بے نظیر بھٹو کو کرپشن کیس میں مجرم قرار دے دیا گیا۔ یہ سرخی میں نے اکیس اپریل سال 1999 میں لندن کے ایک بک سٹال پر برطانوی اخبار گارجین میں دیکھی تھی۔ یہ اسلام آباد سے اخبار کے نامہ نگار رچرڈ گالپن کی رپورٹ تھی۔ تفصیلات میں لکھا تھا کہ پاکستان کی سابق وزیر اعظم کو ان کی عدم موجودگی میں سزا دی گئی ہے۔ پانچ سال قید اور آٹھ ملین ڈالر کے جرمانے کے علاوہ ان کو نا اہل قرار دیا گیا ہے۔
راولپنڈی ہائی کورٹ نے یہی سزا ان کے شوہر آصف زرداری کو بھی سنائی ہے، جو سال1996 سے کراچی جیل میں قید ہیں۔ ان پر اپنے برادر نسبتی مرتضی بھٹو کے قتل سمیت کئی دوسرے الزامات ہیں۔ بھٹو کے دو بار وزیر اعظم رہنے کے دوران ان پر کرپشن کے الزمات پر کئی مقدمات میں یہ پہلا فیصلہ ہے۔ بھٹو کی دوسری حکومت صدر فاروق لغاری نے سال 1996میں کرپشن اور نااہلی کے الزامات لگا ختم کر دی تھی۔ اس سے پہلے 1990 میں ان کی پہلی حکومت کے ساتھ بھی ایسے ہی ہوا تھا۔ بے نظیر بھٹو اور ان کے خاوند کے خلاف ایک سو ملین ڈالر کی چوری کے الزامات ہیں، جن سے وہ انکار کرتے ہیں۔ اگرچہ میں نے حیرت و صدمے سے نیوز سٹینڈ پر ہی کھڑے کھڑے یہ خبر پوری پڑھ لی تھی، مگر پھر بھی میں نے یہ اخبار خرید لیا تھا، اور یہ خبرکئی بار پڑھی تھی۔ گزشتہ ہفتے آصف علی زرداری کے خلاف جے آئی ٹی کی رپورٹ دیکھ کر مجھے گارجین کی وہ سرخی یاد آئی۔
بینظیر کو جس وقت سزا ہوئی تھی ، اس وقت ہماری طرح کے کئی نوجوان جن کا پیپلز پارٹی سے کوئی تعلق نہ تھا ، مگر وہ بے نظیر بھٹو کو ایک مثالی شخصیت سمجھتے تھے۔ کسی کو ان سے اس طرح کے کسی کام کی توقع نہیں تھی۔ کسی کو بھی یقین نہیں آتا تھا کہ آکسفورڈ کی پڑھی ہوئی بے نظیر بھٹو، جو سوشل ڈیماکریسی اور سوشل جسٹس کی بات کرتی ہے۔ جس نے ضیا الحق کا ظلم اور نا انصافی دیکھی ہے۔ اورجس نے انتہائی نا مساعد حالات میں شجاعت اور دلیری سے جمہوریت کی لڑائی لڑی ہے، جو شفاف نظام کی داعی ہے، اسے کرپشن کے اتنے گھٹیا الزمات پر سزا ہو سکتی ہے۔
اس سزا کے جواب میں بینظیر بھٹو نے اس سارے عمل کو کینگرو ٹرائل اورکینگرو کورٹس قرار دیا ۔ ان کا یہ موقف رفتہ رفتہ ایک بیانیہ بن گیا۔ یہ بیانیہ لوگوں نے مان لیا تھا۔ ہزاروں لوگ جو سڑکوں پر ، یا خدا یا رسول، بے نظیر بے قصور، کے نعرے لگاتے تھے، یہ آواز ان کے دلوں سے نکلتی تھی۔
سزا کی وجہ سے بینظیر کی بے داغ شخصیت اور نیک نامی پر تھوڑ بہت منفی ا اثر ضرور پڑا، لیکن میرا خیال ہے کہ اس وجہ سے ان کی عوامی مقبولیت میں کوئی خاطر کواہ کمی نہیں ہوئی۔ اجتماعی دانش غلطی نہیں کرتی۔ آنے والے برسوں میںبے نظیر کی شخصیت ایک نئے روپ اور نئے انداز میں سامنے آئی۔ ایسا لگتا تھا کہ انہوں نے جلاوطنی کے دوران معاملات پر ٹھنڈے دل سے غور کیا۔ اپنی کوتاہیوں سے سبق سیکھ لیا ہے، اور اگر دوبارہ کبھی موقع ملا تو وہ ان غلطیوں سے دامن بچا کر چلیں گی۔ یہ موقع شائد ان کو نصیب ہو بھی جاتا، اور وہ ماضی کے داغ دھو بھی دیتی، مگر اس کی نوبت نہ آسکی۔ وہ ایک درندہ صفت شخص کی بے رحمی اور درندگی کا شکار ہو کر شہید ہو گئیں۔ اس نابغہ روزگار خاتون کی شہادت سے ان پر لگے سارے داغ دھل گئے۔ مگر پاکستان کے لوگ ایک تاریخی شخصیت اور عظیم لیڈر سے محروم ہو گئے۔
بے نظیر نے ذاتی طور پر کرپشن کی ہو یا نہ ، مگر اس حقیقت سے انکارممکن نہیں کہ جو لوگ ان کے ارد گرد موجود تھے ، انہوں نے اس بہتی گنگا میں ہاتھ ضرور دھوئے تھے۔ بے نظیر جس ابتلا سے گزری یا ان کے دامن پر جو بھی داغ لگے اس کا ذمہ دار کئی لوگ آصف زرداری کو ٹھہراتے رہے۔ ان کا خیال تھا کہ زرداری نے بے نظیر بھٹو کو بلاخر اس بات پر قائل کر لیا تھا کہ پاکستان میں سیاست میں ان کا مقابلہ میاں نواز شریف سے ہے، اور اگر انہوں نے اس مقابلے میں رہنا ہے یایہ مقابلہ جیتنا ہے، تو میاں صاحب سے زیادہ دولت بنانی ہوگی۔
آکسفورڈ کی مثالیت پسند نوجوان لڑکی سے پاکستان کی وزیر اعظم بننے تک بے نظیر بھٹو کی شخصیت میں کئی تبدیلیاں رونما ہوئیں ۔ ان تبدیلیوںکی بہترین عکاسی ان کی ایک دوست کرسٹینا لیمب کئی بار کر چکی ہیں۔ بے نظیر کے پہلے دور اقتدار کے خاتمے کے اسباب میں کرسٹینا لیمب نے اپنی کتاب ’’ویٹنگ فار اللہ‘‘ میں ان قوتوں کا ذکر کیا ہے، جنہوں نے مل جل کر ان کے پاوں کے نیچے سے قالین کھینچا تھا۔ کرسٹینانے ان نئے رویوں کی نشاندھی بھی کی، جو بے نظیر کی بدلتی ہوئی شخصیت کے عکاس تھے۔ اور وہ روئیے بھی جو ان میں اقتدار میں رہتے ہوئے کچھ تلخ حقیقتوں کا سامنا کرنے کی وجہ سے پیدا ہوئے تھے۔ وہ تلخ حقیقتیںجن کو عام طور پر زمینی حقائق کہا جاتاہے۔ کرسٹینا نے ان نئے رویوں کے پیش نظر ہی کہا تھا کہ اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھی ہوئی بے نظیر آکسفورڈ والی بے نظیر نہیں ہے۔
ویٹنگ فار اللہ میں کرسٹینا لیمب نے لکھا ہے کہ بے نظیر نے اتنے وزیر اور مشیر بنا رکھے تھے کہ خود ان کے لیے ان کو یاد رکھنا مشکل تھا۔ ایک یاد گار موقع پر ہونے والی دعوت میں بینظیر بھٹو نے ایک مہمان فادر جولیس سے پو چھا کہ وہ کیا کرتے ہیں۔ فا در جولیس نے کہا میں آپ کا وزیر برائے اقلیتی امور ہوں۔
کرسٹینا نے بینظیر بھٹو کی دوست ہونے کے باوجود ممکن ہے اس باب میں کچھ مبالغے سے کام لیا ہو لیکن زندگی کی تلخ حقیقت یہ ہے کہ جو بات آکسفورڈ یا ہاورڈ یا یل میں بیٹھ کر کی جاسکتی ہے، اور کی جاتی رہی ہے، اس پر اگر ایک فیصد بھی عمل ہو سکتا تو یہ دنیا جس میں ہم رہتے ہیں آ ج ایک بالکل مختلف جگہ ہوتی۔ دنیا کہ بے شمار رہنماان سکولوں سے ہو گزرے۔ ان سکولوں میں ان کی تقاریر اور تحریریں محفوظ ہیں۔ ذولفقار علی بھٹو بھی اس کی ایک بڑی مثال تھے۔
مگر جو بات بینظیر نے خود کئی محفلوں میں کہی وہ یہ تھی کہ پاکستان کی ریاست اور حکومت میں کئی سٹیک ہولڈر زہیں، جن کو ان کا حصہ دئیے بغیر حکومت نہیں کی جا سکتی۔ جن سٹیک ہولڈر ز کا بینظیر نے بار بار ذکر کیا وہ جب اپنا حصہ لیکر اقتدار کی راہداریوں میں قدم رکھتے ہیں، تو دو کام ان کی اولیں ترجیع ہوتی ہے۔ ایک یہ کہ وہ ہر جائز اور ناجاہز طریقے سے وہ پیسے واپس لیں ، جو انہوں نے ٹکٹ کے حصول سے لیکر مہنگی الیکشن مہم پر خرچ کیے ہوتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ان کی واحد قابلیت ان کی دولت ہے۔ وہ دولت کی طاقت کا اندازہ بار بار کر چکے ہوتے ہیں۔ اس لیے اس دولت میں اضافہ ان کا ایک مقصد ہوتا ہے۔
دوسرا اپنی طاقت اور اثرو رسوخ میں اضافے کے لیے انہوں نے تقرریاں اورتبادلے کرنے ہوتے ہیں۔ اپنے خاص بندوں کو خاص خاص جگہوں پربٹھانا ہوتا ہے۔ یہ دونوں کام یعنی دولت اور طاقت میں اضافے کے لیے رشوت اور شفارس سمیت ہر ہتھیار استعمال کرتے ہیں۔بینظیر کی طرح کی کسی اقلیتی یا معمولی اکثریت والی حکومت کے لیے ان لوگوں کو ان کارگزاریوں سے روکنا ممکن نہیں ہوتا۔ وہ ایوانوں کے اندر اور باہر سازشوں کے جال پھیلانے اورحکومتیں گرانے کے ماہر ہوتے ہیں۔ اپنے تجربے اور چالاکی سے ان کارگزاریوں کے باوجود صاف بچ کر نکل جاتے ہیں۔ اور سارے چھینٹے سربراہ حکومت کے دامن پر گرتے ہیں۔
نواز شریف کی سزا اور زرداری کے خلاف جے آئی ٹی کی رپورٹ پڑھ کر مجھے گارجین کی بیس سالہ پرانی سرخی یاد آئی۔ اور اس بات کی سچائی پر یقین ہو گیا کہ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھتا ۔ اور انسان تا عمر اپنی افتاد طبع کا اسیر رہتا ہے۔