چینی حکومت مسلمانوں کی شناخت ختم کرنے کے لیے مختلف منصوبوں پر عمل کر رہی ہے۔ اس مقصد کے لیے اس نے کافی تعداد میں مسلمانوں کو کنسٹریشن کیمپ میں مقید کر رکھا ہے۔ اس کی بازگشت پوری دنیا میں سنی جارہی ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ چینی حکومت ایک ایسے پلان پر کام کر رہی ہے، جس کے تحت اسلامی اقدار کو چینی سیاسی ترجیحات کے تحت مسلمانوں میں عام کرنا ہے۔ اس سلسلے میں مختلف صوبوں کی مسلم تنظیموں کو ببیجنگ میں منعقدہ ایک سمینار میں مدعو کیا گیا تھا۔
اس مجوزہ چینی منصوبے کی تفصیلات بیجنگ حکومت کی نگرانی میں شائع ہونے والے انگریزی اخبار گلوبل ٹائمز میں شائع ہوئی ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق آٹھ چینی صوبوں میں آباد مسلمانوں کی مذہبی تنظیموں کے نمائندوں کو دارالحکومت بیجنگ میں منعقد کیے گئے ایک سمینار میں مدعو کیا گیا۔ شرکاء پر واضح کیا گیا کہ حکومت اسلامی اقدار کو ’چینی خطوط‘ پر آگے بڑھانا چاہتی ہے۔ اس سیمینار میں مسلم تنظیموں کے نمائندوں پر یہ بھی واضح کیا گیا کہ بیجنگ حکومت مسلمانوں کے بنیادی سیاسی موقف کو اس انداز میں آگے لے جانا چاہتی ہے، جس سے کمیونسٹ پارٹی اُن کی قیادت کر سکے۔
امریکا کی اوکلاہاما یونیورسٹی کے چینی امور کے ماہر ڈیوڈ اسٹروپ کا اِس نئی پیش رفت پر کہنا ہے کہ چینی حکومت اسلامی گروپوں کے گرد گھیرا تنگ کرنا چاہتی ہے اور مختلف مقامات پر سے غیر ملکی آثار کو ہٹانے کے اقدامات کرنا چاہتی ہے۔ ڈیوڈ اسٹروپ کا مزید کہنا ہے کہ اس سے مراد عربی رسم الخط کے نشانات بھی ہیں، جو عموماً مساجد کا حصہ ہوتے ہیں۔ اسٹروپ کا خیال ہے کہ چینی حکومت مسلمانوں کے عقیدے پر بھی کنٹرول کی کوشش میں ہے اور اس سلسلے کو روکنے کے لیے بین الاقوامی دباؤ کو بڑھانا ضروری ہو گیا ہے۔
یہ چینی حکومتی پلان اُن پولیس چھاپوں کے چند روز بعد سامنے آیا ہے، جو تین غیر رجسٹرڈ مساجد پر مارے گئے تھے۔ یہ مساجد جنوب مغربی صوبے یُننان میں واقع تھیں۔ پولیس کے چھاپوں کے دوران مسلمانوں اور پولیس کے درمیان ہونے والی جھڑپوں میں درجنوں زخمی بھی ہوئے اور کم از کم چالیس افراد کو حراست میں بھی لیا گیا۔
کئی اور ناقدین کا بھی خیال ہے کہ اسلام کو چینی رنگ دینا بھی مسلمانوں پر وسیع کریک ڈاؤن کا سلسلہ ہے اور خاص طور پر اس کا نشانہ سنکیانگ کا علاقہ ہے۔ ایسا رپورٹ کیا گیا ہے کہ سنکیانگ میں دس لاکھ مسلمانوں کو مختلف کیمپوں میں نظربند کر کے رکھا گیا ہے۔ ان اقدامات نے چین کے بقیہ مختلف صوبوں میں آباد مسلمانوں میں بھی تشویش پیدا کر دی ہے اور یہ خوف لاحق ہے کہ بیجنگ حکومت چینی اقدار میں رنگا ہوا اسلام اُن پر مسلط کرنا چاہتی ہے۔
امریکا ہی کی فراسٹ برگ اسٹیٹ یونیورسٹی سے منسلک تاریخ کی پروفیسر ہے یُون ما کا خیال ہے کہ نئے چینی اقدامات اِس حکومت کی اجانب دشمنی پر مبنی ہیں اور چینی اقدار میں رنگے اسلام کی بنیاد کمیونسٹ پارٹی لادینیت پر رکھنا چاہتی ہے۔ ما کا یہ بھی کہنا ہے کہ بیجنگ حکومت عرب اثرات کو بھی خطرناک خیال کرتی ہے اور چینی مسلمانوں کی زندگیوں میں سے عرب اثرات کو مٹانے کی خواہش رکھتی ہے۔
DW/News Desk