منظورپشتین نے کوئٹہ سے زبردستی کراچی اپنیواپسی کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئےکہا ہے کہ پاکستانی حکومت پشتونوں کے پرامن اور آئین کے دائرے میں ہونے والیجدوجہد کو روکنے کے لیے اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آئی ہے۔ انہوں نے کہا، ’’آج ہمیں قواعد و ضوابط کی سنگین خلاف ورزی کرتےہوئے کوئٹہ سے واپس کراچی اور بعد میں اسلام آباد منتقل کیاگیا۔ ہمیں اس امر پربے حد افسوس ہے کہ یہاں ریاستی ادارےپشتونوں کو جائز حق کے لیے آواز بلند کرنےسے بھی روکنے کی کوشش رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا، ’’اگر حکومت یہ تسلیم کرتی ہے کہ یہاں بسنے والے پشتون بھی اس ملک کےشہری ہیں توان پر تمام دروازے کیوں بندکیے جا رہے ہیں؟ کیا اپنے حق کے لیے آوازبلند کرنا کوئی جرم ہے ؟ کیا آئین پاکستاننے ہر شہری کو یہ حق نہیں دیا ہے کہ انصافکے لیے آواز اٹھائے؟ ہم سب آئین اور قانونکے دائرے میں رہ کر اس ریاست سے پشتونوںکے حقوق مانگ رہے ہیں۔ یہ کہاں کا انصافہے کہ ہمیں اب اپنے لوگوں سے بھی ملنے کیاجازت نہیں دی جا رہی ہے۔‘‘۔
پی آئی اے کی پرواز پی کے تین سو دس کے ذریعےکراچی سے کوئٹہ پہنچنے والے منظور پشتین،سائیں انور شیرانی اور محمد ادریس کوکوئٹہ ایئرپورٹ سے ہی دوسرے جہاز میں زبردستی سوار کر کے کراچی واپس بھیج دیاگیا۔ بتایا گیا ہے کہ پشتین اور ان کےساتھیوں کو ایئرپورٹ پر کچھ دیر حراست میں بھی رکھا گیا اور ان سے مختلف سوالات کیے گئے۔
منظورپشتین نے بتایا کہ پشتون تحفظ مومومنٹپاکستان میں پشتونوں پر ہونے والے بد ترینمظالم کے خلاف جاری جدوجہد پر کوئی سمجھوتہنہیں کرے گی۔انہوں نے مزید کہا، ’’ریاستیادارے پشتون تحفظ مومومنٹ پر بے بنیادالزامات عائد کر کے حقائق مسخ کرنے کیکوشش رہے ہیں۔ ہمیں ایک منظم منصوبے کےتحت ملک دشمن ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہیہے۔ ظلم کے خلاف انصاف کے حصول کے لیےجدوجہد کرنا ریاست پاکستان کے آئین کی روسے ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔ ہمیں اس حقسے دستبردار کرنے کی کوشش کبھی کامیابنہیں ہو سکتی۔ پشتونوں پر جو بد ترین مظالمکیے گئے ہیں اور اب تک کیے جا رہے ہیں انسے اب پوری دنیا واقف ہو چکی ہے۔ اب پشتوناپنے حقوق کے لیے خاموش نہیں بیٹھیںگے۔‘‘۔
پی ٹی ایم کے چیئرمین کا مزید کہنا تھا کہکراچی میں معصوم پشتونوں کے قتل میں ملوث ریاستی اہلکاروں کیپشتپناہیکی جا رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا، ’’نقیبمحسود کے مبینہ قاتل راؤ انوار کو جس طرح حکومت سزا سے بچانے کی کوشش کر رہی ہے اسسے ریاستی عدل وانصاف بہت عیاں ہو چکا ہے۔اگر یہاں بات ایک ریاست اور شہری کی ہے توہمارے جائز مطالبات حل کیے جائیں‘‘۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے علی وزیرنے کہا، ’’ایک طرف یہ دعوے کیے جارہے ہیں کہ حکومت عوام کو جدید دور کے تقاضوں سےہم آہنگ کر رہی ہے اور دوسری جانب ایکآمرانہ دور کی طرح ملک میں مظلوم پشتونوںکے بنیادی حقوق غصب کیے جا رہے ہیں۔ پی ٹیایم پشتون عوام کی ایک با مقصد اور پرامنتحریک ہے۔ اس سے وابستہ ہر شہری ضابطے کےتحت سیاسی اور جمہوری طرز پر جدو جہد کررہا ہے۔‘‘۔
حکومت عوام کو جدید دور کے تقاضوں سےہم آہنگ کر رہی ہے اور دوسری جانب ایک آمرانہ دور کی طرح ملک میں مظلوم پشتونوں کے بنیادی حقوق غصب کیے جا رہے ہیں۔ پی ٹی ایم پشتون عوام کی ایک با مقصد اور پرامن تحریک ہے۔ اس سے وابستہ ہر شہری ضابطے کےتحت سیاسی اور جمہوری طرز پر جدو جہد کررہا ہے۔‘‘۔
علی وزیر کے بقول اس پرامن تحریک کا نام مذموم عزائم کی تکمیل کے لیے اچھالے گئے کیچڑسے کبھی کمزور نہیں ہو گا۔ انہوں نے مزیدکہا، ’’ریاستی اداروں کے بیانات میں تضادات کئی سولات کو جنم دے رہے ہیں۔کورکمانڈر سے لے کر ڈی جی آئی ایس پی آرتک سب واضح طور پر یہ تسلیم کر چکے ہیں کہ پی ٹی ایم کا احتجاج قانون کے دائرے میں ہے۔ پھر یہ اوچھے ہتھکنڈے کیوں استعمال کیے جا رہے ہیں؟ منظور پشتین اور دیگرساتھیوں کو کوئٹہ جانے سے روکنا ایک غیرآئینی عمل ہے۔ اس سے قبل یہی قدم پاکستان پیپلز پارٹی کی سندھ کی موجودہ حکومت بھی اٹھا چکی ہے لیکن وہاں عوام کے بھرپوراصرار پر وہ فیصلہ واپس لے لیا گیا۔‘‘
رکن قومی اسمبلی علی وزیر کا کہنا تھا کہ پیٹی ایم کے مطالبات پر سنجیدگی سے توجہ نہیں دی جا رہی ہے۔ ان کے بقول،’’فوجی آپریشنوں سے ہمارے لوگ جس بڑے پیمانے پربے گھر ہوئے ہیں ان کے لیے اندرونی اوربیرونی سطح پر جو امداد آئی ہے متاثرہ قبائلی عوام کو اس سے بھی ابھی تک دور رکھاگیا ہے۔ لاپتا پشتونوں کے ورثاء در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں مگر انہیں کوئی انصاف نہیں دے رہا۔ آپریشن کی وجہ سے ہمارےعلاقوں کو بارود کے ڈھیر میں تبدیل کیاگیا۔ یہ دعوے تو کیے گئے ہیں کہ وہاں سےبارودی سرنگیں صاف کی جا رہی ہیں لیکن حقائق اس کے بالکل برعکس ہیں۔ اقتصادی طور پر پشتونوں کو تباہ کر کے رکھ دیا گیاہے۔‘‘
علی وزیر نے بتایا کہ پی ٹی ایم پر جو بے بنیادالزامات عائد کیے گئے ہیں یا تو ریاست انہیں ثابت کرے یا اپنی ناکامی تسلیم کرے،’’ہماری جدوجہد کبھی بھی آئین اورقانون کے دائرے سے باہر نہیں رہی ہے۔‘‘۔
منظورپشتین اوراور پی ٹی ایم کے دیگر ارکان کی کوئٹہ سے زبردستی واپسی کے خلاف پی ٹی ایمکی جانب سے ملک کے مختلف حصوں میں احتجاجبھی کیا گیا۔اس احتجاج کے دوران مشتعل افراد نے پاکستان کے ریاستی اداروں کےخلاف نعرے بھی لگائے اور مطالبات کی منظوری کا مطالبہ کیا۔ ذرائع کے مطابق پی ٹی ایم نے موجودہ حالات سے نمٹنے کے لیے کور کمیٹی کا اجلاس بھی طلب کیا ہے جس میں آئندہ کالائحہ عمل طے کیا جائے گا۔
واضح رہے کہ حال ہی میں پاکستانی فوج کے محکمہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے ترجمان میجرجنرل آصف غفور نے دعویٰ کیا تھا کہ ریاست پی ٹی ایم کے مطالبات فردا ًفرداً پورےکر رہی ہے۔ ان کے بقول اگر پی ٹی ایم نے حدپار کی تو ریاست صورتحال پر قابو پانے کےلیے اختیارات کا استعمال کرے گی۔ڈی جی آئی ایس پی آر کی حالیہ پریس کانفرنس سےمتعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں منظور پشتین کا کہنا تھا کہ پی ٹی ایم پاکستان میں پشتونوں پر ڈھائے جانے والےمظالم کے خلاف ایک جاندار آواز بن چکی ہےاور اسے کسی ہتھکنڈے سے ناکام نہیں کیاجا سکتا۔
DW