سلمان حیدر
آج ایک فلم دیکھ کر مجھے اپنے قید خانے میں گزرے ہوئے دن یاد آ گئے۔ وہ اکیس دن کئی حوالوں سے منفرد تھے۔ بے بسی اور تنہائی امید اور ناامیدی اپنی جگہ اس میں سیکھنے کو بہت کچھ تھا۔ اس بہت کچھ میں اپنے رویے کو سمجھنے کی کوشش ایک چیز تھی جس کا ایک بڑا مقصد میرے نزدیک یہ تھا کہ میں اپنے قید کرنے والوں سے رحم کی بھیک نا مانگوں۔ تشدد کے دوران میں اس میں ناکام ہو جایا کرتا تھا لیکن تشدد کے سیشنز کے علاوہ میں کافی حد تک اس میں کامیاب رہا۔
بات کرتے ہوئے لہجے میں لجاجت آ جایا کرتی تھی کہ بہت معمولی معمولی چیزیں بھی مانگ کر لینی ہوتی تھیں اور کوئی طے تشدد قوانین نہیں تھے۔ ایک بات جو ایک دن درست ہوتی تھی وہ اگلے دن جرم ہوتی تھی اور اس پر گالیاں اور دھمکیاں ملتی تھیں۔ شاید وہ ہماری عزت نفس کچلنے کے لیے جانتے بوجھتے یہ انتظام رکھتے تھے۔ لیکن اس سب کے باوجود میرے نگرانوں کا رویہ بہت دلچسپ اور غور کرنے کے قابل تھا۔ ان کے ذمے ہمیں زندہ رکھنا بھی تھا اور اس خوف میں مبتلا رکھنا بھی کہ ہمیں کسی بھی وقت مار دیا جائے گا۔ وہ ہمارا خیال رکھنے پر بھی مجبور تھے اور ہمیں اذیت میں رکھنا بھی ان کی ذمہ داری تھی۔
انہیں ہم سے بات چیت کرنے کی اجازت بھی نہیں تھی اور وہ یہ بھی جانتے تھے کہ ہم اگر کوئی بات کر سکتے ہیں تو انہی سے کر سکتے ہیں۔ انہیں ہم پر رحم بھی آتا تھا اور ہم پر رعب طاری رکھنا بھی ان کی ذمہ داری تھی۔ وہ ہم پر حاکم بھی تھے اور ہمارے ساتھی بھی۔ ان تضادات نے ہمارے اور ان کے دونوں کے لیے عجیب سی صورتحال پیدا کر رکھی تھی۔ کمروں اور راہداریوں میں لگے کیمروں کے ذریعے ہماری ہی نہیں ان کی اور ہماری انٹرایکشن کی نگرانی بھی کی جا رہی تھی۔ انہیں ہمیں اپنا نام بتانے کی اجازت نہیں تھی نہ وہ ہمیں وقت یا تاریخ بتا سکتے تھے۔ ہم سے بلا ضرورت بات چیت کرنا بھی ان کو منع تھا لیکن ان کے دل میں تجسس بھی تھا کہ ہم کون ہیں اور ہم نے کیا کیا ہے جو ہم یہاں موجود ہیں۔
اس کشمکش میں ان کا رویہ کبھی بہت تلخ ہوتا تھا اور کبھی بہت دوستانہ کبھی وہ بنا کسی وجہ کے بھڑک اٹھتے تھے اور کبھی وہ ہمارے لیے نافذ کسی قانون کو بھی نظر انداز کر دیتے تھے۔
پہلے پانچ دن کیونکہ ہتھکڑیوں میں منہ پر کپڑا چڑھے اور آنکھوں پر پٹی بندھے گزرے اس لیے اس وقت کے نگرانوں سے تعلق بہت سطحی سا تھا۔ رات گئے ٹائلٹ استعمال کرنے کے لیے کھنکار کر انہیں متوجہ کیا جائے تو ایک آدمی بہت بکتا جھکتا آتا تھا لیکن گالیاں بکتا دھکے دیتا فوری لے جاتا تھا۔ باقی شاید خاموش طبع تھے یا سنی ان سنی کر دیتے تھے اور کئی بار کھنکارنے پر آتے تھے۔ مجھے الرجی کی وجہ سے سرد موسم کے باوجود زیادہ پانی پینا اور بار بار ٹائلٹ جانا پڑتا تھا سو مجھے گالیاں بھی زیادہ سننی پڑتی تھیں اور لہجے میں لجاجت بھی رکھنی پڑتی تھی۔
پانچ دن کے بعد جہاں ہمیں رکھا گیا وہاں کمرے کے اندر آنکھیں بھی کھلی تھیں اور ہاتھوں میں ہتھکڑی بھی نہیں تھی۔ سو کھانا پانی دینے باتھ روم لیجانے تفتیش یا تشدد کے لیے لیجانے آنے والوں کو دیکھنا ممکن تھا۔ کمرے سے باہر نکالنے سے پہلے ہتھکڑی لگا کر آنکھوں پر پٹی باندھ دی جاتی تھی اور چہرے پر کپڑے کا سیاہ ٹھیلا چڑھا دیا جاتا تھا۔ کھانا لانے اور کمرے سے لانے لیجانے والے ملا جلا کر آٹھ دس آدمی تھے جو شفٹوں میں کام کرتے تھے۔ سب کا اپنا اپنا مزاج تھا اور ڈیل کرنے کا اپنا اپنا طریقہ۔ ان سب کا انچارج ایک بھاری جثے کا مالک آدمی تھا جسے کمانڈر کہہ کر پکارا جاتا تھا۔
کمانڈر مزاج کے حساب سے سب سے سخت گیر اور بد تمیز آدمی تھا۔ اس قید خانے میں ہم چار لوگ آمنے سامنے کے کمروں میں قید تھے۔ میرے بالکل سامنے والے کمرے میں وقاص گورایہ تھا۔ اس کے ساتھ والے کمرے میں عاصم سعید تھا اور میرے بازو والے کمرے میں ایک لڑکا تھا جو بالکل نہیں بولتا تھا۔ عاصم اور گورایہ کی آواز پھر بھی سنائی دے جاتی تھی۔
مجھے یاد ہے کہ ایک رات شاید عاصم نے چائے مانگی تھی شاید اسے کوئی دوا کھانی تھی اور ان میں سے کوئی بنانے پر آمادہ بھی ہو گیا تھا لیکن کمانڈر نے اس بنانے والے کو بہت گالیاں دیں تھیں اور کہا تھا انہیں بتاو یہ اپنی سسرال نہیں آئے ہوئے جو انہیں چائے ملے گی جب دل چاہے گا۔
اس کمانڈر سے میرا ایک عجب طرح کا تعلق ایک عجیب وجہ سے بن گیا تھا۔ ایک دن کھانے میں گوشت تھا تو میں کھانا لانے والے سے کہا کہ میں نے بتا رکھا ہے کہ میں گوشت نہیں کھا سکتا اس لیے تم سالن واپس لے جاو اور روٹی اور پانی کا گلاس مجھے دے جاو میں پانی سے روٹی کھا لوں گا۔
اس نے یہی کیا اور شاید جا کر یہ بات کہ میں نے سالن واپس کر دیا ہے کمانڈر کو بتا دی۔ کمانڈر بکتا جھکتا آیا اور اس نے بڑے زور سے دروازہ کھولا۔ میں اپنے کمبل پر بیٹھا روٹی پانی کے گلاس میں ڈبو کر کھا رہا تھا۔ اس نے یہ دیکھا تو ایک دم خاموش ہو گیا اور دروازہ بند کر کے واپس چلا گیا۔ تھوڑی دیر میں وہ ایک پلیٹ میں کوئی سبزی لیے آیا دروازہ کھولا اور بڑے نرم لہجے میں مجھے کہا میں بھی بڑا گوشت نہیں کھا سکتا۔ اپنے لیے کل سبزی پکائی تھی تم بھی کھا لو۔ میں نے کہا شکریہ اور پلیٹ لے لی۔ جانے سے پہلے کہنے لگا روٹی اور بھیجوں میں نے کہا نہیں کافی ہے۔
پھر پوچھا کیوں نہیں کھاتے گوشت میں نے کہا الرجی ہے۔ تھوڑی دیر چپ رہ پھر اللہ شفا دے گا کہہ کر پلٹ گیا۔ اس وقت کے بعد اس کا رویہ میرے ساتھ کافی بہتر ہو گیا۔ گالیاں دینی بند کر دیں آتے جاتے کمرہ کھول کر دیکھنے اور سر کے اشارے سے حال پوچھنے لگا۔ باقی آٹھ دس کے رویے میں بھی وقت کے ساتھ کافی تبدیلی آئی۔
انہیں ہماری عادت ہو گئی تھی وہ ہم سے مانوس ہو گئے تھے ہمارے بارے ان کا شک دور ہو گیا تھا یا کچھ بھی وجہ ہو ایک نگران تو چھٹی پر جانے لگا تو بتا کر گیا کہ میں دو دن کی چھٹی پر گھر جا رہا ہوں بچوں سے ملنے۔ اس نے یہ بھی پوچھا کہ تمہارے کتنے بچے ہیں اور ان کی عمر کیا ہے۔ یہ شاید ان میں سے کسی سے میرا طویل ترین مکالمہ تھا۔۔۔
One Comment