سید میثم نقوی
یہ 5 جون 1992 تھا، سندھ ٹنڈو بہاول کے گاؤں میں ایک حاضر سروس میجر ارشد جمیل نے پاک فوج کے دستے کے ساتھ چھاپا مار کر 9 کسانوں کو گاڑیوں میں بٹھایا اور جامشورو کے نزدیک دریائے سندھ کے کنارے لے جا کر گولیاں مار کر قتل کر دیا، فوج نے الزام لگایا کہ یہ افراد دہشت گرد تھے اور ان کا تعلق بھارت کے ادارے ریسرچ اینڈ اینالائسس ونگ (را) سے تھا۔
لاشیں گاؤں آئیں تو کہرام مچ گیا ہر ماں اپنے بیٹے کی لاش پر ماتم کر رہی تھی ان کے بین دل دہلا رہے تھے، ان ماؤں میں ایک 72 سال کی بوڑھی عورت مائی جندو بھی تھی، اس کے سامنے اس کے دو بیٹوں بہادر اور منٹھار کے علاوہ داماد حاجی اکرم کی لاش پڑی تھی مگر وہ خاموش تھی، عورتیں اسے بین کرنے پر اکسا رہی تھیں ، مائی جندو سکتے کے عالم میں بیٹوں اور داماد کے سفید ہوگئے چہرے دیکھے جا رہی تھی،،
ہر شخص کہہ رہا تھا کہ خاموشی سے میتیں دفنا دی جائیں قاتل بہت طاقتور تھے ان غریب ہاریوں کا ایسی طاقت والوں سے کیا مقابلہ۔
مائی جندو کو بار بار رونے کے لیے کہا گیا تو اس نے وحشت ناک نگاہوں سے میتیوں کی طرف دیکھا اور بولی بس ! مائی جندو ایک ہی بار روئے گی ,جب بیٹوں کے قاتل کو پھانسی کے پھندے میں لٹکتا دیکھے گی، سب جانتے تھے ایسا ممکن نہیں تھا مگر آخر لوگ خاموش ہوگئے، مائی جندو کی بیٹیاں کُرلا رہی تھیں مگر مائی جندو ساکت بیٹھی قتل ہونے والوں کو تکے جا رہی تھی۔
جنازے اٹھے تو مائی جندو نے سر کی چادر کمر سے باندھی سیدھی کھڑی ہوئی اور لہو ہوتے جگر کے ساتھ بیٹوں کو الوداع کیا۔
مسئلہ یہ تھا کہ یہ ٹنڈو بہاول کا دور دراز کا گاؤں تھا اور تب دریائے سندھ کے اس کنارے پر قتل ہونے والوں کی ویڈیو بنانے کے لیے موبائل کیمرہ نہیں آیا تھا، ملک اور سندھ بھر میں خبر چلی کہ دشمن کے ایجنٹ مار کر ملک کو بڑے نقصان سے بچا لیا گیا جس جس نے پڑھا سُنا اس نے شکر کیا ، جب سارا ملک شکرانہ ادا کر رہا تھا تب مائی جندو نے احتجاجی چیخ ماری۔
اس چیخ نے پرنٹ میڈیا کی سماعتیں چیر کے رکھ دیں، مائی جندو بوڑھی تھی جسمانی لحاظ سے کمزور مگر وہ تین مقتولوں کی ماں تھی اس نے طاقت کے مرکز سے جنگ کا فیصلہ کیا اور اپنی دو بیٹیوں کو ساتھ لے کر قاتلوں کے خلاف اعلان جنگ کر دیا، سوشل میڈیا کی غیر موجودگی میں یہ جنگ آسان نہ تھی مگر نقارے بج چکے تھے کشتیاں جل چکی تھیں اور واپسی محال تھی۔
اخباروں اور صحافیوں کے ہمراہ مائی جندو نے اس چیخ کو طاقتی مراکز کے سینوں میں گھونپ دیا، پہلی جھڑپ ختم ہوئی اور گرد چھٹی تو معلوم ہوا کہ قتل ہونے والے دہشت گرد نہ تھے بلکہ میجر ارشد جمیل کا ان کے ساتھ زرعی زمین کا جھگڑا تھا، جس کی سزا میں انہیں قتل ہونا پڑا تھا،
چوبیس24 جولائی 1992 کو جنرل آصف نواز اور نواز شریف نے ملاقات کی اور جنرل آصف نواز نے میجر ارشد جمیل کا کورٹ مارشل کرنے کا حکم دیا، 29 اکتوبر کو فیلڈ جنرل کورٹ مارشل نے میجر ارشد جمیل کو سزائے موت اور 13 فوجی اہلکاروں کو عمر قید کی سزا سنائی۔
میجر نے پاک فوج کے سپہ سالار کو رحم کی اپیل کی جو 14 ستمبر 1993 کو مسترد ہوئی، اس کے بعد رحم کی اپیل صدر فاروق لغاری سے کی گئی جو 31 جولائی 1995 کو مسترد تو کی گئی لیکن سزا پر عمل درآمد روک دیا گیا، اس کے بعد میجر ارشد جمیل کے بھائی کی اپیل پر سپریم کورٹ کے جج سعید الزمان صدیقی نے حکم امتناع جاری کیا اور سزا روک دی۔
سزائے موت پر عمل نہ ہونے پر 11 ستمبر 1996 کو مائی جندو کی دو بیٹیوں نے حیدرآباد پریس کلب کے سامنے جسم پر تیل چھڑک کر خود سوزی کر لی، ان کو نازک حالت میں ہسپتال لے جایا گیا مگر وہ بچ نہ سکیں۔ بالآخر 28 اکتوبر 1996 کو طاقت کی دیوار مائی جندو کے مسلسل دھکوں کے سامنے ڈھیر ہوگئیں۔
یہ حیدر آباد سنٹرل جیل تھی جب مائی جندو کو پھانسی گھاٹ لایا گیا،سامنے تختہ دار پر اس کے گاؤں کے 9 بیٹوں کا قاتل کھڑا تھا۔ دار کا تختہ کھینچا گیا تو قاتل میجر کا جسم دار پر جھول گیا عین اسی وقت سامنے کھڑی مائی جندو کی بوڑھی مگر زورآور آنکھ سے ایک اشک نکلا اور اس کے رخسار کی جھریوں میں گُم ہوگیا۔
♠