بیرسٹر حمید باشانی
ہم سائنس کے محتاج کیوں ہیں ؟ اس لیے کہ سماج کی تمام ضروریات پوری کرنے کے لیے سائنسی علوم ناگزیر ہیں۔ اس کے بغیر کسی بھی معاشرے میں انسان کامعیار زندگی بلند کرنا تو ایک طرف زندہ رہنا مشکل ہے۔
سائنس کے بغیر سماج، حکومتیں اور ریاستیں یکسر بے بس اور ناکارہ ہیں۔ اس کے بغیر انسان ایک معمولی سی انفیکشن ، نزلے اور بخار جیسی معمولی امراض کے آگے بے بس ہے۔ مہلک ترین بیماریوں اور تباہ کن قدرتی آفات کا مقابلہ سائنس کے بغیر ناممکن ہے۔ تمام قدرتی آفات او بلاوں سے تحفظ یا ان کے ما بعد الاثرات سے بچنے کے لیے سائنسی علوم و ایجادات پر تکیہ کرنا پڑتا ہے۔ گویا انفرادی طور پر پیدائش سے لیکر لحد تک اور انسانی سماج کی ایک چھوٹی سی اکائی یعنی گھرانے سے لیکر ریاست جیسی عظیم اور پیچیدہ مشین تک ہم سب اپنی بقا کے لیے سائنس کے محتاج اور مرہون منت ہیں۔
ہماری تاریخ کے کئی عظیم المیے ہیں، جن میں کئی سال موت اور بیماری کے سال کے نام سے یاد کیے جاتے ہیں۔ موت اور بیماری کے ان سالوں میں برصغیر میں کئی بار ہزاروں لوگ ان معمولی بیماریوں کا شکار ہو کر موت کے گھاٹ اتر گئے، جن کا آج ہم چٹکی بجا نے میں علاج کرتے ہیں۔ ہیضے، ملیریے اور ٹی بی سے ہزاروں لوگ لقمہ اجل بن جاتے تھے۔ ایک معمولی مچھر کئی کئی گاوں خالی کر دیتا تھا۔
رفتہ رفتہ سائنس نے ان حقیر وائرسز، بیکٹیریا ز، مچھراور کیڑے مکوڑوں کے زہر کے تریاق دیافت کر لیے۔ اب صرف آٹھ دس مہلک بیماریاں باقی ہیں، جن کے علاج کی جستجو اور دیافت میں سائنس مصروف ہے، اور اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ آئندہ دس برسوں میں انسان کو ان موذی امراض سے بھی نجات مل جائے گی۔
گویا سائنس ہے توسانس ہے۔ سانس ہے تو ہم ہیں۔ مگر بدلے میں سائنس کے بارے میں ہمارا کیا رویہ ہے۔ پاکستان میں صرف ان پڑھ ہی نہیں آبادی کی ایک بہت بڑی اکثریت اس بات پر یقین نہیں رکھتی کہ یہ سب سانئس کا اعجاز ہے، اور سائنس انسانی زندگی کے تحفظ میں اتناکلیدی کردار رکھتی ہے۔
میرا کئی پڑھے لکھے لوگوں سے اس موضوع پر کئی بار تفصیلی مکالمہ ہوا۔ ان میں سا ئنس میں پی ایچ ڈیز ، میڈیکل ڈاکٹرز اور یونیورسٹی پروفیسرز شامل ہیں۔ ان میں سے بعض کے جوابات پرمجھے حیرت و افسوس ہوا۔ ان میں سے کچھ کا خیال ہے کہ سائنس کچھ نہیں، جو کچھ کرتا ہے، وہ خدا کرتا ہے۔ یعنی وہ خدا تعالہ کی ذات کی برتری پر اپنے ایمان و ایقان کا اظہار کرنے کے لیے سائنس کی نفی کرتے ہیں۔
دوسرے وہ لوگ ہیں جو سائنس کو ایک مغربی اور مادی تصور قرار دیکر مسترد کرتے ہیں۔ ان کا دعوی ہے کہ ہمارے ہاں جو علاج معالجے کے متبادل ذرائع ہیں، وہ سائنس اور مغربی ادویات سے زیادہ اثر رکھتے ہیں۔ ان متبادل ذرائع میں دھاگے تعویز سے لیکر جڑی بوٹیوں تک سب ذرائع شامل ہیں۔ مجھے ایک دفعہ بڑی حیرت ہوئی جب ایک پیشہ ور ڈاکٹر نے مجھے ایک معمولی مرض کے لیے دوا کے ساتھ ساتھ احتیاطاً ایک روحانی شخصیت سے تعویز لینے کی ہمدردانہ صلاح بھی دی۔
ہمارے ہاں ایک بڑے طبقے میں سائنس کے خلاف بغض موجود ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے سماج کو ترقی یافتہ دنیا کہ بر عکس ابھی تک سائنس پر وہ بھروسہ اور یقین نہیں ہے۔ سائنس پر اس عدم اعتماد کا اظہار ہمارے تعلیمی اداروں اور تعلیمی نصاب میں صاف جھلکتا ہے۔ ہماری نصاب کی کتابوں سے زندگی ، تخلیق، ارتقا اور نشو ونما کے نظریات کو نکال دینا یا اس سے متعلق بحث نہ ہوناقابل اعتراض سہی، مگر سمجھ میں آنے والی بات ہے۔
مگر اگر بائیولوجی کا ایک پروفیسر اپنے شاگردوں کو یہ مشورہ دیتا ہے کہ بائیو لوجی ضرور پڑھو ، مگر اس پر یقین مت کرو تو یہ عجیب بات ہے۔ یہی کیفیت دوسری قدرتی اور سوشل سائنسز کے بارے میں ہے۔ کیمیا، طب اور دوسرے شعبوں میں اساتذہ اس طرح کا تاثر دے کر طلبہ کو شک میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ جب آپ کسی علم، نظرئیے یا عقیدے پر دل سے یقین ہی نہیں رکھتے، اس کے بارے میں شک و شہبات کا شکار ہیں تو اس کے عملی اطلاق کتنی دلجمعی اور یکسوئی سے کر سکتے ہیں۔
یہ بات بالکل اس طرح ہے کہ اسلامیات کا پروفیسر اپنے شاگردوں کو اسلام پڑھنے کا مشورہ دے اور ساتھ میں خدا اور اس کے آخری رسول پریقین نہ کرنے کا مشورہ بھی دے۔ ہمارے ہاں جو سائنس دشمن ماحول پایا جاتا ہے، اس کی موجود گی میں ہم سائنسی علوم سے وہ فائدہ نہیں اٹھا سکتے ، جو ترقی یافتہ اور کامیاب ممالک نے اٹھایا ہے۔
آج کے دور میں ہمارے ہاں سائنس کی تعلیم میں جن چیلنجز کا سامنا ہے، وہ شائد نصف صدی پہلے نہیں تھا۔ چونکہ ہمارے ہاں اب زندگی کے کسی بھی شعبے میں آزادانہ ریسرچ، مباحث اور مکالمے کی بہت کم گجائش رہ گئی ہے۔ سائنس کے خلاف تو ایک خاص تعصب پیدا کیا گیا ہے۔ یہ تعصب و بغض اس صورت میں کم ہو سکتا ہے کہ لوگوں کو اس حقیقت سے آگاہ کیاجائے کہ سائنس ایک نا گزیر ضرورت ہے جس نے انسانی تہذیب و ترقی میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ اور سائنس کا آپ کے مذہب یا عقیدے سے کوئی تصادم نہیں۔
گویا اس وقت عقل و سائنس پر یقین رکھنے والوں کو دو محاذوں پر جہدو جہد کی ضرورت ہے۔ پہلا محاذ ہے سائنس کے خلاف مروجہ ماحول کو بدلنا۔ چونکہ یہ ماحول بدلے بغیر سائنس سماج میں وہ جگہ نہیں لے سکتی جو اس کا حق ہے۔
دوسرا محاذ آزاد سائنس کا تحفظ ہے۔ ہمارے ہاں آزاد سائنس کا کوئی تصور نہیں۔ یہ ریاستیں ہیں جو سماجی اور معاشی ترقی کے اہداف مقرر کرتی ہیں۔ اور ان اہداف کے پیش نظر سائنٹیفک ریسرچ کے لے فنڈگ کرتی ہیں۔ چونکہ یہ فنڈنگ سماجی و معاشی ضروریات کو سامنے رکھ کر کی جاتی ہے، اس لیے ان سائنسدانوں کو ریسرچ کے لیے فنڈنگ نہیں دی جاتی ، جو حکومتی منصوبوں یا ایجنڈوں کے مطابق نہیں، یا جو سرکار کے لیے کام نہیں کر رہے ہوتے۔ اس طرح سائنس میں آزادانہ تحقیق کا دروازہ بند ہو جاتا ہے، جو کھلا رہنا چاہیے۔
مگر اس سے بھی بڑھ کر سائنس کے ساتھ سماج کی سطح پر بہت ہی ناروا سلوک کیا جاتا ہے۔ سا نئس پڑھنے اورپڑھانے والے خود اس پر یقین نہیں رکھتے۔ ہمارے بڑھے بڑھے سائنسدانوں کے رویے غیر سانئسی ہیں، جن کا برملا اظہار ان کی تحریر و تقریر میں ہوتا ہے۔ سانئس کو تعصبات سے آزاد کرنا ضروری ہے، جس کے بغیر سائنس ہماری سماجی و معاشی ترقی میں وہ کردار ادا نہیں کر سکتی ، جو اس نے ترقی یافتہ دنیا میں کیا ہے۔
ہمارے ہاں اس وقت سائنسی ریسرچ اور مباحث کے لیے وہ آزادی بھی میسر نہیں جو اسلامی دنیا میں آج سے کوئی ہزار سال پہلے تھی۔ اس وقت سائنسی نظریات اور سائنسی تعلیم کے لیے جو ساز گار ماحول میسر تھا، جسے ہم اسلام کا سنہری دور کہتے ہیں، وہ کیا تھا ؟ آٹھویں سے تیرہویں صدی کے دوران آرٹ اور سائنس کو پروان چڑھانے کے لیے ساز گار ماحول فراہم کیاگیا۔
تقریبا چار سو سال تک ریاست کا رحجان جنگوں کے بجائے امن اور باہمی تجارت کی طرف رہا ہے، جس کی وجہ سے ایک روادار سماج معرض وجود میں آیا۔ اس دوران تعلیم کے میدان میں جو حیرت انگیز ترقی ہوئی، وہ ریاست کے اس رحجان کی مرہون منت تھی۔ علم کا ایک عقلی تصور اپنایا گیا جو یونانی فلاسفروں کے زیر اثر تھا۔ چنانچہ بغداد، دمشق اور قرطبہ میں ہر عقیدے ، مذہب اور مکاتب فکر کے سکالر مباحث میں آزادانہ طور پر حصہ لیتے تھے۔ یونانی علم و فلسفے کا عربی زبان میں ترجمہ ہو رہا تھا۔
علم ، ادب اورسائنسی ترقی کے اعتبار سے یہ ایک آئیڈیل دور تھا۔ مگر بد قسمتی سے سن بارہ سو اٹھاون میں بغداد پر حملے اور تباہی کے بعد اس دور کا خاتمہ ہو گیا۔ اس کے بعد قدامت پسند مکاتب فکر کو غلبہ حاصل ہوگیا، جو اب تک کسی نہ کسی شکل میں قائم ہے۔ ہمار ے سائنس دشمن ماحول کی وجہ ان ہی قدامت پرست نظریات کا غلبہ ہے۔