امریکی حکومت نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے دوسرے دور میں پاکستان کو بھی شامل کیا ہے ۔ اس سے پہلے پاکستان کو شامل نہ کرنے کی وجہ سے کابل بم دھماکوں سے گونج اٹھا تھا۔
طالبان نے مطلع کيا ہے کہ افغانستان ميں قيام امن کے ليے ان کی متحدہ عرب امارات ميں آج بروز پير امريکی حکام کے ساتھ ملاقات ہو رہی ہے۔ اس ملاقات ميں سعودی عرب، امارات اور پاکستان کے نمائندگان بھی شريک ہيں۔
افغانستان ميں سترہ برس سے زائد عرصے سے جاری جنگ کے خاتمے کے ليے امريکی اہلکاروں اور افغان طالبان کے مذاکرات کا دوسرا دور پير سترہ دسمبر کو متحدہ عرب امارات ميں ہو رہی ہے۔ مذاکرات کے اس تازہ دور کی تصديق طالبان کے ترجمان ذبيع اللہ مجاہد نے کی ہے تاہم انہوں نے اس بارے ميں مزيد تفصيلات نہيں بتائيں۔
افغانستان کی سرکاری بختار نيوز ايجنسی کے ڈائريکٹر خليل مناوی نے البتہ اپنے ايک ٹوئٹر پيغام ميں لکھا ہے کہ اس ملاقات ميں طالبان اور امريکيوں کے علاوہ سعودی عرب، امارات اور پاکستان کے نمائندگان بھی شريک ہيں۔ انہوں نے يہ بھی لکھا کہ ’پاکستان کی جانب سے منعقد کردہ‘ طالبان اور امريکيوں کی اس ملاقات سے ايک روز قبل ديگر ممالک کے نمائندگان نے بھی ايک ملاقات کی تھی۔
يہ امر اہم ہے کہ افغان حکومت کے نمائندے آج اس ملاقات ميں شريک نہيں ہوں گے گو کہ وہ متحدہ عرب امارات ميں موجود ضرور ہيں۔ طالبان، افغان حکومت کے ساتھ براہ راست مذاکرات اب تک مسترد کرتے آئے ہيں۔ ان کا موقف ہے کہ کابل حکومت امريکا کی ’کٹھ پتلی‘ ہے۔
امريکی محکمہ خارجہ نے مذاکرات کے اس دوسرے دور کی نہ تو تصديق کی ہے اور نہ ہی اس بات کی ترديد کی ان کے نمائندے اس ملاقات ميں شريک ہيں۔ افغانستان کے ليے امريکا کے خصوصی مندوب زلمے خليل زاد يہ کہہ چکے ہيں کہ ان کی تمام افغانوں کے ساتھ کئی ملاقاتيں ہو چکی ہيں۔
واشنگٹن حکومت نے سن 2001 سے لے کر اب تک افغان جنگ پر لگ بھگ ايک ٹريلين ڈالر خرچ کيے ہيں اور يہ امريکی تاريخ کی سب سے طويل جنگ ثابت ہوئی ہے۔
طالبان کی جانب سے پچھلے ماہ جاری کردہ ايک بيان کے مطابق ان کی زلمے خليل زاد کے ساتھ قطر ميں تين دن تک بات چيت ہوئی۔ بعد ازاں خليل زاد نے کابل ميں افغان صدر اشرف غنی پر زور ڈالا کہ وہ طالبان کے ساتھ بات چيت کے ليے ايک ٹيم تشکيل ديں تاکہ افغانستان کے مستقبل کے ليے ايک روڈ ميپ پر اتفاق ممکن ہو۔ خليل زاد کی کوشش ہے کہ افغانستان ميں آئندہ برس ہونے والے صدارتی انتخابات سے قبل ايسے کسی سمجھوتے تک پہنچا جا سکے۔
يہ امر اہم ہے کہ خليل زاد نے اس ضمن ميں اسی ماہ اسلام آباد کا دورہ بھی کيا تھا۔ پاکستانی وزير اعظم عمران خان نے بعد ازاں بتايا کہ اپنے دورے ميں خليل زاد نے ان سے طالبان کو مذاکرات کی ميز پر لانے ميں مدد فراہم کرنے کا کہا تھا۔
DW/News Desk