منیر سامی
شمالی امریکہ کے شہری آج کل صبح و شام ایک دیوار کی خبروں میں مقید ہیں۔ قصہ یوں ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ؔ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران عوامی نعرہ بازی میں یہ اعلان کر دیا کہ وہ امریکہ میں تارکین وطن کا مسئلہ حل کرنے کے لیئے امریکہ اور میکسیکو کی سرحد پر ایک سینکڑوں میل لمبی دیوار کھڑی کر دیں گے۔ تاکہ وہ مفلوک الحال تارکین وطن جو لاطینی امریکہ کے پس ماندہ ممالک سے خوش حالی کے سبز باغ دیکھتے غول در غول امریکہ کا رخ کرتے ہیں، غیر قانونی طور پر امریکہ میں داخل نہ ہوں پایئں۔ انہوں نے یہ نعرہ بھی لگایا کہ وہ اس دیوار کی تعمیر کی رقم میکسیکو سے وصول کریں گے۔ان کے ماہرین نے کوئی ڈھائی تین سو میل کی اس دیوار کا تخمینہ پانچ ارب ڈالر سے زیادہ لگایا۔
منتخب ہونے کے بعد انہیں جلد ہی پتہ چل گیا کہ وہ ایسا نہیں کر پائیں گے۔ سب سے پہلے تو میکسیکو نے اعلان کر دیا کہ وہ اس ضمن میں ایک پائی دینے کا بھی ذمہ دار نہیں۔ دوسری طرف یہ حقیقت بھی صدر ٹرمپ کے آڑے آئی کہ وہ کسی بھی بڑے خرچہ کے لیے امریکی کانگریس کے محتاج ہیں، اور کوئی من مانا خرچہ نہیں کرسکتے۔ ستم ظریفی یہ کہ خود اس کانگریس نے جس میں ان کی اپنی جماعت کی تقریباً دو سال تک برتری تھی،یہ رقم منظور کرنے سے انکار کر دیا ۔
اور اب گزشتہ ماہ کانگریس کا کنٹرول ان کی مخالف جماعت کے پاس چلا گیا جس نے ببانگَ دہل یہ اعلان کردیا کہ وہ صدر کو دیوار کے نام پر ایک پائی بھی نہیں دیں گے۔ گو وہ اس بات پر راضی ہیں کہ سرحدوں کو غیر قانونی تارکین ِ وطن سے محفوظ کرنے کے لیئے مربوط نظام کے لیے بجٹ منظور کر سکتے ہیں، جس میں امریکہ میں تارکین وطن کے قوانین کو بھی جدید کیا جا سکے۔
صدر ٹرمپ نے یہ ماننے سے انکار کر دیا اور چونکہ دیوار کی رقم سرکاری اخراجات کے بجٹ سے جوڑی گئی تھی، سو انہوں نے ضد میں آکر کئی حکومتی ادارے بند کر دیئے، جس کے نتیجہ میں تقریباً آٹھ لاکھ وفاقی ملازمین کی تنخواہ بند ہوگئی اور انہیں تقریباًتیس دن مفت میں کام کرناپڑا۔ اس کا ایک خطرنک رخ یہ بھی تھا کہ امریکہ میں فضائی سفر کو خطرے لاحق ہو گئے۔ نیویورک کے ہوائی اڈہ لا گارڈیاؔ کو ایک دن کے لیئے بند کیا گیااور امکان تھا کہ اور ہوائی اڈے بند ہو جایئں گے۔
اس کے نتیجہ میں صدر کو مجبور ہو کر کانگرس سے مصالحت کرنا پڑی، اور حکومت عارضی طور پر آٹھ فروری تک کھول دی گئی، تاکہ صدر اور کانگرس مشاورت سے اس معاملہ کا کوئی پائدار حل تلاش کر سکیں۔ ساتھ ہی ساتھ صدر نے یہ دھمکی بھی دے دی کہ اگر ان کی بات نہ مانی گئی تو وہ ہنگامی حالت کا علان کر کے کہیں سے پانچ ارب ڈالر نکال لیں گے ۔ ماہرینِ آئین کا کہنا ہے کہ اس پر ان کے خلاف عدالتی دعوے کیے جا سکتے ہیں۔ امریکہ کے شہری ابھی کئی دن اس خلجان اور مخمصہ میں رہیں گے۔امریکہ میں اس دیوار کے مخالفین کا کہنا ہے کہ سرحدو ںپر دیواریں کھڑی کرنا ، قدیم زمانے کی جہالتوں کی بات ہے۔ اس میں شاید کچھ حقیقت بھی ہو۔
اب سے پہلے دیواریں ملکوں اور شہروں کو دشمنوں سے محفوظ کرنے کے لیئے کھڑی کی جاتی تھیں۔ جس کی سامنے کی مثال ہزاروں سال پہلے بنائی گئی دیوارِ چین تھی جو شمال مغرب سے آنے والے غول در غول حملہ آوروں سے روکنے کے لیئے بنائی گئی تھی۔ یہ تقریباً تیرہ ہزار میل لمبی ہے۔ اس کے علاوہ تاریخ دیواروں ، شہر پناہوں، اور قلعوں سے بھری ہوئی ہے۔ اول اول تو یہ دیواریں دشمنوں کو روکنے کے لیئے بنائی گئی تھیں پھر یہ دیواریں ملکوں کے درمیاںسفر کو روکنے اور شہروں اور ملکوں کو تقسیم کرنے کے لیئے کھڑی کی جانے لگیں۔
جس کی سامنے کی مثال دیوار برلن کی دیوار تھی جس کا بنیادی مقصد مشرقی اور مغربی جرمنی کے لوگوں کے باہمی اختلاط کو روکنا۔ مشرقی جرمنی سے مغربی جرمنی کی طرف پناہ لینے کی کوشش میں اس دیوار کو عبور کرتے وقت یہاں کئی لوگ ہلاک کیے گئے۔ جب روس اور مغربی دنیا میں مفاہمت ہوئی تو یہ دیوار بڑے جشن سے گرائی گئی۔ ایک اور ایسی ہی دیوار قبرص میں ہے۔ جو وہاں کے ترک اور یونانی نژاد باشندوں کے باہمی تنازعہ میں قبرص میں یونانیوں کے ایما پر کی گئی بغاوت کے بعد ترکی کے حملہ کے نتیجہ میں کھڑی ہوئی۔ جنہوں نے یہ دیوار دیکھی ہے انہوں نے اس کا، محلوں ، گلیوں ، مسجدوں،گرجوں ، اور گھرو ں کو دو لخت کرنا یا د ہوگا۔
اس طرح کی دیواریں صرف اینٹ اور پتھر کی بنی ہوئی نہیں ہیں۔ بلکہ اب دیوار کا استعارہ اب ہر اس قدغن اور حد بندی پر لاگو ہوتا ہے جو باہمی اختلاط کو روک سکے۔ چاہے یہ امیروں اور غریبوں کے درمیان ہو، دشمنوں کے درمیان میں ہو، یا پر امن شہریوں کے درمیان۔ ابھی حال ہی میں بنگلہ دیش کی سرحد پر، اور بھارت اور پاکستان کی سرحد پر ، شمالی جنوبی کوریا کی سرحد پر ، اورایسے ہی بے شمار علاقوں میں یہ دیواریں کھڑی کی گئی ہیں ۔
ہم نے یہاں ان فصیلوں کو ذکر نہیں کیا، جس کے بارے میں فیض نے لکھا تھا کہ ــ’’ یہاں سے شہر کو دیکھو تو حلقہ در حلقہ ، کھنچی ہے جیل کی صورت ہر ایک سمت فصیل ۔ نہ ہم نے زنداں کی دیوار کے بارے میں لکھا ہے جس پر ہم اپنا ایک شعر نہایت انکسار سے پیش کرتے ہیں، ’’ اس نے تو تنہائی کا دکھ بانٹا ہے۔۔۔زنداں کی دیوار سے نفرت مت کرنا‘‘۔ نہ ہم اس دیوارِ گریہ کا ذکر کر رہے ہیں جس کو لپٹ کر یہودی اپنے معبدِ سلیمانی کے چھن جانے کے دکھ میں ہزاروں سال سے رو رہے ہیں۔ نہ ہی اس دیوار کا ذکر کر رہے ہیں جس کے بارے میں میر نے لکھا تھا کہ، ’’ہوگا کسی دیوار کے سائے میں پڑا میرؔ۔۔ کیا کام محبت سے اس آرام طلب کو۔
شاید آپ کے ذہن میں یہ خیال بھی آئے کہ آج کے دور میں اور آج کی دنیا میں جس کے لیے مارشل مکلوہن نے ’’عالمی گاوں ‘‘ یا Global Village کا استعارہ استعمال کیا تھا، دیواریں کیوں اٹھ رہی ہیں۔ سو مارشل مکلوہن نے یہ بھی کہا تھا کہ ابلاغ کی تکنیک میں معکوسی ترقی کے بعد انسانی تنازعات میں اضافہ ہوگا۔ جو اب ہم دیکھ رہے ہیں۔
♦
One Comment