نوشی بٹ
دو دن ہو چکے ہیں لکھنے کے لئے نوٹ پیڈ کھولتی ہوں،مگر الفاظ ہی گم ہو جاتے ہیں۔ ذہن جیسے خالی سلیٹ۔فیس بک کھولتی ہوں تو ان بچوں کی تصویریں سامنے آتی جاتی ہیں۔دل بیٹھ سا جاتا ہے۔بہت ہمت کی کہ چونگی امر سدھو تک تو جا ہی سکتی ہوں۔چلی جاتی ہوں،مگر بنا ماں باپ کے بچوں کو ملنے یا دیکھنے کی ہمت نہیں جتا پائی۔اس کے لئے شاید ہمیشہ گلٹی رہوں گی مگر یہ اس درد سے کم ہی ہو گا جو ان بچوں کو ملنے سے ملتا۔
میں کیوں اتنی حساس ہوں کہ دن میں کئی بار پھوٹ پھوٹ کے روئی۔رونے میں اس بات کا خیال بھی رکھا کہ بچے روتے ہوئے نہ دیکھ لیں۔کیونکہ بچوں کے نزدیک میں بہادر ہوں،تو بہادری بھی تو دکھانی ہی تھی۔
والدین کے بنا بچوں کی زندگی کیا ہوتی ہے،مجھ سے بہتر کون جان پائے گا۔میں جسے بہت سے القابات ملتے رہتے ہیں،کبھی بہادر،کبھی مغرور اور کبھی منہ پھٹ۔مگر بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ میں بروکن فیملی چائلڈ ہوں۔اب جب ماں باپ سر پہ نہ ہوں تو رشتے دار کیا سلوک کرتے ہیں مجھے تو آج تک نہیں بھول سکا۔
سوچتی ہوں جب ان بچوں کو اپنے عہد کے کپڑے پسند نہ آئیں گے تو یہ کس سے ضد کریں گے۔کبھی سوچتی ہوں کہ میتھ کے سوالات نہ آئیں گے تو کس کے پاس کاپی اٹھا کے بھاگیں گے۔ذہن کے پردے پہ یہ بھی چلتا ہے کہ بچیوں کے سر میں پڑی جوؤں کو کون صاف کرے گا۔
فرمائشی کھانے اور جھوٹی موٹی کی ناراضگیاں دکھانے کے لئے وہ کس کا منہ تکیں گے۔یہ بھی ممکن ہے کہ پالنے والے اپنے بچوں کو تو تازہ روٹی کھلا دیں مگر ان کو رات کی بچی روٹی کھانی پڑے۔ہو سکتا ہے تینوں بچوں کو ایک ہی گھر میں کوئی رکھے بھی یا نہیں۔ممکن ہےالگ الگ فیملی میں ان کو بانٹ دیا جائے،اور جب بہن بھائی کو بانٹا جائے تو دل پہ کیا بیتتی ہے یہ بھی مجھ سے بہتر کون جانتا ہے۔
رات کو سوتے میں جب دیواروں پہ ڈراؤنی شکلیں بنتی ہیں تو کتنا ڈر لگتا ہے،مگر اس سے زیادہ ڈر اس بات سے لگتا ہے کہ آپ ماموں،خالہ یا چاچوکو ان شکلوں کا بتانے نہ جا سکیں۔کیونکہ والدین کے پاس تو بنا ڈرے بھاگا جا سکتا ہے مگر دوسرے رشتے آپ کو خودبخود محتاط کر دیتے ہیں۔
سوچ کے بولنا اور ڈر کے ساتھ رہنا جو ملے کھا لینا،جو ملے پہن لینا جہاں جگہ ملے سو جانا۔سچ میں وقت سے پہلے بڑے ہونے کا دکھ بہت برا ہے۔
سی ٹی ڈی نے مارا پہلے اور سوچا بعد میں اور کون جانے کچھ سوچا بھی کہ نہیں۔دہشت گردوں کی کمر توڑتے توڑتے اپنے ہی بچوں کو یتیم کرنے پہ آ گئے۔کہا جاتا ہے کہ کوئی مر جائے تو صبر آ جاتا ہے۔
مگر ان بچوں کو تو ساری عمر صبر نہیں آنا۔فیڈر پکڑے معصوم بچی کی آنکھیں جس حیرانگی،خوف اور سوالیہ نظروں سے دیکھ رہی ہیں میرا نہیں خیال کہ یہ سوال کبھی ان تین بچوں کو سکون سے جینے دے گا کہ آخر ان کا قصور کیا تھا۔
آخر میں تو بس یہی کہنا چاہوں گی کہ کوئی بھی کام کرنے سے پہلے ڈبل چیک کرنے کی عادت اچھی ہوتی ہے۔ادارے بھی اس پہ عمل کر لیں تو شاید کوئی بے گناہ بچ جائے اور دہشت گرد پکڑے جائیں اور وقت سے پہلے بچوں کو بڑا نہ ہونا پڑے۔