آج میرے فیس بک پیغامات میں ایک وڈیو لنک بھی تھا۔ باغی ملکہ نامی ایک فلم کا وڈیو لنک تھا۔ یہ وڈیو مجھے ایک کرم فرما نے اس تاکید کے ساتھ بھیجا تھا کہ میں اسے ہر صورت میں دیکھوں۔ مگرمیں یہ فلم پہلے ہی دیکھ چکا تھا۔ سال 2010 میں نیویارک کے ایک فلمی میلے میں اس فلم کی نمائش ہوئی تھی۔ اس فلم نے عام ناظرین پرتو کوئی خاص تاثر نہیں چھوڑا، لیکن جن لوگوں کو بر صغیر کی سیاست یا تاریخ سے خاص دلچسبی تھی ان کو یہ فلم پسند آئی۔ چنانچہ گھومتے پھرتے اس کی ایک سی ڈی ہم تک بھی پہنچ گئی۔
یہ فلم اس حیرت انگیز نوجوان خاتون کی جہد وجہد کی د استان ہے، جس کو سکھ سلطنت کے پہلے مہاراجہ کی بیوی اور آخری مہاراجہ کی ماں ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔ یہ مہارانی جند کور تھی۔ اس کا بیٹا دلیپ سنگھ جو مہاراجہ رنجیت سنگھ کا بیٹا تھاپانچ سال کی عمر میں تخت نشین ہو ا تو تخت کی اصل طاقت مہارانی جند کور کے پاس تھی۔ اس کے دور میں معاہدہ لاہور ہوا، جو میرے خیال میں ہماری بربادی کی بنیاد بنا۔ چنانچہ اس خاندان میں ہماری دلچسبی ایک فطری بات ہے۔
معاہد ہ لاہور پر دستخط ہونے اور بظاہر انگریزوں سے صلح کے بعد دلیپ سنگھ اور اس کی ماں پر جو بیتی وہ بھی کسی المناک فلم کی کہانی ہی لگتی ہے۔ دلیپ سنگھ کو انگریز سرکار نے زبردستی انگلستان پہنچا دیا۔ اور باغی مہارانی کو مختلف قعلوں میں قیدو بند میں رکھا۔ کئی برس بعدیہ بہادر عورت بلاخر انگریزوںکی قید سے فرارہونے میں کامیاب ہو گئی۔ یہ خطرناک جنگلات میں مسلسل آٹھ سو میل کے سفر کے بعدنیپال پہنچی، جہاں نیپال کے مہاراجہ نے اسے پناہ دی۔
مہاراجہ دلیپ سنگھ نے جب معاہد ہ لاہور پر دستخط کیے تو اس کی عمر آٹھ سال تھی۔ یہ معاہدہ آنے والی کئی نسلوں کے لیے عذاب اور کشمیری عوام کے پاوں کی زنجیر بن گیا۔ معاہدہ لاہور بظاہر ایک امن معاہدہ تھا، جو پہلی اینگلو سکھ جنگ کے اختتام پر نومارچ 1846کو لاہور میں ہوا۔ اس معاہدے کی تکمیل انگریزسرکار کی طرف سے سر ہنری ہارڈنگ اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے دو انگریز افسروں نے کی ۔ اور سکھوں کی طرف سے اس میںمہاراجہ دلیپ سنگھ اور سکھ دربار کونسل کے سات سکھ شامل تھے۔
یہ ایک بے رحمانہ اورخوفناک معاہدہ تھا۔ اس معاہدے نے ان حالات و واقعات کی بنیاد ڈالی جو آگے چل کر برصغیر کی تاریخ کے ایک گھمبیر ترین مسئلے کا موجب بنے، جسے آج مسئلہ کشمیر کہا جاتا ہے۔ اس مسئلے کے نام پر اور اس مسئلے کی وجہ سے بر صغیر پاک و ہند میں نا صرف کئی دیگر مسائل پیدا ہوئے، بلکہ کئی بار پاک بھارت جنگ کے میدان سجے۔ اس مئسلے کی وجہ سے اسلحہ و بارود کے انبار سے لیکرنیوکلئیربم تک بنائے گئے۔ کشمیر ی عوام کو کشمیر کے اندر آگ و خون کے ایک دریا کا سامنا رہا، تشدد سہنا پڑا۔ غربت اور بد حالی کی وجہ سے سارے جہاں کی خاک چھاننی پڑی۔
معاہدہ لاہور اور مسئلہ کشمیر میں بہت ہی گہرا تعلق ہے ۔ اگر معاہدہ لاہور نہ ہوتا تو ظاہر ہے معاہدہ امرتسر نہیں ہو سکتا تھا۔ اور اگر معاہدہ امرتسرنہ ہوتا تو نہ تو ریاست جموں کشمیر معرض وجود میں آتی، اور نہ ہی مسئلہ کشمیر پیدا ہوتا۔
معاہدہ لاہور کی شق نمبر چار بہت اہم ہے۔ اس شق میںدرج ہے کہ انگریزوں نے اپنی فتح کے بعدجنگی اخراجات کی ادائیگی کے لیے سکھ دربار سے ڈیڑہ کروڑ تعاوان طلب کیا۔ دربار یہ رقم ادا کرنے سے قاصر تھا۔ چنانچہ انہوں نے ایک کروڑ کے بدلے کشمیراور اس سے منسلک و ماتحت پہاڑی علاقے ایسٹ انڈیا کمپنی کو دینے کا فیصلہ کیا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے یہ علاقے بعد میں ایک الگ معاہدے کے تحت راجہ گلاب سنگھ آف جموں کو منتقل کرنے تھے۔
اس معاہدے کی شق بارہ بھی اہم ہے۔ اس شق میں کہا گیا کہ جموں کے راجہ گلاب سنگھ نے لاہور دربار اور انگریزوں کے درمیان اچھے تعلقات کے قیام کے لیے احسن کردار ادا کیا ہے۔ اس احسان و کردار کے بدلے مہاراجہ دلیب سنگھ ان علاقوں پر گلاب سنگھ کی خود مختاری تسلیم کرتا ہے، جن پر پہلے سے اس کی عملداری ہے۔ اور اس میں وہ پہاڑی علاقے بھی شامل ہیں، جو انگریز بعد میں ایک الگ معاہدے کے تحت اس کو عطا کریں گے۔
جیسا کہ پہلے عرض کیا معاہدہ لاہور انگریز سرکار سے جنگ ہارنے کے بعد کیاگیا تھا۔ انگریزوں نے تعاوان جنگ کے طور پر ایک کروڑ پچاس لاکھ مانگا تھا۔ جو لاہور دربار دے نہ سکتا تھا۔ چنانچہ انہوں نے یہ طے کیا کہ ایک کروڑ کے بدلے کچھ پہاڑی علاقے انگریزوں کو دئیے جائیں۔ اور پھر انگریز ایک الگ معاہدے کے تحت وہ علاقے راجہ گلاب سنگھ کو فروخت کر دیں۔ راجہ گلاب سنگھ نے ان علاقوں کے عوض انگریز سرکار کو75لاکھ نانک شاہی سکے ادا کیے۔ چنانچہ معاہدہ لاہور کی روشنی میں سولہ مارچ سال1846 کو راجہ گلاب سنگھ اور انگریزوں کے درمیان ایک اور معاہدہ طے پایا، جسے ہم تاریخ میں معاہدہ امرتسر کے نام سے جانتے ہیں۔
اس معاہدے کے تحت گلاب سنگھ کو جموں کشمیر اور اس کے ماتحت علاقوں کا حکمران یعنی مہاراجہ تسلیم کر لیاگیا۔ پچھتر لاکھ نقد نانک شاہی سکوں کی ادئیگی کے علاوہ گلاب سنگھ نے انگریز سرکار کی بالادستی کے اعتراف کے طور پر ہر سال ایک گھوڑا ، بارہ اعلی نسل کی بھیڑیں اور تین کشمیری شال پیش کرنے کا وعدہ بھی کیا۔ یوں پچھتر لاکھ نقد، ہر سال ایک گھوڑے ، بارہ بھیڑوں اور تین شالوں کے عوض ساڑھے چوراسی ہزار مربع میل علاقے کو اس پر بسنے والے لوگوں سمیت مہاراجہ کے حوالے کر دیا گیا۔ مہاراجہ نے ان علاقوںپر ایک جدید ریاست قائم کی ، جسے ہم ریاست جموں کشمیر کہتے ہیں۔ ڈوگرہ راج کے تحت ایک سو سال تک چلنے کے بعد سال1947میں یہ ریاست تقسیم ہو گئی۔
تقسیم کے اس عمل کا ایک اہم ترین کردار مہاراجہ ہری سنگھ تھا ، جو گلاب سنگھ کے ڈوگرہ راج کا آخری وارث تھا۔ مہاراجہ ہری سنگھ اگرچہ ایک پڑھا لکھا اور جدید زہن کامالک شخص تھا۔ اس نے کشمیر میں کئی بنیادی اور اہم نوعیت کی اصلاحات کر رکھیں تھیں۔ ان میں کشمیری عوام کے جمہوری حقوق کے لیے ریاستی پارلیمنٹ کا قیام، بچیوں کی لازمی تعلیم اور اس طرح کے کچھ دوسرے اچھے اقدامات شامل تھے۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ اس کے کندھے پر ڈوگرا خاندان کے سو سال راج کا بوجھ بھی تھا۔ ریاست کشمیر کے مستقبل کے سوال پر وہ سخت ڈھل مل یقنی کا شکار ہو گیا۔ برصغیر کی پانچ سو ساٹھ کے قریب ریاستیں تقسیم بر صغیر سے پہلے ہی اپنے مستقبل کا فیصلہ کر چکی تھیں۔
چودہ اگست آگیا مگر مہاراجہ اس باب میں کوئی دو ٹوک و واشگاف اعلان نہ کر سکا۔ اگرچہ اس نے پاکستان اور بھارت سے معاہدہ قائمہ کرنے کی کوشش کی۔ پاکستان نے یہ معاہدہ کر لیا۔ بھارت نے کوئی جواب نہیں دیا۔ مہاراجہ بر صغیر میں ریاست جموںکشمیر کی وہی پوزیشن برقرار رکھنا چاہتا تھا جو تقسیم سے پہلے تھی۔ ایسا وہ شاہد کرنے میں کامیاب بھی ہو جاتا اگر وہ بر وقت دو کام لر لیتا۔ ایک تو یہ کہ وہ کشمیری رہنماوں کو جیلوں میں ڈالنے کے بجائے ان سے مکالمہ کرتا، جس کے لیے بیشتر ہوشمند رہنما تیار تھے۔ ملک میں دو بڑی سیاسی جماعتیں نیشنل کانفرنس اور مسلم کانفرنس تھی۔ دونوں جماعتوں کے رہنما مکالمے کے لیے تیار تھے۔ ان سب لوگوں کو ریاست کی سالمیت اور وحدت کے نام پر ایک ایجنڈے پر لایا جا سکتا تھا۔
دوسرا وہ ریاست کو خود اپنے اندر اور باہر سے دوچار خطرات کو بھانپ لیتا اور ان سے نمٹنے کی تیاری کر لیتا۔ مگر بد قسمتی سے وہ اس نازک موڑ پر برقت فیصلے نہ کر سکا۔ چنانچہ ریاست میں لڑائی شروع ہوئی۔ اور ریاست تقسیم ہوئی۔ معاملہ پاکستان اور بھارت سے ہوتا ہوا اقوام متحدہ میں جا پہنچا ، جہاں یہ طویل بحث و مباحثے اور چند قرادادوں کے بعد عملی طور پر طاق نسیان میں رکھ دیا گیا۔ آج ستر سال بعدبھی کشمیر کے تینوں حصوں کے لوگ اپنے مستقبل کے سوال پر پریشان ہیں، اور امید و بیم کی کفیت سے گزر رہے ہیں۔