عمرانؔ خان کے ماضی میں پلے ؔبوائے ہونے کے بارے میں مغربی اخباروں میں بہت کچھ لکھا جاتا رہا ہے، جن میں برطانیہ کا قدامت پرست جریدہ دی ٹائم بھی شامل ہے۔ ہم وزیرِ اعظم کے لحاظ میں پلے بوائے کا وہ ترجمہ استعمال نہیں کررہے جو حقّیؔ صاحب کی آکسفورڈ کشنری میں درج ہے، آپ خود دیکھ لیں۔ ہاں ہم جالبیؔ صاحب کی انگریزی اردو لغت سے استفادہ کرتے ہوئے انہیں ماضی کا ایک ریئس کھلنڈراجوان کہہ لیتے ہیں۔
گزشتہ چند ماہ میں عمران خان سے حکمرانی کے نئے ماڈلوں کو چرچا سن سن کر ہم اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ اپنے کھلنڈرے پن میں نئی نئی (یہاں نئےنئے بھی چل سکتا ہے) ماڈلوں سے کھلواڑ کی عادت شاید ان کے رگ و پے میں سرایئت کرگئی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اب انہوں نے پلے بوائے کے کمبل سے جان چھڑا لی ہو لیکن یوں لگتا ہے کہ کمبل انہیں نہیں چھوڑتا ۔ جبھی تو وہ سوتے جاگتے ماڈل ماڈل کی گردان کرتے ہیں اور روز ایک نیا حکمرانی ماڈل ڈھونڈھ لاتے ہیں۔ جن میں ریاست مدینہ کاماڈل، چینی ماڈل، ملیشیائی ماڈل، اور عسکری ماڈل، ابھی تک سرِ فہرست ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ ا س میں روسی ماڈل ، ترکی ماڈل ، اور جاپانی ماڈل وغیرہ بھی شامل ہو جایئں گے۔ اور پھر وہ خود جانی واکر کاماڈل بنے ، ’میرا جوتا ہے جاپانی، یہ پتلون انگلستانی، سر پہ لال ٹوپی روسی، لیکن دل ہے پاکستانی ‘ گاتے ہوئے سڑکوں پر ناچتے نظر آیئں گے۔
مزاح سے گریزکرتے ہوئے ہم ان کے حکمرانی ماڈلوں کا جائزہ لیتے ہوئے، یہ دیکھیں گے کہ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیئے وہ حکمرانی کے اصل ماڈل یعنی جمہوری ماڈل کی بات کیوں نہیں کرتے ۔ اب ہر ماڈل پر باری باری نظر ڈالتے ہیں:۔
ریاست مدینہ کا ماڈل : اس ماڈل کی بات کرنے سے پہلے ہم سو بار نعوذ باللہ پڑھتے ہیں ،اور توبہ توبہ کرتے اس ماڈل کا صرف تاریخی تحقیقی تجزیہ کرتے ہیں۔ اگر آپ اللہ کوحاضر ناظر جان کر اور حضورصلعم کو گواہ بنا کر صدقِ دل سے تحقیق کریں گے کہ تو آپ کاپتہ چلے گا کہ ریاست مدینہ کا کوئی ماڈل تھا ہی نہیں ۔ اگر ہوتا تو ابنِ اسحاق جیسے سیرت نگار، اور ابنِ خلدوں جیسے ماہرِ تاریخ اورعمرانیات اس کا ذکر ضرور کرتے اور چند سالہ ریاستِ مدینہ کے بعد کی ریاستیں ا س ماڈل کی بنیاد پر آئنید ہ فخرسے حکمرانی کرتیں ۔
آپکو یہ بھی سمجھ میں آئے گا کہ حضورصلعم کے وصال کے بعد خلافت کے تعین میں کیا مسائل پیش آئے ؟ کیوں یہ فیصلہ کیا گیا کہ خلافت کا حق دار صرف اہلِ قریش میں سے ہی ہوسکتا ہے۔ اور اگر ریاست مدینہ کا ماڈل قابلِ تقلید ہونا تھا تو چار قابلِ صد احترام خلفائے راشدین میں سے تین کو کیوں شقی القلبی سے قتل کیاگیا۔ کیا یہ ماڈل کوئی ایسا قبائلی ماڈل تھا جس میں حکومت کی تبدیلی صرف حکمراں کوقتل کرکے ہی ہو سکتی ہے۔
کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ چونکہ عمران خان خود نیازی قبائلی ہیں تو انہیں قبائلی بنیاد پر قائم کیا گیا نظامِ حکمرانی ہی اچھا لگتا ہے۔ یا وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ریاست مدینہ کا نام لے کر وہپاکستان کے سادہ لوح عوام کو اور بھی بے وقوف بنانا چاہتے ہیں۔ شاید انہیں یقین ہےکہ جنرل ضیا کی” اللہ حافظ ثقافت” کی ماری مخلوق کسے ایسے نظام کے بارےمیں سوال نہیں کرے گی جس میں مدینہ کا مقدس و محترم حوالہ شامل ہو۔ ریاست مدینہ کےنام کا استحصال کرکے عمران خان کے حواری شاید آپ کو میثاقِ مدینہ کا حوالہ بھی دیں ۔ آپ ان سے پوچھ سکتے ہیں کہ انیسویں صدی کے مغربی مستشرقین سے پہلے کی اسلامی حکومتوں نے اس میثاق کو کیوں آنکھوں سے نہیں لگایا اور کیوں اسے نظامِ حکمرانی میں شامل نہیں کیا۔
چینیؔ ماڈل : عمران خان کشکول اٹھائے چین پہنچےتو وہاں سے واپسی میں چینی ماڈل اٹھا لائے۔ اب کوئی ان سے پوچھے کہ بھئی یہ چینیماڈل کیا ہے۔ سب سے پہلے تو انہیں یہ جاننا ہو گا کہ چین کا موجودہ حکمرانی ماڈل اس کمیونسٹ نظام کی مسخ شدہ شکل ہے جو مائو ؔ نے نافذ کیا تھا۔ جس کے نتیجہ میں چین رفتہ رفتہ ایک عالمی طاقت بن گیا۔ لیکن عمران خان بھلا کمیونسٹ ماڈل کی بات کیسے کر سکتے ہیں بالخصوص اس ملک میں جہاں کمیونزم کو لادینیت سمجھا جاتا ہے، جسکی مخالفت کرتے کرتے پاکستانیوں کو جہادیوں میں تبدیل کیا گیا۔
کیاوہ نہیں جانتے کہ چین کو اب ایک ایسا سرمایہ دار ملک بنادیا گیا ہے ، جس میں ترقی کے ساتھ مالی اور دیگر بد عنوانیا ں آسمان کو چھوتی ہیں۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ اس نظام کے بدعنوان افسروں کی عیاش اولادیں اور جائدادیں کہاں کہاں پہنچی ہوئی ہیں۔ وہاں قانون کی حکمرانی اس طرح کیہے کہ بدعنوانی کے الزام میں نام نہاد عدالتی کاروایوں کی آڑ میں سینکڑوں لوگ قتل کیئے جاتے ہیں۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ چین کے صوبے سنکیانگ میں لاکھوں اقلیتی مسلمانوں کے ساتھ کیسی زیادتی اور ظلمہو رہا ہے۔ کیا آپ بھی پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ یہی سب کرنا چاہتے ہیں۔
ملیشیائیؔ ماڈل: عمران خان مالی امداد کی تلاش میں ملیشیا بھی پہنچے۔ وہاں ان کی ملاقات بزرگ سیاستدان مہاتیر ؔ محمد سے ہوئی۔اس ملاقات کی اہم یاد یہ بھی ہے کہ اس کے دوران مہاتیر محمد کی بیگم نے عمران خان کا ہاتھ تھامنے کی درخواست کی۔ ملیشیا کے اس سفرکے بعد عمران خان نے پاکستان کو ملیشیائی ماڈل بنانے کا عندیہ دے دیا۔ کیا انہیں معلوم نہیں کہ ملیشیائی نظامِ حکومت جمہوریت کی آڑ میں شخصی حکمرانی کا ماڈل رہاہے۔ جس میں مہاتیر محمد کم از کم بایئس سال سے زیادہ حکمراں رہے ہیں۔ اور یہ کہ انہوں نے اپنے پسندیدہ ممکنہ جانشین، انورابراہیم سے ناراض ہو کر انہیں اغلام بازی کے جرم میں جیل میں سڑ وایا تھا۔ کیاعمران خود بھی سالہا سال اسی طرح حکمرانی کے خوب دیکھ رہے ہیں ۔ اور کیا وہ بھی اپنے مخالفین سے اسی طرح پیش آنا چاہتے ہیں۔
عسکریؔ ماڈل: عمران خان، شاید ایک عسکر ی ماڈل کو اپنا کر حکمرانی کرنا چاہتے ہیں۔ ایسا ماڈل میں جس میں عسکری قوتیں خود پس منظرمیں رہ رہ کر اپنے کسی پٹھو کے ذریعہ حکمرانی کرتی ہیں۔ عمران خان اور ان کے حواری بار بار یہ کہتے ہیں کہ عمران خان کےدورِ حکومت میں شہری اور عسکری اربابِ حل و عقد ایک ہی صفحہ پر ہیں۔ بلکہ چند دن پہلے تو یہ بھی کہا گیا کہ عساکرِ پاکستان ، تحریکِ انصاف کے منشور کی حمایتی ہیں۔
عمران خان توآکسفورڈ وغیرہ میں پڑھ کر آئے ہیں۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ پاکستان کے آئین کے تحت عساکر ِ پاکستان ریاست کا ستو ن نہیں ہیں بلکہ شہری انتظامیہ کے ما تحت ہیں۔ اس آیئن کے تحت عسکری اور شہری اربابِ حل و عقد کو ایک صفحہ پر ہونا دراصل ایک فروعی بات ہے۔ اصل میں عساکر کو شہری اربابِ حل و عقد کے تابع ہونا لازم ہے۔
عمران خان کے حکمرانی ماڈلوں میں آپ کو جمہوری ماڈلوں کی کوئی بات نہیں ملے گی۔ ممکن ہو کہ انہیں جمہوریت سے کوئی تعلق ہی نہ ہو۔وہ تو اب سے پہلے کئی بار پاکستان کی پارلیمان کی بھد اڑاتے رہے ہیں۔ بلکہ پاکستان کی پارلیمان کا گھیرائو کرکے اس پر حملہ کا عندیہ بھی دے چکے ہیں۔ پارلیمان کی بھداڑانے کی ریت ان کے موجودہ گوئبلز یعنی وزیراطلاعات میں بھی سرایت کر چکی ہے، جوکھلے بندوں سینیٹ کی توہین کرتے رہے ہیں۔ پاکستان کے عوام کو جان رکھنا چاہیے کہ عمران خان کے پاس کسی جمہوری نظام کا کوئی ماڈل اور خاکہ نہیں ہے۔ وہ ماڈل ماڈل کیرٹ لگا کر ہمارا آپ کا ذہن الجھانا چاہتے ہیں، اورہمیں شخصی حکمرانی کی طرف راغب کرنا چاہتے ہیں۔ یہ لکھا ہے ہماری قسمت میں۔