شوکت کے تعاقب میں، مردان پہنچنا تھا اُن کے گھر۔پرائیویٹ سکولز کی کمائی کے چرچوں میں میری بات کون سنے گا لیکن بتا ہی دیتا ہوںکہ چار سال سے سکول چلا رہا ہوں اور جس دن سکول کی عمارت کی پہلی اینٹ رکھی تھی اسسے ٹھیک ایک مہینے بعد سے ‘بے کار’ ہوں۔ کار بیچ دی تھی کہ سکول کی تعمیر ہو۔تھوڑے عرصے بعد میری شریک حیات نے اپنے زیور نکال کر دے دئے کہ لو کرلو شوق پورا۔کام تھوڑا آگے بڑھا تو مجھ سے عمر میں کئی سال چھوٹی میری بھابی جو میری ماموں زادبہن بھی ہے، نے بھی اپنے زیور میرے حوالے کئے۔
زیورخواتین کی ویسے بھی کمزوری ہے لیکن شادی کے زیور سے کسی بھی خاتون کو ایک خاص قسم کی جزباتی وابستگی ہوتی ہے، اس سے جڑی یادیں زیور کی مادی قیمت سے کہیں زیادہ بیش قیمت ہوتی ہیں۔ اپنے تمام وسائل جھونک کر بھی سکول کی تعمیر مکمل نہ ہوسکی تو ایک دوست مدد کو آیا۔ خیر یہ لمبی کہانی ہے۔ سکول کھل گیا اور چل پڑا، تین سال تک پچاس سے اسی فیصد اخراجات جیب سے برداشت کئے۔ آج الحمدللّٰہ چار سال بعد سکول اپنے نوےفیصد اخراجات برداشت کررہا ہے اور دوسرے بچوں کے ساتھ ساتھ دو درجن سے زائد بچےمکمل طور پر مفت تعلیم حاصل کررہے ہیں۔
بتا یہ رہا تھا کہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد دو سال کےاندر اندر چھوٹی سی گاڑی خرید لی تھی جسے دو سال بعد بیچ کر جاپان سے درآمد شدہ گاڑی خرید لی۔ امریکہ گیا تو ٹھان لی کہ واپس جاکر اپنے بچپن کا خواب پورا کروںگا، سب کچھ چھوڑ کر سکول بناؤں گا۔
اللہ بھلا کرے میرے دوست سلمان کا جو کبھی کبھار گاڑی لےکر پہنچ جاتا ہے اور ادھر ادھر کسی دوست کے گھر پہنچ کر انہیں بتا دیتے ہیں کہابھی زندہ ہیں اور زندہ دل بھی۔ آج شوکت کے گھر پہنچے تو دن خوشگوار گزرا۔امریکہ پلٹ میرے دوست شوکت کا انکسار خاصے کی چیز ہے۔ ان کا ایک بچہ امریکہ میں ہی قرآن حفظ کر چکا تھا۔ شوکت امریکہ میں کوئی اٹھارہ سال گزار کر وہی آنکھ کھولنےوالے بچوں کو لیکر پاکستان واپس آیا ہے۔ پچھلے چھ سال سے چھ مہینے امریکہمیں کمائی کرتا ہے اور بقایا چھ مہینے پاکستان آکر اسے ہضم کرتا ہے۔
اپنے ہم وطنوں کے دھوکوں سے ہاضمہ خراب ہوتارہتا ہے اُس کا، لیکن خوش و خرم رہتا ہے۔ ایک دفعہ تو پورا نظام انہضام ہی جواب دےبیٹھا تھا کہ لگنے والا ٹیکہ لاکھوں کا تھا لیکن جلد ہی سنبھل گیا۔ اب تھوڑی عقل آگئی ہے کہ پاکستان میں رہنے کے لئے عقل بہت ضروری ہے، امریکہ میں بے وقوفی سے بھی کام چل جاتا ہے۔ ویسے اصل داد ہماری بھابی، بھتیجوں اور بھتیجی کی بنتی ہے کہ پچھلے چھ سال سے اِدھر ہی ہیں اور کبھی امریکہ کو یاد کرکے شور نہیں مچایا
دن اچھا گزرا، ہمارے نصیب اچھی کہ شوکت خوش خوراک ہیں، جی بھر کر کھانا کھایا۔ گاجر کا حلوہ تو کمال کا تھا۔ سلمان سید زادےہیں، کرکٹ کا شوق اب وہ نہیں بھی رہا تو بھی مثالی ہے۔ کاکاخیل سید کو شاعری کاجنوُن ہے۔ نہ صرف سید ہیں بلکہ عزت سادات کا پاس بھی رکھتے ہیں۔ جاتے ہوئےراستے میں مصطفی زیدی کی شاعری سنتے رہے اور ساتھ تبصرے جاری۔ واپسی پر جون ایلیاسے ہوتے ہوئے محسن چنگیزی اور دانیال طریر کا تزکرہ چھڑا۔ دانیال طریر کے اس شعرنے تو جیسے مجھے مبحوس کردیا۔
بلا جواز نہیں ہے فلک سے جنگ مری.
اٹک گئی ہے ستارے میں اک پتنگ مری
واپسی پر مردان کی ترقی دیکھ کر نوشہرہ کا وزیراعلی ہم دونوں کو بہت یاد آیا کہ موصوف نے پانچ سال نوشہرہ میں ایسا کچھ نہیں کیا جسے دیکھ کر بندہ کہے کہ یہاں ابھی ابھی کسی وزیراعلی کا گُزر ہوا ہے۔ ایک چوک پر گاڑی رکی تو چھ سے دس سال کے چار پانچ بچے گاڑی کی طرف لپکے۔ حسب معمول ایک نے بلااجازت شیشے کی صفائی شروع کردی تو دوسرے مایوس لوٹ گئے۔ ہم گاڑی میں بیٹھے افسردہ ہوگئے۔
ہم دونوں، بچوں کو بھیک دینے سے گریز کرتے ہیںاور گاڑی کی صفائی وغیرہ کو بھی عموماً نظر انداز کردیتے ہیں کہ چند روپوں سے بچوںکو تھوڑا مالی فائدہ تو ہوتا ہے لیکن ان کے ساتھ ساتھ معاشرے کے مستقبل پر بھیبھیانک اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ میں سوچ میں پڑ گیا کہ ہزاروں روپے ماہانہ فیس دینےوالے بچوں کی فکر ضروری ہے لیکن پتہ نہیں سڑک پر خوار ہونے والے یہ بچے کسی سوموٹو نوٹس سے کتنی صدیوں کی مسافت پر ہیں؟ کبھی کوئی عدالت ازخود نوٹس لے کران لاوارث بچوں کا ان داتا بنے گی؟ کبھی ان کو ان کا وہ حق دلایا جائے گا جو ان کواس ملک کا آئین دیتا ہے۔ قریب قریب ستر لاکھ یہ بچے کبھی کسی عدالت کے ستر منٹ حاصل کر پائیں گے؟
کیاکبھی کوئی عدالت حاکم وقت کو بلا کر بتائے گی کہ زیادہ بات نہیں چیف صاحب! یہ سترلاکھ بچے ستر دنوں میں سکول میں ہونے چاہییں ورنہ آپ اپنے گھر ہوں گے۔ اگرایسا ہوجائے تو یقین جانئے سو دنوں کی کارکردگی کی مخالفت اور مدافعت میں زمیں آسمان ایک کر دینے والے، یہ ستر دن کبھی نہیں بھول سکیں گے۔ یہ ستر دن ہمارے سترسالوں پر بھاری پڑ جائیں گے۔ عظمت ایسے ٹوٹ ٹوٹ کر برسے گی کہ ستر ڈیم بنانے کےبعد بھی کوئی اس کا خواب نہیں دیکھ پائے گا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوشہرہ کے پی کے۔