بلا شبہ انصافی حکومت، اسٹبلشمنٹ اور عدلیہ ایک ہی پیج پر ہیں، اسٹبلشمنٹ کے متعین کردہ عسکری پیج پر۔ جب پارلیمان، آئین و قانون اور جمہوری اداروں کی بالادستی کے اصولوں ترک کر دئے جائیں، حکومت غیر منتخب قوتوں کا ایجنڈا لے کر چل پڑے تو پیج بھی ایک ہو گا اور بیانیہ بھی مشترک۔
وزیر اعظم عمران خان نے کامیاب حکومت کا سنہری نسخہ پا لیا کہ اسٹبلشمنٹ کے پیج پر منتقل ہو جاو، طاقتور حلقوں کی ہاں میں ہاں ملاتے رھہو۔ کرپشن اور احتساب کا شور مچاتے رہو اور اقتدار کے مزے لوٹتے رہو۔ پالیسی اور ایجنڈا وہی اختیار کرو جس کا اشارہ اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے ملے۔ حساس خارجہ، داخلہ اور قومی سلامتی کے امور پر زبان مت کھولو۔ بلکہ ان سے آنکھیں اور دماغ کی کھڑکیاں بند رکھو۔
انصافی حکومت بڑی ڈھٹائی اور تسلسل سے جمہوریت، پارلیمنٹ، سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں کی تضحیک اور بے توقیری کر نے میں مصروف ہے۔
غیر جانبدار تجزیہ کار متفق ہیں کہ انصافی حکومت پارلیمنٹ، آئین و قانون اور جمہوری اداروں کی بالادستی پر یقین نہیں رکھتی۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عمران خان کو جنرل ضیا اور جنرل مشرف کے جمہوریت دشمن نامکمل ایجنڈا پورا کرنے کے لئے اقتدار سونپا گیا ہے۔ اسٹبلشمنٹ کا شہسوار لگامیں تھامے ریاستی گھوڑے کی سمت اور رفتار پر مکمل کنٹرول رکھتا ہے۔ شہسوار کے پیچھے جونیئر پارٹنر وزیر اعظم اسکا ہم رکاب۔
حساس خارجہ، داخلہ، قومی سلامتی اور اقتصادی معاملات کی گنجلک گتھیاں سلھجانے میں عسکری چیف سر گرم ہیں۔ وزیر اعظم، وزیر خزانہ اور مشیر اقتصادی امور، سی پیک پر بچگانہ طرز عمل کا مظاہرہ کریں، تو آرمی چیف چینی صدر سے ملاقات میں بگاڑ درست کریں۔ کرتار پور کا کاریڈور کھولنے اور جنگ سے گریز کی پالیسی کا اعلان کریں۔ امریکی صدر کے افغان امور پر ایلچی سے ملاقاتوں میں افغان مسائل کی گتھی سلجھانے کی کوشش کریں۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے دوروں میں ڈالروں کی ترسیل کا بندوبست کریں۔
جبکہ چیف جسٹس نے صحت، تعلیم اور پانی کے مسائل حل کرنے کا بوجھ اٹھا رکھا ہے۔ چیف صاحب نے ڈیم بنانے کا جھنڈا اٹھا لیا، آبادی کنٹرول کی پالیسی بھی پیش کر دی ہے۔ ہسپتالوں اور تعلیمی اداروں کی دگرگوں حالت سنوارنے کے لئے احکامات جاری کرنے شروع کر دئے۔ غیر قانونی تجاوزات گرانے کے احکامات جاری کر دئے، پولیس افسروں کے غیر قانونی تبادلے روک دئے۔ افسر شاہی کی نا اہلی اور سست روی کو درست کرنے پر توجہ مرکوز کر دی۔
جہاں دو بڑے چیف حکومت چلانے کی ذمہ داری نبھا رہے ہوں وہاں وزیر اعظم کو ملکی امور کے لئے سر درد لینے کی کیا ضرورت۔ وزیر اعظم نے مستقل مزاجی سے پھنے خانی بڑھکیں لگانے کا کام سنبھال رکھا ہے۔ “میں کسے نوں نیں چھڈاں گا”۔ نہ کرپشن کے خلاف قانون سازی، نہ لوٹی ہوئی دولت بیرون ملک سے لانے کے لئے کوئی ٹھوس قدم۔ نہ منی لانڈرنگ رکنے کے آثار۔ نیب نے اسٹبلشمنٹ کی پشت پناہی سے احتساب کا یک طرفہ، جانبدارانہ اور غیر شفاف سیاسی ڈرامہ رچا رکھا ہے۔
دوسری جانب ملک کے گلی کوچوں میں نام نہاد تبدیلی کا بے رحمانہ رقص جاری۔ آسمان سے باتیں کرتی مہنگائی کا چیختا چنگھاڑتا ناچ، غریب عوام کی بے بسی اور لاچاری کا مذاق اڑاتا وحشیانہ بھنگڑا۔ آٹا، دال، چاول، تیل وغیرہ غریب شہری کی پہنچ سے باہر، گوشت ناممکنات میں شامل، پھلوں کو ھاتھ لگانا دشوار، بجلی، گیس، پیٹرول، مٹی کا تیل اور دیگر ضروریات زندگی کی قیمتوں کی اونچی اڑان تھمنے کا نام نہیں لے رہیں۔ ناجائز تجاوزات کے ہٹانے سے لاکھوں غریب بے روزگار ہوگئے۔ انہیں متبادل روزگار فراہم نہیں کیا گیا۔ نئے پاکستان کی نئی حکومت نے عوام کو مسائل کے بوجھ تلے کچلنے میں کوئی کثر نہیں چھوڑی رکھی۔ عوامی بے چینی میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے اور حکومتی مقبولیت کا گراف گرنے کی رفتار تیز ہوتی جارہی ہے۔
روز افزوں بڑھتی عوامی مشکلات سے بے بہرا حکمران نا معلوم حکومتی کارکردگی کے گن گاتے نہیں تھکتے۔ حکمرانوں کی نااہلی، ناتجربہ کاری، معاشی بے سمتی، حد سے بڑھی خود اعتمادی اور سیاسی وژن سے محرومی نے ملکی حالات بگاڑنے میں سونے پہ سہاگے کا کام کیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا نواز، زرداری، شہباز یا پچاس مزید اپوزیشن سیاستدانوں کو جیلوں میں ڈال کر ملک کے مسائل حل ہو جائیں گئے۔ کیا عوام کو مطمئن کرنے کے لئے یہ کافی ہو گا۔ حالات کی نزاکت سے بے خبر حکمران سمجھنے سے قاصر ہیں کہ احتساب کے نام پر سیاسی انتقام اور جیلیں بھرنے سے سیاسی محاذ آرائی اور عدم استحکام میں اضافہ ہوگا۔ پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ حالات بدل جائیں تو لاڈلے کو گھوڑے کی پشت سے نیچے اتارنے میں کوئی دقت محسوس نہیں ہو گی ۔