انگریزی سے ترجمہ خالد محمود
ہمیں روسی انقلاب کے ناخوشگوار واقعات کے متعلق ابھی مزید سیکھنا ہے ۔
یہ 7 نومبر 2017 کو ایلکس سٹائن برگ کی ڈاکٹر الیکسندر ربینو وِچ سے گفتگو کی تحریری نقل ہے۔اس گفتگو کو 16 نومبر 2017 ڈبلیو بی آئی ریڈیو نیو یارک نے انقلاب اکتوبر پر اپنی دو گھنٹے کی خصوصی نشریات میں نشر کیاتھا۔یہ پہلے میں شائع ہوا تھا۔
ایلکس سٹائن برگـ: اگلے حصے میں ہم وہ گفتگو سننے جا رہے ہیںجو میں نے ڈاکٹر الیکسندر ربینو وِچ پروفیسر ایمیریٹس انڈیانا یونیورسٹی سے کی تھی وہ انڈیانا یونیورسٹی میں 1968 سے 1999 تک پڑھاتے رہے ہیں۔ڈاکٹر ربینو وِچ رشئین اکیڈمی آف سائنسز کے تحت سینٹ پیٹرزبرگ انسٹیٹوٹ آف ہسٹری سے بطور محقق منسلک رہے ہیں۔انہیں بین الاقوامی سطح پرسرکردہ ماہرِ روسی انقلاب تسلیم کیا جاتا ہے۔اس موضوع پر انکی تین کتابیوں؛ ’’ پری لُوڈ ٹو ریوولوشن‘‘، ’’دی بالشویک کم ٹو پاور‘‘ اور ’’دی بالشویک ان پاور‘‘ کو روسی انقلاب پر وہ حتمی تاریخی مطالعہ مانا جاتا ہے جو پیٹروگراڈ کی سرگذشت ٹھہری ۔ڈاکٹر ربینو وِچ بہت فعال ہیں اور بین القامی کانفرنسز میں شرکت کرتے رہتے ہیں اور آج کل ایک اور کتاب پر کام کر رہے ہیں جو پیٹروگراڈ کی سول وار کا احاطہ کرتی ہے۔
ڈاکٹر ربینو وِچ یہ بڑی خوش آئند بات ہے کہ آپ گفتگو کے لئے ہمارے ساتھ ہیں۔اپنے اصل موضوع کی طرف آنے سے پہلے میں یہ پوچھنا چاہوں گا کہ آپ کو روسی انقلاب سے دلچسپی کیسے پیدا ہوئی؟ اور اپنا سارا علمی کیریر اسی پروقف کرنے کے لئے آپ کی حوصلہ افزائی یا ترغیب کیا تھی؟
ڈاکٹر ربینو وِچ: یقیناً۔میرے والدین روسی تھے۔میری ماں یوکرین سے تھیں جب وہ پیدا ہوئی تھیں تب یوکرین روس کا حصہ تھا۔اور میرے والد سینٹ پیٹرزبرگ سے تھے۔وہ دونوں 1918 میں سرخ دہشت سے ڈر کر روس سے بھاگے تھے۔میرے والد اس وقت سینٹ پیٹرز برگ یونیورسٹی میںدوسرے یا تیسرے سال میں تھے۔وہ یوجین ربینو وِچ تھے جو مشہور بائیوکیمسٹ اور ’’بلیٹین آف اٹامک سائنسٹسٹ کے معاون مدیر بھی تھے۔وہ مین ہیٹن پراجیکٹ پر بھی تھے اور بم بنانے اور اور اس کے ممکنہ مہلک اثرات کی وجہ سے خاصے پریشان بھی تھے۔انہوں نے ایک ایسے رسالے کی بنیاد رکھی تھی جو آج بھی چل رہا ہے۔انہوں نے برٹرینڈ رسل کے ساتھ مل کر پگواش کانفرنس کی بنیاد رکھی جو امریکی،روسی اور دیگر ممالک کے سائنسدانوں پر مشتمل تھی جو جدید زندگی میں سائنس کے مضمرات اور امکانات پر متفکر تھے۔میرے والد نے برلن سے پی ایچ ڈی کی اور لندن منتقل ہوگئے۔میںلندن میں پیدا ہوا تھا اور جنگ سے پہلے ہم امریکہ آ گئے تھے۔میرے والد کو بوسٹن میں ایم آئی ٹی میں جاب مل گئی اور میںان روسی تارکین وطن کی کمیونٹی میں پروان چڑھا جو انقلا ب سے ڈر کے بھاگے تھے۔وہاں الیگزینڈر کیرینسکی جو روس میں وزیر اعظم تھے،مصنف ولادیمیر نوبوکوف اور دیگر سرکردہ مینشویک بھی تھے۔
کیا آپ ذاتی طور پر انہیں جانتے تھے؟
جی ہاں تب میں نوجوان تھا۔مگر بورس نکولاوسکی جیسے سوشل ڈیموکریٹس کی دستاویزات کے محافظ میرے داد ا کی طرح تھے۔وہ ہمارے ریاست ورمانٹ میں زرعی مکان میں کئی برس تک رہے اور وہیں انہوں نے اپنی کتابیں لکھی تھیں۔اراکلی زرتیلی جو جارجیا کے سرکردہ مین شویک تھے مجھے اچھی طرح یاد ہیں۔جب انقلاب پر میری دلچسپی گہری ہو گئی تھی میں نے متعدد بار کیرنسکی کو انٹر ویو کیا تھا۔ تاہم انقلاب کے متعلق ہر چیز پر میری رائے معاندانہ تھی۔مگر جس چیز نے مجھے مارکسسٹ بنائے بغیر،انقلاب کے بارے میں میری کایا کلپ کی وہ تھا یویورسٹی آف شکاگو میں لیو پولڈ ھیمسن کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ! وہ نہایت عمدہ استاد تھے۔میری روسی انقلاب سے دلچسپی بڑھتی گئی اور جیسے ہی اس پر کام کرنے کے لئے میں نے دستاویزات کو پڑھنا شروع کیا جلد ہی میرا نقطہ نظر تبدیل ہوگیا۔
مجھ پر بچپن سے ہی یہ بات واضح تھی کہ میرے والدین اور دوسرے لوگ جو 1917 کے انقلاب میںاپنی مراعات کھو رہے تھے انہیں زبردستی وہاں سے بھاگنے پر مجبور کیا گیا تھا۔لیکن ذرائع کے مطالعہ سے یہ نتیجہ نکلا کہ پیٹرو گراڈ میں جو ہوا تھا وہ ایک بنیادی سوشل اور سیاسی انقلاب تھاجس نے مجھے گرویدہ بنا لیا۔اس وجہ سے میری اس مضمون میں پیشہ ورانہ دلچسپی قائم ہوئی۔ ھیمسن یقینا لیفٹ پر ایک مفکر سماجی محقق تھے لیکن میرے خیال میں وہ مارکسسٹ نہیں تھے۔لیکن وہ ہر طرح سے ایک متاثر کن استاد تھے اور ان کی مدد سے مجھے اس موضوع نے گرویدہ بنا لیا تھا۔کتب خانوں اورآرکائیوز سے ملی دستاویزات میں اتنا جذب ہوا کہ 1963-64 میں روس چلا گیا اور ایک سال تک جولائی 1917 کی شورش کا مطالعہ کیا مگر زیادہ تر کتب خانوں میں کیونکہ دیگر آرکائیوز مغربی سکالرز کے لئے بند تھیں۔جیسے جیسے میں اس مضمون کی گہرائی میں اترتا چلا گیا اور ان اقتباسات اور بکھری تحریروں سے میں ایک مکمل تصویر نہیں بنا سکتا تھا۔جو بھی تصویر میں نے بنائی یا جو ایک مورخ بناتا ہے وہ لگ بھگ اس کے پس منظر اور نظریات سے تشکیل پاتی ہے۔لیکن میں نے بڑی محبت سے اس حقیقت کے ممکنہ حد تک قریب تر آنے کی کوش جاری رکھی۔
بہت خوب!آپ نے خاطر خواہ حد تک اپنا سارا پیشہ ورانہ کیریر روسی انقلاب کے مطالعہ کے لئے وقف کیا بالخصوص جو کچھ بھی پیٹروگراڈ میں ہوا تھاجو بنیادی طور پر جولائی 1917 سے نومبر 1918 میں انقلاب کی پہلی سالگرہ تک ،کے ایک طرح سے ،عالم اصغر پرمرکوز ہے۔آپ نے اصلی دستاویزات کے ذریعے لینن کی راہنمائی میںبالشویک اور پیٹروگراڈ کے کارکن فوجیوں کے درمیان باہمی تعلق کی حرکیات پرتحقیق کرتے ہوئے کچھ نئے انکشافات کئے ہیں۔ اپنے کام پر تحقیق کے دوران آپ نے اکتوبر انقلاب سے منسوب متعدد داستانوں کی پول کھولی ہے۔اور میں یہ پوچھنا چاہوں گا کہ وہ داستانیں کیا تھیں اور آپ کی کتاب نے کیسے ان کی پول کھول دی۔مثال کے طور پرایک مشہور اسطورہ یہ بھی تھا کہ اکتوبر انقلاب ایک چھوٹے کٹر نظریات والے گروہ کی بغاوت تھی جو عوام الناس سے جڑت نہیں رکھتے تھے اور دوسرا یہ کہ عوام اس کے بدلے ایک لبرل جمہوری حکومت چاہتے تھے جس کامفروضہ بندوبست عبوری حکومت نے کیا تھا۔اسی ہفتے کے اختتام پر ’’وال سٹریٹ جرنل‘‘ نے آرٹیکل شائع کیا ہے جو اسی موضوع 1917 کی بغاوت اور متعصب گروہ کے ارد گرد د گھومتا ہے ۔کیا آپ یہ وضاحت کر سکتے ہیں کہ آپ کی کتاب اس متھ کوکیسے بے نقاب کرتی ہے۔اور آپ کواس معاملے میں کیا حقائق ملے ؟
سب سے پہلے میں نے یہ دریافت کیا کہ فروری سے ہی جو سیاسی اور سماجی کھلبلی مچی تھی اسے درمیان میں روکنا بہت مشکل تھا۔میں نے یہ بھی دریافت کیا کہ لینن کے مٹھی بھر سازشی گروہ کے اقتدار پر قبضے کے برعکس بالشویک نے فروری سے عوامی پارٹی بنانے کے لئے جدوجہد کی تھی جسے کارکنوں اور سپاہیوں میں خوب پذیرائی ملی تھی۔انہوں نے کارخانوں کے مزدوروں اور ان کی ٹریڈ یونینز اور چھائونی کے سپاہ کے درمیان مضبوط تعلقات قائم کرنے کے لئے کٹھن جدّوجہد کی تھی۔انہوں نے نہ صرف، کسی بھی دوسری سیاسی پارٹی سے زیادہ عوامی رابطوں میں جڑیں بنانے اور رائے عامہ کی تشکیل کے لئے کٹھن محنت کی تھی بلکہ خود ان کی آراء کی تشکیل بھی عوامی آراء سے ہوئی تھی۔
سنہ1917 میں پارٹی ایک مرکزی مسلح جدوجہد سے پرے جیسے ایپل بام نے وال سٹریٹ جرنل میں وضاحت کی ہے ایک حقیقی عوامی پارٹی بن کے ابھری جو اختیارات کی مرکزیت کی بجائے مقامی اور جمہوری فیصلے کرتی تھی اوراسی بات ان کی کامیابی میں ہولناک اہمیت تھی۔ جولائی 1917 کی شورش جو لیفٹ ونگ والوں کی طرف سے عبوری حکومت کے خلاف قبل از وقت تھی تباہ کن ثابت ہوئی۔میں نے محسوس کیا ہے کہ لینن اس کے خلاف تھا اور اختیارات کی مرکزیت نہ ہونے کی اسے بھاری قیمت چکانی پڑی تھی۔لیکن طویل مدت میں یہی اندرونی جمہوریت اور اختیارات کی عدم مرکزیت ان کی کامیابی کے لئے اہم ثابت ہوئی تھی۔جولائی،ستمبر اور اکتوبر میں لینن نے عبوری حکومت گرانے کا حکم دیا تھا جسے زمینی قیادت نے یکسر مسترد کر دیاکیونکہ وہ اسے ٹراٹسکی کی قیادت میں لینن کے فن لینڈ سے خفیہ احکامات کی موجودگی میں خطرناک اور ناکام دیکھتے تھے۔
چنانچہ انہوں نے ایسی حکمت عملی وضع کر لی جس سے بالآخر انہیں اقتدار پر کامیاب قبضے کا موقع ملا۔عبوری حکومت کے خلاف تمام اقدامات فوری امن ،اقتدار برائے سویت اور قانون ساز اسمبلی کو اقتدار منتقل کرنے کے نام پر اٹھائے گے۔جب وہ اقتدار میں آئے تو انہیں ملک گیر عوامی حمایت حاصل تھی کیونکہ لوگ انقلاب کے خلاف بغاوت کے متعلق متفکر تھے۔اگست میں ان کے خلاف کارنیلوف کی ناکام بغاوت ہوئی تھی۔وہ دوسری بغاوت سے خوفزدہ تھے انہوں نے’’ تمام اقتدار بالشویک کے لئے ‘‘کا نعرہ بلند نہیں کیاتھا بلکہ تمام اقتدار سوویت کے نام کا نعرہ لگایاتھا جو ایک کثیر الجماعتی نظام تھا۔بالشویک کو اقتدار کا موقع اس طرح ملا کہ مینشویک ، ایس آر ایس اور مینشویک انٹرنیشنل نے دوسری سویت کانگریس کا تب بائیکاٹ کیا تھا جب اس نے نئی حکومت بنائی تھی۔لیفٹ ایس آر نے بالشویک کے ساتھ شراکت اقتدار سے انکا کر دیا جس کی وجہ سے بلاشویک کو اپنی حکومت بنانے کا موقع مل گیا۔
اب کئی اور مورخ انقلاب کا مطالعہ کر رہے ہیں میں اپنے کام کی وجہ سے جلد اس نتیجے تک پہنچ گیا جو فروری سے سول وار تک کے درمیانی عرصے میں ہونے والے واقعات کے بتدریج مطالعہ سے حاصل ہوئے تھے۔فروری میں نئی معاشی پالیسی پہلامرحلہ ،اگست میں شورش دوسرا مرحلہ، اکتوبر میںانقلاب تیسرا مرحلہ اور آخر میں قانون ساز اسمبلی کا خاتمہ وغیرہ وغیرہ۔اور سول وار اسی کا حصہ تھا۔
ایلکس جیسا کہ تم جانتے ہولینن کے اقتدار پر قبضے کا دعویٰ اس مفروضے پر تھا کہ روسی انقلاب، عالمی سوشلسٹ انقلاب کا پیش خیمہ ہو گا جس کا آغاز جرمنی سے ہو گا۔مگر ایسے ہو نہ سکا۔مجھے اداراک ہے کہ میں اپنا کام ختم نہیں کر سکا۔تم ٹھیک کہتے ہو کہ میرا سارا کام چند سالوں کے خوردبینی مطالعہ پر فوکس ہے۔لیکن میں تیسرا حصہ ،مکمل کر رہا ہوں جو حقیقت میں پیٹروگراڈ کی خانہ جنگی اور بالشویک کی بقا پر چوتھی جلد ہے۔اور اب دوسرے کئی اسی نقطہ نظر سے اس کا مطالعہ کر رہے ہیں۔یہی ایک بڑا طریق عمل دکھتا تھا جس کی وجہ سے اس کی مکمل چھان بین ممکن ہوئی۔جب لینن نے دیکھا کہ اس کی روس سے باہر فوری سوشلسٹ انقلاب کی امیدیں بار آور نہیں ہو سکیں تو اس نے،’’نئے معاشی منصوبے‘‘ کا اعلان کر دیا،جو ایک طرح سے معاشی سطح پر ریاستی سرمایہ داری سے جزوی واپسی تھی۔ جیسا کہ تم جانتے ہو ایلکس !’’ایک ملک میں سوشلزم‘‘ لینن کا نہیں تھا بلکہ سٹالن کا تھا۔
سٹالن سے پہلے کسی بھی مارکسسٹ نے ایک ملک میں سوشلزم کا نہیں سوچا تھا۔یہی وجہ تھی جب ضرورتاً اٹھائے گئے چند اقدامات سٹالن تک آتے آتے ایک فضیلت بنا دیے گئے تھے۔میں مضبوطی کے ساتھ سٹیون کوہن کی قیادت میں بخارین کیمپ کے ساتھ ہوں ۔شاید تمہارے علم میں ہو وہ نیو یارک کے مورّخ ہیں اور انہوں نے نکولائی بخارین(پیدائش9 اکتوبر 1888وفات 15 مارچ 1938 )کی سوانح حیات بھی لکھی ہے۔انکے پاس ترقی کے لئے نسبتاً کم سخت اور دھیرج والا منصوبہ تھا جو میرے خیال میں سٹالن دور کے عظیم المیے سے بچا سکتا تھا۔
ٹھیک ہے ہم ان تمام امور پر بحث کر سکتے ہیں لیکن اس پر سوال نہیں اٹھا سکتے کہ خارجی حالات نے بالشویک کو ایسے اقدامات اٹھانے پر مجبور کیا جس کی آغاز میں کوئی منصوبہ بندی نہیں تھی۔
اور میں ذاتی طور پراس کی توثیق کے لئے اکتوبر 1917 سے 1921 تک کی درمیانی مدّت کے لئے دستاویزات رکھتا ہوں۔اور میں اس کا اسی طرح مرحلہ وار مطالعہ کرتا ہوں جس طرح میں نے 1917 اور 1918 کے دوران ہونے والے واقعات کی دستاویزات اکٹھی کی تھیں۔اور ایک اہم فرق یہ ہے کہ اب میں روسی آرکائیوز میں کام کرنے کا مجاز ہوں۔میں ہر سال دو مہینے روسی آرکائیوز(محافظ خانوں) میں کام کرتا ہوں۔میں سینٹ پیٹرزبرگ میں قیام کرتا ہوں اور آرکائیوز میں تحقیق کرتا ہوں۔اور اگلی جلد میں، جو شاید آخری جلد ہو کیونکہ میں اب جوانی کی طرف نہیں مڑ سکتا، میں نچلی سطح پر ان تعاملات اور پیش رفتوں پر مبنی دستاویزات پر دسترس رکھتا ہوں جو میں آرکائیوز کے بغیر نہیں رکھ سکتا تھا۔اور ایک بات جو میں نے دریافت کی وہ یہ تھی ہر آرکائیوز فائل کے ساتھ ایک رجسٹر ایسا ہے جو یہ بتاتا کہ اسے پہلی بار کھولنے کے علاوہ اب تک کس کس نے کھولا ہے۔ان میں سے کچھ 1950 سے بھی پہلے کھولی گئی تھیں۔اور میں نے یہ جانا کہ ان میں سے ایک بڑی تعداد کوبہت کم دیکھا گیا اورکثر کو کبھی بھی کھول کے نہیں دیکھا گیا۔اور اس سے میں یہ نتیجہ اخذ کرتا ہوں کہ ہمیں روسی انقلاب کے بارے میں بہت کچھ نہایت خوفناک جاننا باقی ہے جو اب تک ہم نہیں جانتے۔
مجھے واپس چند اور داستانوں کی طرف لوٹنے دیں مثال کے طور پر یہ متھ بھی تھا کہ بالشویک ہمیشہ ایک ہی آواز میں بولتے تھے اور یہ آواز لینن کی ہوتی تھی۔میرا خیال ہے کہ آپ کی کتابوں اور تحقیق نے اس تصور کو توڑ دیا ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ آپ جیسے پس منظر سے آنے والے کسی بھی شخص کے لئے آپ کی دستیاب علمی تحصیل نہایت ہی متاثرکن بات ہے۔
میں تمہارا شکرگذار ہوں۔درحقیقت ، میں،ساٹھ کی دہائی کے ابتداء میں دونوں نتائج پر پہنچا تھا جب مغرب اور سویت یونین میں کمیونسٹ پارٹی کو یک سنگی (مونو لیتک )سمجھا جاتا تھا۔
یہ مفروضہ روسی انقلاب کے دائیں بازو کے مخالفین اور معذرت خواہ سٹالن نواز جو تیس کی دہائی میں آئے، دونوں کے درمیان یکساں تھا۔
درست۔اور میں نے یہی نقطہ بہت پہلے اٹھایا جب یہ مفروضہ ہر طرف زندہ تھا۔اور تب صرف اپریل کانفرنس دیکھنے سے یہ بات واضح تھی۔انقلاب کے بعد،اپریل کی بالشویک کانفرنس وہ پہلی کانفرنس تھی جس میں لینن نے حصہ لے پایا۔یہ واضح طور پر تین گروہوں میں کمینیف اور زینوفیف جیسے لوگوں میںتقسیم تھی؛لینن نواز،درمیانی گروہ یا اعتدال پسند بالشویک اور دائیں بازو کے بالشویک۔وہ آپس میں لڑے تھے۔اور لینن نے ایک طرح سے انقلاب کی سمت ،تسلسل اور سویت میں انتقالِ اقتدارکے حوالے سے یہ جنگ جیت لی تھی۔اعتدال پسندوں کی آواز بہت طاقتور تھی اور سنٹرل کمیٹی کے تقریباً آدھے ممبران اعتدال پسند ہی تھے۔اور جب بائیں بازو کے کچھ لوگون نے یہ کہا کہ ٹھہریں ہمیں ان سارے اعتدال پسندوں کی ضرورت نہیں ہے۔تو لینن نے کہا،ـ’’نہیں۔ہمیں ان کی ضرورت ہے‘‘۔
ان کے عوامی بندھن ہیں اور کمینیف کی آواز بہت اہم ہے۔ یہ ساری باتیںاپریل کانفرنس کے پروٹوکول میں آپ کو مل جائیں گی۔
سو لینن نے اس سرگرم بحث کو برداشت کیا تھا اور یہ سرگرم بحث ستمبرکے وسط میں بنیادیحیثیت رکھتی تھی جب لینن نے فوری اقتدار پر قبضے کے لئے کال دی تھی۔یہ قبل از وقت تھی۔اب تمام مورخین پر یہ بات روشن ہے کہ اگر تب ایسا ہوتا تو واقعتاً قبل از وقت ہوتا۔ سنٹرل کمیٹی کی اکثریت اوراس وقت پیٹروگراڈ میںجو نیشنل کانفرنس منعقد ہوئی اس میں بھی اکثریت نے لینن کی ہدایات کو نظر انداز کرنے کے حق میں ووٹ دیا تھا۔اور پارٹی کا بھلا اسی میں تھا۔انقلاب کے بعد لینن نے کم وبیش اسے تسلیم کر لیا تھا۔اور سٹالن نے یہ تسلیم کیا تھا کہ ٹراٹسکی ہی وہ راہنما تھا جس نے زمینی حقائق پر مبنی حربوںکے استعمال کے لئے آواز اٹھائی تھی۔
فیصلہ کن تاریخی تحقیق کے باوجود، آپ ایسا کیوں سوچتے ہیں سوچتے ہیں کہ بالشویک یا انتہائی متعصب فرقے کے اقتدار پر قبضہ اور ان کے آمرانہ طرزِحکومت اور غیر لچکداررویے کے علاوہ دیگر اساطیر ابھی تک قائم ہیں؟
مختلف جگہوں پر یہ مفروضے مختلف وجوہات کی وجہ سے قائم ہیں۔مغرب میں بالخصوص امریکہ میں جزوی طور پر قائم ہیں کیونکہ روس دشمنی ابھی تک سرد جنگ کا پھل ہے جو ہمارے انتخابی نظام میں روسی مداخلت اور کمیونزم کے خلاف پہلے سے موجود نفرت کی بنا پر مزید پیچیدہ ہو گئی ہے۔ مجھے یاد ہے کئی سال پہلے لیو ھیمسن جیسے لوگ کہتے تھے یہ اسطورہ قصہ پارینہ ہے۔لیکن مجھے کبھی بھی ایسا محسوس نہیں ہوا بلکہ زیادہ شدّت کے ساتھ واپس مڑا ہے جیسا کہ نیو یارک ٹائمز اور وال سٹریٹ جرنل کے اکتوبر انقلاب پر خصوصی مضامین سے جھلکتا ہے۔ روس میں یہ کچھ مختلف ہے۔میں پچھلے چند مہینوں میں ماسکومیں تین اور سینٹ پیٹرزبرگ میں ہونے والی 1917 پر دو کانفرس شریک ہوتا رہا ہوں۔ اور یہ بالکل واضح ہے کہ پیشہ ورانہ سطح پر اس پرنہ صرف انتہائی سنجیدگی سے کام ہو رہا ہے بلکہ پیشہ ور مورخین میں سے کوئی بھی ان اساطیر کا قیدی نہیں ہے۔لیکن پُوتن حکومت جیسا کہ آج کل ہم دیکھ رہے ہیں، استحکام کی خواہش میں قوم پرستی اور کٹر مذہبی تقلید پسندی ،روایتی روسی اقدار کو مبینہ اور غیر مبینہ طور پر استعمال کرتے ہوئے اکتوبر انقلاب اور اس کی تاریخ کو نظر انداز کر رہی ہے۔وہ سوچتے سمجھتے ہوئے انقلاب نہیں چاہتے بلکہ یہ ایک اور آمرانہ حکومت ہے۔یہ باتیںپُوتن کے مفاد میں نہیں ہیں اس لئے وہ نئی اساطیر کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔لیکن میں اس بات پر زور دے کر کہتا ہوں کہ انقلاب کے سو سال بعد سنجیدہ روسی مورخین میں انتہائی سیاست زدہ موضوع اب غیر سیاسی ہونے کے بعد، سنجیدگی سے زیر مطالعہ ہے۔
میں نے محسوس کیا ہے کہ پُوتن حکومت نے نہ صرف انقلاب کی سالگرہ کو نظرانداز کیا ہے بلکہ اسے ’’قومی یک جہتی دن‘‘کے دن سے تبدیل کرنے کی کوشش کی ہے۔جو کہ زار شہنشاہوں کی ایجاد ہے جو انہوں نے پولینڈ کی شورش کے خلاف سترہویں صدی میں استعمال کی تھی۔
ہاں کسی بھی طرح سے یہ وہ دن نہیں ہے لیکن تم ٹھیک کہہ رہے ہو۔کمیونسٹ پارٹی نے پچھلے دنوں کچھ چیزوں کو منظم کرنے کی سعی کی تھی مگر یہ بہت کمزور تھی اورجو بھی تم نے کہا ہے وہ درست ہے۔
آخر میں کیا آپ چند لفظوں میں یہ بتانا پسند کریں گے کہ آج ہمیں روسی انقلاب کو یاد رکھنا کیوں ضروری ہے؟ 1917 میں جو ہوا اس میں ہمارے لئے کیا سبق ہے؟
مختلف لوگ 1917 کیاسباق کو مختلف نظر سے دیکھتے ہیں۔بہت سے مارکسسٹ کے نزدیک دنیا کے سب سے بڑے ملک میں بیسویں صدی کا سب سے اہم واقعہ تھاجو انقلاب کو سمجھنے اور انقلاب لانے کے لئے بہترین’’ کیس سٹڈی‘‘ ہے۔میں ایک دن قبل ہی برسلز کی ایک بڑی کانفرنس سے لوٹا ہوں۔میں اسی ورکرز ھال میں چار دن ثابت قدم اور بچے کھچے کمیونسٹوں کے درمیان رہا جہاں لینن نے 1914 میں تقریر کی تھی۔انہوں نے مجھے بہت غور سے سنا اور میں جانتا ہوں کہ ان کے ذہن میں کیا ہے۔تم جانتے ہو جو کچھ ہم سیکھ سکتے ہیں وہ میرے لئے بہت اہم ہے۔میرے لئے یہ بہت مختلف ہے۔روسی انقلاب ایک اہم اور خوفناک مثال ہے کہ آج سیاسی ،سماجی اور معاشی مسائل کا حل کیوں ناگزیر ہے؟اس سے پہلے کہ لوگوں کی اکثریت اس نقطے پر پہنچ جائے کہ انقلاب ہی ان کے مسائل کا واحد حل ہے۔لیکن اس کے ساتھ مجھے مزید اضافہ کرنا چاہئیے کہ انقلا ب کی ہر کسی کو صحیح اور سمجھداری سے مطالعہ کی اشد ضرورت ہے۔اگر آپ اس کا انقلاب کی بجائے محض بغاوت کی نظر سے مطالعہ کریں گے تو اس سے حاصل شدہ سبق یکسرمختلف ہوگا۔جن دو نقطہ نظر کی میں نے وضاحت کی ہے وہ ان لوگوں سے متعلق ہیں جس میں ایک فریق انقلاب کو مثبت اور دوسرا منفی نقظہ نظر سے دیکھتا ہے۔
میرا خیال ہے کہ آخری سوال پر میں آپ سے تھوڑا اختلاف کروں گا کیونکہ میری نظر میں انقلابات ناگزیر ہیں۔لیکن اس پر ہم پھر کبھی بات کریں گے۔
میں جلدی سے مزید یہ کہوں گا کہ مجھے تمہاری رائے کا احترام ہے۔میرا کام صرف حالات کی ہر ممکن درست ترین تصویر پیش کرنا ہے۔میرا خیال ہے کہ مجھے لیفٹ اور سنٹر سے حمایت حاصل ہے کیونکہ میں نظریاتی نہیں ہوں میرے لئے کوئی وجہ نہیں ہے بس ایک ہی وجہ ہے کہ جو ہوا اس کے قریب ترین احساس کو اجاگر کر سکوں۔اور یہ فیصلہ تمہارے جیسے اور دوسرے اعتدال پسند دوستوں پر چھوڑ دوں کہ وہ اسے رد کریں یا جیسے بھی سلوک کریں۔
بہت شکریہ ڈاکتر ربینو وِچ۔میں آپ کا بے حد ممنون ہوںاور آپ کے خیالات کا احترام کرتا ہوں۔
انگریزی سے ترجمہ: خالد محمود گوجرانوالہ