منیر سامی
گزشتہ ہفتہ کینیڈا ، اور دنیا بھر میں ایک اٹھارہ سالہ سعودی لڑکی ’رھف محمد‘ کی آزادی کی داستان اور بالآخر کینیڈا میں اس کی پناہ گزینی کا چرچا رہا اور جاری رہے گا۔ سعودی عرب دنیا بھر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے۔ وہاں شہری آزادیوں پر طرح طرح کی انسانیت سوز قدغنیں ہیں ۔ بالخصوص وہاں کی خواتین مردوں کی املاک جانی جاتی ہیں۔ اس کی صرف آسان ترین مثال یہ ہے کہ انہیں گھر سے نکلنے تک کے لیے کسی مرد سے جو اُن کا شوہر، بھائی، باپ، یا کوئی مرد رشتہ دار ہو ، اجاز ت لینا ضروری ہے۔ اسی طر ح نہ تو وہ پاسپورٹ بنوا سکتی ہیں ، اور نہ ہی کسی غیر ملک کا سفر محرم کے بغیر یا اپنے کسی کفیل کی اجازت کے بغیر کر سکتی ہیں۔
بہت ممکن ہے کہ آپ کو وہ غیر سعودی لوگ جنہوں نے سعودی عرب میں ملازمت اور کاروبار وغیرہ کے ذریعہ مال کمایا ہے ، آپ کو بتائیں کہ وہاں خواتین کو بہت آزادی ہے، اور یہ مثال دیں کہ وہاں تو اب لڑکیا ں ملازمتیں وغیرہ کرتی ہیں۔ ایسی قیاس آرائی کرنے والے آپ کو یہ کبھی نہیں بتایئں گے کہ وہاں تعلیم حاصل کرنے اور ملازمت حاصل کرنے کے لیئے بھی مرد کی اجازت لازمی ہے۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ سعودی عرب میں خواتین کی آزادی کی گواہیاں آپ کو ایسی پاکستانی اور مسلمان خواتین دیتی نظر آئیں گی جنہوں نے کبھی خود سعودی خواتین یا سعودی خاندانوں سے کوئی تعلق نہیں رکھا۔ معدودے چند وہ خواتین ہو سکتی ہیں جن کے شوہر سعودی عرب میں اعلیٰ عہدوں پر بین الاقوامی اداروں میں ملازم ہوں اور جو کبھی کبھار اسی قسم کے اداروں میں خال خال ملازم سعودی گھروں میں مہمان بلائے گئے ہوں۔ ان کی دی گئی کوئی بھی مثال عین استثنائی ہوگی، جو حقیقتِ عام نہیں ہے۔
گزشتہ دنوں اس سعودی لڑکی کے اپنے ماں باپ کے چنگل سے نکل کر غیر ملک میں پناہ حاصل کرنے کی خبروں کے بعد اس طرح کی قیاس آرایئاں پھیلی تھیں۔ یہ لڑکی اپنے باپ اور بھائی کے ہاتھوں تشدد اور زیادتیوں کا شکار ہوئی تھی۔ ایک دفعہ صرف اپنے بال ترشوانے کے جرم میں اس کو چھ ماہ تک گھر کے ایک کمرے میں بند کیا گیا۔ اس ماہ، ماں باپ کے ساتھ کویت کے ایک سفر کے دوران اسے خاموشی سے ایئر پورٹ جاکرآسٹریلیا کے لیے تھائی ایئر کی ایک پرواز میں سوار ہونے کا موقع ملا۔ اس نے یہ اقرار کیا ہے کہ وہ کئی ماہ سے سوشل میڈیا پر ایسی کئی سعودی خواتین سے مشورہ کرتی رہی تھی جو اس ہی کی طرح کسی طرح سعودی عرب سے نکل گئی تھیں۔ آسٹریلیا کا ویزا بھی اس نے اسی طرح خاموشی سے حاصل کیا تھا۔
اطلا عات کے مطابق اس کا باپ محمد القنونؔ سعودی عرب میں ایک ضلع کا گورنر ہے۔ جس کے ہاتھ بہت لمبے ہیں۔ جب رھف محمد بنکاک پہنچی تو وہاں پہلے سے سعودی افسران موجود تھے جو اس کے باپ کی شکایت پر حرکت میں آئے تھے۔ انہوں نے تھائی افسروں کے ساتھ مل کر اس کا پاسپورٹ چھین لیا اور کہا کہ اسے سعودی عرب واپس بھیج دیا جائے گا۔ اور اسے اس اثنا میں ایئرپورٹ پر ہی ایک ہوٹل میں نظر بند کردیا گیا۔
اس لڑکی نے حاضر دماغی سے کام لے کر ٹوئٹر پر بہت ہی قلیل تعدا د میں موجود اپنے دوستوں کو اطلاع دی جنہوں نے بات کو پھیلادیا ، جو جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ یوںانسانی حقوق کے عمل پرست اداروں نے یہ مسئلہ اقوامِ متحدہ کے پناہ گزینوں کے دفتر پر بھی دباو ڈالنا شروع کر دیا۔ جب یہ خبر ساری دنیا میں پھیلی تو تھائی حکومت نے جو غیر ملکیوں کی سیاحت پر بڑا انحصار کر تی ہے اپنا موقف تبدیلی کرتے ہوئے سعودی دباو کے باوجود رھف ؔمحمد کو اقوام ِ متحدہ کی پناہ میں دے کر اس کا پاسپورٹ واپس کرد یا۔
ان کا یہ بیان اہم ہے کہ،” ہم مسکراہٹوں کے حامل لوگ ہیں ،اور کسی بچی کو قتل ہونے کے لیے اس کے ملک جانے پر مجبور نہیں کر سکتے“۔
رھفؔ پہلے آسٹریلیا جانا چاہ رہی تھی لیکن وہاں کی حکومت نے اس کی پناہ گزینی کی درخواست کو عام طریقہ پر مکمل کرنا چاہا جس میں کئی ہفتہ یا مہینے لگ سکتے تھے۔ اس اثنا میں اس کا باپ اور بھائی بنکاک پہنچ گئے۔ یوں یہ ایک ہنگامی معاملہ بن گیا، جس پر کینیڈا کی حکومت نے فوری فیصلہ کرکے رھفؔ کو کینیڈا میں پناہ دے دی، اس کا اعلان اس وقت کیا گیا جب وہ تھائی لینڈ سے کینیڈا کی پرواز میں اڑ چکی تھی۔ کینیڈا پہنچنے پر وہاں کی وزیرِ خارجہ نے خود اس کا استقبال کیا۔اور دیگر فلاحی اداروں اور انسان دوستوں نے اس کی مالی مدد کی مہم چلادی۔
ایک طرف تو کینیڈا کے شہری عام طور رھف کو کینیڈا میں پناہ دینے کی پذیرائی کر رہے ہیں۔ دوسری طرف سازشی ذہنیت رکھنے والے اسے کینیڈا کی ایک سیاسی چال قرار دے رہیں۔ گزشتہ کئی ماہ سے سعودی عرب اور کینیڈا میں انسانی حقوق کی ضمن میں چپقلش چل رہی ہے۔ کینیڈ ا کی وزیرِ خارجہ سعودی حکومت کو وہاں انسانی حقوق کی پامالی پر ٹوکتی رہی ہیں۔ جس پر ناراض ہو کر سعودی عرب نے اپنا سفیر واپس بلا لیا ہے اور کینیڈا کے سفیر کو اپنے ملک سے نکال دیا ہے۔
حال ہی میں کینیڈا نے صحافی جمال خاشقجی ؔ کے قتل پر بھی سعودی عرب کو سخت سست کہا ہے۔ معترضین یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ایک طرف تو کینیڈا رھفؔ محمد کے بارے میں ہنگامی کاروایئاں کر رہا ہے ، لیکن دیگر پناہ گزینوں کے مقدمات سست روی سے چلاتا ہے، اور جانے کتنی ہزار خواتین مدد کی طلب گار ہیں جن کی کوئی پرسش نہیں ہے۔
ہمارے خیال میں یہ نہایت کمزور شکایتیں ہیں۔ کینیڈا نے گزشتہ دنوں چالیس ہزار کے قریب شامی اور عراقی پناہ گزینوں کا خیر مقدم کیا۔ اور اسی طرح جائز درخواست دینے والوں کو اولین مراعات دیتا ہے۔ کیا اس میں بہتری ہو سکتی ہے؟ بالکل ہو سکتی ہے۔ مثئلاً کینیڈا یہاں آنے والے سالانہ تقریبا ڈھائی لاکھ تارکین ِ وطن کے کوٹا میں ایک تعداد جو دس ہزار سالانہ بھی ہو سکتی ہے ان خواتین کے لیے مختص کرسکتا ہے جو اپنے ممالک میں ظلم کا شکار ہیں۔
ہم جہاں بھی ممکن ہو گا یہ مطالبہ کرکے اسے کینیڈا کے پالیسی سازوں تک پہنچانے کی کوشش کریں گے۔ اس کے ساتھ ہم کینیڈا سے یہ مطالبہ بھی کریں گے کہ وہ سعودی عرب کو ہتھیاروں کی فراہمی کے اربو ں ڈالر کے ٹھیکے منسوخ کر دے۔
ہمیں فخر ہے کہ ہم کینیڈا کے شہری ہیں اور کینیڈا سے جب جب بھی ممکن ہوتا ہے، وہ انسانی حقوق کے معاملہ میں اپنی ہم پلہ دیگر اقوامِ عالم سے بڑھ کر اپنا فرض ادا کرتا ہے۔