ہمارے ایک بزرگ دوست نے یہ قصہ سنایا تھا، آپ بھی سنیے۔ ہوا یوں کہ ان کے گاؤں، جو ہندوستان کے کسی دورافتادہ علاقے میں تھا، کے پنچ کے گھر میں شادی ہورہی تھی۔ پورے گاؤں میں پنچ کا بہت عزت و احترام کیا جاتا تھا، گھر میں بھی وہ سب سے عمر رسیدہ تھے، چنانچہ ان کی ہر ایک بات پتھر پر لکیر ہوتی تھی۔
شادی کے دوران تمام لوگ گھر کے بڑے سے صحن میں بنائے گئے منڈپ کے اردگرد کھڑے تھے، جس میں دولہا اور دلہن پھیرے لے رہے تھے۔پنچ نے دیکھا کہ بلی رسوئی (باورچی خانے) کی طرف جارہی ہے، تو لپک کر اس کے اوپر ایک ٹوکری رکھ دی، کہ وہ رسوئی میں تباہی نہ مچادے۔
بزرگ دوست فرماتے ہیں، کہ اس کے بعد سے کئی نسلیں گزر گئیں، آج تک اس گاؤں میں جب بھی کسی گھر میں شادی ہوتی ہے تو ایک عدد بلی کو ٹوکری میں بند کرنا اتنا ہی ضروری سمجھا جاتا ہے، جتنا کہ شادی کے دیگر اہم اور ضروری انتظامات ضروری ہوتے ہیں۔ اگر گھر میں بلی نہ ہو تو پھر کہیں سے بلی پکڑ کر لائی جاتی ہے، یا پھر خریدی جاتی ہے۔
روایتوں پر جی جان کے ساتھ عمل پیرا ہونے والے لوگ کبھی نہیں سوچتے کہ ان کا آغاز کیسے اور کیونکر ہوا تھا…. وہ بس اندھا دھند اس پر عمل کیے چلے جاتے ہیں۔ اگر کوئی سمجھدار انسان انہیں متوجہ کرے کہ تم لوگ یہ کیاحماقت کر رہے ہو؟ تو وہ مشتعل ہوجاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تم نے ہماری ہتک کی ہے، ہمارے بزرگوں کی توہین کی ہے، ہمارے عقیدے کا مذاق بنایا ہے، ہماری ثقافت کا ٹھٹھا کیا ہے، تم ملعون ہو، تم مرتد ہو، تم کافر ہو، تم نکالے گئے ہو…. تمہیں تو زندہ رہنے کا ہی کوئی حق نہیں ہے، کیوں نہ تمہیں جان سے ہی مار دیا جائے، کم سے کم ہاتھوں اور لاتوں سے تو پیٹ ہی دیا جائے…. وغیرہ وغیرہ
یقین، مشاہدے، مباحثے، دلیل، علم، ہنر اور حواسِ خمسہ کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا۔ لیکن ایمان کے لیے ایسی کسی چیز کی ضرورت نہیں، ایمان سے مراد یہ ہے کہ آپ روایت پر اندھادھند یقین رکھیں۔ سوال کی تو گنجائش ہی نہیں ہوتی۔
ہماری ساری فرسودہ روایات کی حقیقت بھی ٹوکری میں بند بلی کی مانند ہے۔ جس طرح آج آپ شادی کے موقع پر بلی کو ٹوکری میں بند کرنے کی روایت کو حماقت قرار دے کر اس پر ہنس رہے ہیں، جلد ہی وہ وقت آئے گا کہ آپ کی ان تمام مذہبی، اخلاقی، معاشرتی، ثقافتی، سیاسی اور معاشی روایات پر لوگ ہنسا کریں گے…. اور اس میں کوئی دو رائے نہیں ہونی چاہیے کہ آج بھی ترقی یافتہ ذہنوں کے مالک ان پر ہنستے ہیں یا افسوس کرتے ہیں۔
اور اگر آپ مسلمان ہیں، وہ بھی موجودہ دور کے مسلمان ہیں تو پھر جان لیجیے کہ شاید ایک صدی کے بعد یا پھر پچاس برسوں کے بعد ہی آپ کا تذکرۂ خیر بچوں کی نصابی کتابوں میں اسی طرح پڑھایا جائے گا، جیسے کہ آج ہومو سپئن کا تذکرہ بچوں کو پڑھایا جاتا ہے۔ لیکن ہومو سپئن کے بارے میں پڑھتے ہوئے بچے حیرت کے سمندر میں ڈوب جاتے ہیں، جبکہ الحمدللہ آپ کا تذکرہ جب کسی کلاس میں پڑھایا جارہا ہوگا تو کلاس میں قہقہے گونج رہے ہوں گے۔ اس لیے کہ موجودہ دور کے مسلمان جہالت کے نہیں حماقت کے عظیم المرتبت مقام پر فائز ہیں۔
یہ منصب بلند ملا جس کو مل گیا
ہر مدعی کے واسطے دار و رسن کہاں
جزبز ہونے کے بجائے اس کی وجہ سمجھ لیجیے، جو یہ ہے کہ جب کوپرنیکس نے کہا تھا کہ سورج زمین کے گرد نہیں چکر کاٹتا ہے، بلکہ زمین سورج کے گرد چکر لگا رہی ہے، تو اس وقت تمام لوگوں نے اس کو کافر قرار دے دیا۔ گلیلیو نے کہا کہ زمین گول ہے تو تمام مذہبی ٹھیکے دار اس کے خلاف ہوگئے۔ کوپرنیکس، گلیلیو یا پھر کسی اور مفکر، محقق یا سائنسدان کی مخالفت کرنے والے افراد کا علم محدود تھا، آج جبکہ اکیسیویں صدی میں علم عام ہوگیا ہے اور کنواں خود چل کر پیاسے کے پاس پہنچ رہا ہے تو اس دور میں بھی مسلمانوں کے اعلیٰ تعلیم یافتہ، اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز ، اساتذہ یونیورسٹیز کے وائس چانسلرز جنہوں نے سائنسی علوم کی ڈگریاں حاصل کر رکھی ہیں، وہ بھی ماضی کی احمقانہ روایات پر صدقِ دل سے عمل پیرا ہیں اور اپنی اس جہالت بلکہ اس سے بھی بڑھ کرحماقت پر فخر کرتے ہیں۔