جب زمین سورج کے گرد اپنا طواف مکمل کرتی ہے تو نئے سال کا آغاز نئے سفر کے ساتھ ہوتا ہے جو ان ہی روز و شب کی گردشوں میں ان ہی موسموں سے گزر تا ہے تو بظاہر یہ معمول ہی نظر آتا ہے مگر حقیقت میں بہت کچھ بدل گیا ہوتا ہے جس میں سے ایک زندگی ہے جو پہلے جیسی نہیں رہتی۔ ماہ و سال کی اسی گردش میں بچے جوان ہوتے ہیں، جوان بوڑھے ہوجاتے ہیں اور بوڑھے بزرگ راہی عدم سدہار جاتے ہیں۔
دنیا بھر میں نیا سال کا آغاز نئے ارادوں اور خوشی کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ہندوستان میں بسنت، وسطی ایشیا میں نوروز اور مغربی ممالک میں نیو ائیر کی خوشیاں منانے کی رسومات ہماری قدیم ثقافت کا حصہ ہیں۔ ہمارے آباؤ اجداد کے زمانوں میں زندگی ایسی آسان نہ تھی جو آج ہماری ہے۔بیماری، بھوک، موسمی حالات اور حادثات پر ایسے قابو نہیں پایا گیا تھا جو آج کے زمانے میں ہے۔
دنیا بھر میں نیا سال کا آغاز نئے ارادوں اور خوشی کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ہندوستان میں بسنت، وسطی ایشیا میں نوروز اور مغربی ممالک میں نیو ائیر کی خوشیاں منانے کی رسومات ہماری قدیم ثقافت کا حصہ ہیں۔ ہمارے آباؤ اجداد کے زمانوں میں زندگی ایسی آسان نہ تھی جو آج ہماری ہے۔بیماری، بھوک، موسمی حالات اور حادثات پر ایسے قابو نہیں پایا گیا تھا جو آج کے زمانے میں ہے۔
قحط، وبائی امراض اور حادثات سے بچ کر ایک سال گزار کر نئے سال میں داخل ہونا مقام مسرت اور شکر انے کا وقت ہوتا تھا۔آج بھی جہاں ایک سال بخیر و عافیت گزارنے کی خوشی ہوتی ہے وہاں آنے والے سال کا آغاز بھی امن، خیر اور برکت کی نیک خواہشات اور تمناؤں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ یوں تو زندگی کا ہر دن اور ہر لمحہ نیا ہوتا ہے مگر ایک تاریخ مقرر کرکے سال کا آغاز کرنا صرف ایک رسم ہی نہیں بلکہ اجتماعی و انفرادی خود احتسابی اور تجدید عہد کا وقت بھی ہوتا ہے۔
گزشتہ سال کے دوران اپنی کار گزاری پر نظر ثانی کرکے نئے سال کے لیے اپنی کوتاہیوں اور کمزوری پر قابو پانے کے عہد کی تجدید ایک نئے ارادوں اور امنگوں کو تحریک دیتی ہے جو زندگی میں توانائی پیدا کرتی ہے۔دنیا بھر میں لوگ جہاں گزشتہ سال بخیر و عافیت گزارنے پر شکر ادا کرتے ہیں وہاں نئے سال کے لیے نئی امنگوں اور ارادوں کا اعادہ ہیپی نیو ایئر کے ساتھ کرتے ہیں۔
آج کی دنیا میں کیلنڈر یا تقویم کو ایک کلیدی اہمیت حاصل ہے۔مالیاتی سال، پیداواری سال اور پارلیمانی سال جیسی اصطلاحات صرف الفاظ نہیں بلکہ سنگ میل ہیں جہاں وقفہ لے کر گزشتہ کے سفر پر نظر دوڑا کر آئندہ کی پیش بندی کی جاتی ہے۔مالیاتی خسارے اور نفع کا حساب کرکے اگلے سال کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے اور پیداواری صلاحیت کا تخمینہ لگا کر تیاری کی جاتی ہے۔ اگر ماہ و سال کا حساب نہ ہو تو پھر کسی کو پتہ نہیں چلے گا کہ کسی ملک کی مجموعی قومی پیداوار کتنی رہی ہے اور فی کس آمدنی کیا ہے۔یہ بھی شاید معلوم نہ ہو کہ زندگی کا سفر خوشحالی اور آسودگی کی جانب رواں ہے یا بدحالی اور پرمژدگی کی طرف گامزن۔
خود احتسابی کا عمل انفرادی، اجتماعی اور قومی سطح پر ہوتا ہے۔جہاں ایک فرد اپنی زندگی میں کارکردگی کا جائزہ لیتا ہے اور اپنے مستقبل کا لائحہ عمل ترتیب دیتا ہے وہاں بہت سارے لوگ بطور ادارہ، گروہ یا قوم بھی اجتماعی طور پر ایسا کرتے ہیں۔ سائنسی بنیادوں پر اعداد و شمار اور رجحانات کے تجزیے کی روشنی میں ذمہ داری اور وجوہات معلوم کرکے اہداف اور رخ کی نشاندہی کرنے کو احتساب کہتے ہیں۔
یہ ضروری نہیں کہ خود احتسابی کے عمل میں ہمیشہ منفی پہلو اور ناکامی کی ہی نشاندہی ہو اور یہ بھی ضروری نہیں کہ تمام تر ناکامیوں کو جواز فراہم کرنے کی کوشش میں خوش فہمی کا شکار رہا جائے۔خود احتسابی غیر جانبدارانہ اور بے رحمانہ طور پر کی جائے اور نتائج کو سامنے رکھ کر وجوہات دور کرنے کی شعوری کوشش کی جائے تو مستقبل میں آسانیاں پیدا ہوتی ہیں۔ سال نو کے موقعے پر ہر سطح پر خود احتسابی کا عمل اب ایک عالمی ثقافت کاحصہ ہے۔
کرہ ارض مسابقت اور مقابلہ کا میدان ہے یہاں صرف وہی اپنا وجود برقرار رکھ پایا جس میں مقابلہ کرنے کی سکت اور صلاحیت ہو۔ انسان نہ صرف تمام دیگر جانداروں میں فاتح و برتر ہوا ہے بلکہ آپس کی جنگ میں ایک دوسرے پر بازی لے جانے میں ہمہ وقت کوشاں رہا ہے۔ ایک دوسرے کے خلاف لڑی جانے والی انفرادی، گروہی اور قبائلی لڑائیاں پھیلتے پھیلتے عالمی جنگیں بن گئیں اور پتھروں اور ڈنڈوں سے لڑی جانے والی لڑائی کلہاڑی، چاقو، چھری، تلوار اور بارود سے ہوتی ہوئی ایٹمی تباہ کاریوں تک پہنچ گئی۔کئی چھوٹی بڑی لڑائیوں اور دو عالمی جنگوں میں کروڑوں لوگوں کی جانیں گنوانے کے بعد بھی امن عالم کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو پایا۔
روئے زمین پر انسان نے بھوک، بیماری اور قدرتی آفات پر سائنس اور ٹیکنالوجی کے زریعے قابو پانے کی کوشش کی وہاں انسانی آفات مثلاً جنگ، تشدد اور نفاق پر برداشت اور منطق و دلیل سے فتح حاصل کی ہے۔ آج حکومت لینے کے لیے فوج نہیں لڑتی اور نہ تلوار اور بندوق فیصلہ کرتی ہے۔ووٹ کی ایک پرچی پر لوگوں کا اقتدار دینے اور چھیننے کے فیصلے کو ہم جمہوریت کہتے ہیں۔یہ اسی جمہوریت کا ہی دین ہے کہ انسان نے میدان کار زار کی کشت و خون کی جنگ کو مباحثے میں بدل دیا۔ آج وہی قوم سب سے زیادہ مہذب کہلاتی ہے جہاں مکالمہ کا رواج ہے اور بحث و مباحثہ کی ثقافت ہے۔مکالمے میں آواز اونچی ہوسکتی ہے، الفاظ سخت اور تلخ ہوسکتے ہیں مگر فیصلہ اکثریت کی حمایت کی بنیاد پر ہوتا ہے۔
انسان نے خاندان، قبیلے اور برادری کی بقا کے لیے ہمیشہ دوسروں سے جنگ کی۔وقت کے ساتھ انسان نے یہ بھی سیکھ لیا کہ ایک معاشرے اور ملک میں ایک سے زیادہ رنگ، نسل، مذاہب اور قومیتوں کے لوگ رہ سکتے ہیں۔ پُر امن بقائے باہم، انفرادی اور اجتماعی خوشی کے لئے ایک دوسرے کو برداشت کرنا ہی آج کے دور کا معیار ہے۔ آج دنیا میں وہی ممالک رہائش کے لیے سب سے زیادہ قابل ترجیح سمجھے جاتے ہیں جہاں زیادہ تنوع پایا جاتا ہے جو صرف برداشت اور تحمل سے ہی ممکن ہے۔
انفرادی اور اجتماعی خوشی کے حصول کے لیے اگر ہم صرف جمہوریت، مکالمہ اور برداشت کے تناظر میں خود ہی نظر دوڑائیں تو نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہم سال بہ سال تنزلی کی جانب گامزن ہیں۔ ملک میں جمہوریت کو آج بھی وہی خطرات لاحق ہیں جو 1958ء میں تھے، مکالمے کی روایت دھونس، دھمکیوں اور زبان بندی سے بدل گئی ہے اور مخالف نظریات کے اظہار پر لوگوں کی جان و مال کو آج جتنا خطرہ ہے وہ پہلے کبھی نہ تھا۔ اقلیتیں ملک چھوڑ کر جانے پر مجبور ہیں، اختلاف رائے پر جبری گمشدگیاں، اظہار رائے پر قدغنیں ہمیں آج دنیا کے مہذب ممالک کی صف میں کھڑا نہیں کرتیں۔اس کے باوجود ’ہیپی نیو ایئر‘ کہنا خود فریبی کے سوا کیا ہے۔