محمد شعیب عادل
اٹھارہ اگست کو ایوان صدر میں عمران خان کی بطور وزیر اعظم حلف برداری کی تقریب میں سابقہ بھارتی کرکٹر اور اب سیاستدان نوجوت سنگھ سدھو مہمانوں میں ممتاز نظر آرہے تھے۔ آرمی چیف جنرل باجوہ نے بھی انہیں اٹھ کر جھپی ڈالی اور کرتار پور بارڈر کھولنے کا اعلان کردیا۔ پنجابی ایسٹیبشلمنٹ اور اس کے پروردہ دانشوروں نے اسے پاک انڈ یا تعلقات کی طرف پیش قدمی کا عندیہ دیا جبکہ سوشل میڈیا میں آرمی چیف کے اس اعلان پر کچھ احتجاج بھی ہوا کہ وہ کون ہوتے ہیں کرتار پور بارڈر کھولنے کا اعلان کرنے والے۔ ایسے فیصلے کرنا پارلیمنٹ کا کام ہے جرنیلوں کا نہیں۔
لیکن ہم شاید یہ بھول جاتے ہیں کہ پاکستان میں مسلح افواج ہی ایسا ادارہ ہے جو کھل کر قومی و بین الاقوامی سیاست کر سکتا ہے۔ سیاست دان اگر اپنے ہمسایہ ممالک سے سفارت کاری میں پہل کرے تو پاکستان کی فوجی قیادت انتہا ئی برا مناتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب بھی سویلین حکومت اپنے ہمسایوں سے دو طرفہ تجارتی تعلقات قائم کرنے کی کوشش کرتی ہے تو ملٹری ایسٹیبشلمنٹ ان کے فیصلوں کو اپنے سٹریٹجک اثاثوں کے ذریعے سبوتارژ کروا دیتی ہے۔
بھارت یہ بات بخوبی جانتا ہے کہ اگر ملٹری ایسٹیبشلمنٹ نواز شریف کو بھارت کے ساتھ دوستی کرنے کی پاداش میں اقتدار سے فارغ کر سکتی ہے تو عمران خان کی کیا اوقات ہے۔کرتار پار راہداری یا بارڈر کھولنے کا فیصلہ پاکستان کی فوجی قیادت کا یکطرفہ فیصلہ ہے۔ دونوں ملکوں کی حکومتوں کے درمیان اس مسئلے پر کوئی گفتگو نہیں ہوئی۔ بھارتی حکومت اس فیصلے سے انکار کرکے پاکستان کو فری ہینڈ بھی نہیں دینا چاہتی ۔یہی وجہ ہے کہ بھارت کی اعلیٰ سطح کی قیادت نے اس تقریب میں شرکت نہیں کی۔بھارتی حکومت نے پاکستان مین منعقدہونے والی سارک کانفرنس میں شرکت سے بھی معذرت کر لی ہے۔ کیونکہ دونوں ملکوں میں اعتماد کا فقدان ہے۔
پاکستان آرمی نے ساوتھ ایشین خطے میں اپنے سٹریٹیجک مفادات کے لیے ہمیشہ مذہبی کارڈ استعمال کیا ہے۔ کرتار پور راہداری کھولنے کا فیصلہ بھی سکھوں کے مذہبی جذبات سے بھرپور فائدہ اٹھانا ہے ۔سکھ دوستی پاک فوج کا جہادی پراجیکٹ ہے ۔ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہمارے ہاں سکھوں سے محبت اور ہندووں سے نفرت کے رویوں کو فروغ دیا گیاہے۔ ماضی میں پاک فوج کے خالصتان کا پراجیکٹ نے اس خطے میں قتل و غارت کے سوا کچھ نہ دیا۔ انہی پالیسیوں کی بدولت بنگال میں لاکھوں بنگالی قتل ہوئے، افغانستان میں جہاد کے نام پر پختونوں کا خون بہایا گیا۔ کشمیر میں کشمیریوں کے مذہبی جذبات بھڑکا کر انہیں قتل گاہ پہنچایا جاتا ہے۔
بھارت کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ اگر پاکستانی ریاست دوستی میں سنجیدہ ہے تو کشمیر میں جاری دہشت گردی نہ صرف روکے بلکہ دہشت گردوں کو پالنے کی بجائے انہیں ختم کرے۔سفارت کاری ہو یا کوئی بھی سماجی عمل اس میں یکطرفہ فیصلے دوستی کی بجائے نفرت کا موجب بن جاتے ہیں۔ کرتار پور راہداری بھی دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہتری کی بجائے مزید خرابی پیدا کرنے کا موجب ہی بنے گی۔
یاد رہے کہ کرتار پور راہداری کی افتتاحی تقریب میں خالصتان تحریک کے رہنما گوپال چاولہ کو بھی شامل کیا گیا تھا ۔ گوپال چاولہ جماعت الدعوہ کے پلیٹ فارم سے حافظ سعید کی ہمراہی میں خالصتان کے قیام کے حق میں تقریریں کرتا ہے ۔ کچھ عرصہ قبل اس نے بھارتی ہائی کمیشن اسلام آباد کے سفارت کاروں کو گوردوارہ میں جانے سے روکا تھا اور پاکستانی پریس سے اپنے اس اقدام کے حق میں تعریف سمیٹی تھی۔
کرتار پور راہداری کو لے کر سوشل میڈیا میں کافی تبصرے ہوئے ہیں۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ آخر پنجاب ہی کیوں انڈیا سے دوستی کرتا چاہتا ہے باقی صوبوں کو اپنے ہمسایوں سے تعلقات قائم کرنے کا کوئی حق نہیں۔ ماضی میں سندھ حکومت نے کھوکھرا پار مونا باو کی راہداری کا افتتاح کیا تھا جسےچلنے نہ دیا گیا۔ پاکستان کی سیاسی قیادت کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ بھارت اور فغانستان سے دوستی و تجارت کا تعلق قائم کرے۔
معروف پختون سیاسی رہنما افراسیاب خٹک نے اپنے ٹویٹ میں لکھا کہ’’ کرتار پار راہداری71 سال بعد کھولنے سے پاک ہند کے تعلقات بہتر ہونگے۔ سدھو اور گورنر کو پنجابی بولتے ہوئے بہت قربت کا احساس ہوا۔ یہی جذبہ پاک افغان راہداری پر اپنانا چاہیے کہ ہم بھی ایک خدا ، رسول ، قرآن اور مذہب کو ماننے والے پشتو بولتے ہوئے گلے ملیں اور پاک افغان دوریاں ختم ہوجائیں‘‘۔
ایک صارف نے لکھا کہ کرتار پور کاریڈور کو لے کر بھارت اور پاکستان میں بڑی چالاکی اور ہوشیاری سے سیاسی کھیل کھیلا جارہا ہے۔ پاکستان کرتار پور کاریڈور کھول کر بھارت سے دوستی کی بجائے سکھوں کو خوش کرنا چاہتا ہے کیونکہ اگر مقصدبھارت سے دوستی کرنا ہو توکرنے کے اور بہت سے کام ہیں۔ کرتار پور کاریڈور سے صرف سکھ مستفید ہوسکیں گے جہاں تک پنجابی ہندووں کا تعلق ہے ان کے لئے یہ راستہ کھلا ہو یا بند، ان کو اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اصل مسئلہ دونوں ممالک کے درمیان ویزا کی پابندیوں کو نرم کرنا ہے۔ماضی میں پاکستان کی سیاسی حکومتوں نے دونوں ممالک کے درمیان ویزا کی پابندیوں کی نرم کرنے کے کئی معاہدے کیے۔ جو پاکستان کی جہادی تنظیموں کی کاروائیوں کی بدولت ختم ہوگئے۔
دسمبر 2005 میں امرتسر ننکانہ صاحب بس سروس کے آغازکے وقت ایسے ہی جوش و خروش کا مظاہرہ دیکھنے میں آیا تھا جیسا ہم آجکل کرتار پورراہداری کھلنے پر دیکھ رہے ہیں۔ گذشتہ 13سالوں میں شاید ہی چند ہزارسکھوں نے اس بس پر سفر کیا ہوگا کیونکہ انھیں ویزا ہی نہیں دیا گیا۔ بعض اوقات تو یہ بس محض ایک مسافر کے لے کراپنی منزل مقصود کو روانہ ہوتی ہے۔ کرتار پور راہداری محض ڈرامہ بازی ہے جو پاکستان وسیع تر جہادی پراجیکٹ کا لازمی جزو ہے ۔ نمایشی طورپرابتدائی دنوں میں کچھ لوگ ضرور آئیں گے لیکن پھر کچھ ایسی رکاوٹ پیدا کی جائے کہ سب کچھ دھرا کا دھرا رہ جائے گا۔ اگر نیت درست ہو توکسی مخصوص راہدای کی ضرورت نہیں ہے واہگہ اورگنڈا سنگھ والا بارڈرز ہی کافی ہیں۔ دونوں ممالک ویزے ہی جاری نہیں کرتے کہاں کی راہدای اور کہاں کی خیر سگالی۔
♦
One Comment