ایک سال کے اندر اندر بھارت نے دوسرا سرجیکل سٹرائیک کیا ہے ۔ یہ سٹرائیک اصل میں جواب ہے جیش محمد کے پلوامہ کے مقام پر فوجی بس پر حملے کا جس میں چالیس سے زائد فوجی جوان ہلاک ہوگئے تھے۔یاد رہے کہ اس سے پہلے بھی جیش محمد نے بھارتی کشمیر میں اڑی سیکٹر پر حملہ کیا تھا جس کے جواب میں بھارت نے پہلا سرجیکل سٹرائیک کیا تھا۔
بھارتی طیارے پاکستانی حدود میں تقریباً تیس منٹ تک رہے کاروائی کی اور واپس چلے گئے۔ بین الاقوامی طاقتوں نے اس حملے کی مذمت نہیں کی بلکہ دونوں ممالک کو تحمل اور بردباری سے معاملات حل کرنے اور دہشت گرد ی کے خاتمے کا کہا ہے۔ جس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ پاکستان سفارتی طور پر تنہا ہو چکا ہے۔
ابھی چند دن پہلے ہی واشنگٹن میں ڈان کے نامہ نگار پاکستان میں آزادی اظہار رائے کے سیمنیار میں بتا رہے تھے کہ امریکی صدر ٹرمپ نے ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہو سکتا ہے بھارت پاکستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنائے۔جس کا مطلب ہے کہ اگر ایسا ہوتا ہے تو امریکہ کو معلوم ہے اور اسے امریکہ کی حمایت بھی حاصل ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس خبر پر ہیڈ لائن بن سکتی تھی مگر یہ خبر دبا دی گئی اور ڈان میں بھی کسی کونے کھدرے میں شائع ہوئی تھی۔
بھارت کا ایک ہی حملہ پاکستان کے دہشت گردوں اور امن پسندوں کو ایک پیچ پرلے آیا ہے۔اور ٹوئٹر پر موجود مسلم لیگی رہنماوں کو بھی یک دم خلائی مخلوق اچھی لگنی شروع ہو گئی ہے۔
یاد رہے کہ بھارت کا حملہ پاکستانی ریاست کی دہشت گردوں کی مسلسل سرپرستی کی بدولت ہوا ہے۔ اگر آج پاکستانی ریاست دہشت گردوں کی سرپرستی بند کردے تو یہ خطہ پرامن ہو جائے گا۔
پاکستانی قوم کے امن پسند بھارتی حملہ کی مذمت کر رہے ہیں۔ یہ ساحر لدھیانوی کی نظم بھی جھاڑ پونجھ کر نکال لائےہیں ۔لیکن ان امن پسندوں نے کبھی بلوچستان کے نہتے عوام اور ان کی آبادیوں پر بمباری کی مذمت نہیں کی جس میں کئی بستیاں اورسینکڑوں افراد ہلاک ہوجاتے ہیں ۔ یہ امن پسند اس وقت کہاں ہوتےہیں جب پاکستانی طیارے فاٹا میں دہشت گردوں کے خلاف فوجی آپریشن کر تے ہوئے ان کے قصبے اور آبادیاں تہس نہس کر دیتے ہیں ۔
آج ڈی جی آئی ایس پی آر جنرل غفور فرماتےہیں کہ اگر بھارت نے ۳۵۰ دہشت گردوں کو قتل کرنے کا دعویٰ کیا ہے تو کم ازکم بیس افراد کے جنازے ہی دکھا دے۔ جب یہی بات پاکستانی اور غیر ملکی صحافی پاک فوج کے ترجمان سے کرتے کہ شمالی یا جنوبی وزیرستان میں آپ سینکڑوں دہشت گردوں کے خاتمے کا دعویٰ کرتے ہیں تو کم ازکم ان کی لاشیں تو دکھا دیں تو وہ کوئی جواب نہیں دیتے۔
ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اس خطے میں جنگ لشکر طیبہ ، جیش محمد اور حزب المجاہدین نے شروع کررکھی ہے جس کی سرپرستی پاکستانی ریاست کرتی ہے۔ بھارت اتنا بے وقوف نہیں کہ اپنی ترقی کرتی ہوئی معیشت کو جنگ کی نذر کرے۔ دوسروں کو لعن طعن کرنے سے پہلے ہمیں اپنے گھر کا جائزہ لے لینا چاہیئے۔
اگر پاکستان کے امن پسند عوام واقعی اس خطے میں امن چاہتے ہیں تو اپنے ریاستی اداروں سے یہ مطالبہ کریں کہ وہ مذہبی انتہا پسند اور ان کے لشکروں کی سرپرستی بندکریں اور ان کا خاتمہ کریں ۔ پاکستان کو نہ صرف ایک سیکولر ریاست بننا ہوگابلکہ پاکستان کی فوج کے سائز کو کم کرنے کے ساتھ ساتھ تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کو تلف کرنا ہوگا۔
♦