشتے کو برقرار رکھنے کے لئے بیچے اور خریدے جاتے ہیں تو اس سے بڑی کیا سمعی معذوری ہوسکتی ہے؟
لکھنے پڑھنے کی صلاحیت کو عالمی طور پر ہر شہری کا بنیادی حق تسلیم کیا گیا ہے جس کی ذمہ داری ریاست پر عائد کی گئی ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ہمارے ہاں اس وقت اڑھائی کروڑ بچے ایسے ہیں جو اس صلاحیت کو حاصل کرنے سے معذور ہیں۔ اس اجتماعی معذوری کی ذمہ داری براہ راست ریاست پر عائد ہوتی ہے جو ان بچوں کو پڑھنے لکھنے کا موقع فراہم کرنے سے معذور ہے۔
ملالہ یوسفزئی نے جب ناخواندگی کی اس معذوری کو’’ایک استاد، ایک قلم ، ایک کتاب‘‘ کی فراہمی کے ذریعے صلاحیت میں بدلنے کا خواب دکھایا تو پوری دنیا نے اس کی پذیرائی کی مگر ہمارا معاشرہ اپنی ہی بیٹی کی آواز کو سن نہیں سکا ۔ ملالہ کی اس آواز کو سننے میں کہیں برستی گولیوں کا خوف حائل ہے تو کہیں گرجتی تکفیر کا اور کہیں دیدہ و نادیدہ ہاتھوں کی خاموش گرفت کا جو ہماری اجتماعی معذوری اور مجبوری کا آئینہ دار بھی ہے۔
چلنے پھرنے، دیکھنے ، سننے اور بولنے کی معذوری پر سائنس اور ٹیکنالوجی کے ذریعے قابو ہایا جا چکا ہے۔ اب شایدآنے والے چند سالوں کے بعد ایسی جسمانی صلاحیتوں سے محروم افراد قصہ پارینہ بن جائیں گے ۔ مگر نفسیاتی اور عقلی معذوری کا علاج ہوتا ہوا ممکن نظر نہیں آتا جو بظاہر صحت مند نظرآتے افراد اور معاشرے کو لاحق ہوتی ہے۔ ایسا معاشرہ جو ابن سینا، الکندی، فارابی اور ابن رشد کی روشن راہوں پر چلنے والے مستقبل کے درخشاں ستاروں کو پیدا کرنے اور ان کو تحفظ دینے سے معذور ہو وہ اجتماعی نفسیاتی معذوری کا شکار معاشرہ بن جاتا ہے جس کا علاج ہوتا ہوا نظر نہیں آتا۔
♦