سعودی عرب اور بھارت نے دہشت گردی کوانسانیت اور آئندہ نسلوں کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیتے ہوئے اس کے خاتمے کے لیے مشترکہ کوششوں کا عزم ظاہر کیا ہے تا کہ دہشت گردوں اور ان کے حامیوں کو کیفرکردار تک پہنچایا جا سکے۔
دونوں ملکوں نے دہشت گردی کو ناکام بنانے اور اس خطرے سے مؤثر انداز میں نمٹنے کے علاوہ دہشت گردی کی کسی بھی صورت میں حمایت کرنے والے ممالک پر ہر ممکن دباؤ ڈالنے پر بھی اتفاق کیا۔
بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع پلوامہ میں گزشتہ ہفتہ کیے گئے دہشت گردانہ حملے کے پس منظر میں نئی دہلی کے دو روزہ دورے پر آئے ہوئے سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلطان اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے باہمی تبادلہ خیال کے بعد بدھ بیس فروری کو ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب بھی کیا۔
پرنس محمد بن سلمان نے کہا، ’’جہاں تک دہشت گردی اور انتہا پسندی کا سوال ہے، یہ ہمارے دونوں ممالک کے لیے یکساں طور پر تشویش کا باعث ہے۔ ہم اپنے دوست بھارت کو بتانا چاہتے ہیں کہ ہم اس سلسلے میں ہر طرح کا تعاون کریں گے، چاہے وہ خفیہ اطلاعات کا تبادلہ ہو یا دیگر اقدامات۔ ہم آنے والی نسلوں کے محفوظ مستقبل کو یقینی بنانے کے لیے مل کر کام کریں گے‘‘۔
اس موقع پر وزیر اعظم نریندر مودی کا کہنا تھا، ’’گزشتہ ہفتہ پلوامہ میں جو انسانیت سوز دہشت گردانہ حملہ کیا گیا، وہ دنیا کو لاحق اس انسانیت دشمن خطرے کا ایک اور ناقابل تردید ثبوت ہے‘‘۔
اس خطرے سے مؤثر انداز میں نمٹنے کے لیے دونوں ممالک کے مابین اس بات پر بھی اتفاق رائے ہو گیا کہ دہشت گردی کی کسی بھی صورت میں حمایت کرنے والے ممالک پر ہر ممکن دباؤ ڈالنے کی ضرورت ہے۔ بھارتی وزیر اعظم مودی نے پاکستان کا نام لیے بغیر مزید کہا، ’’انتہا پسندی کے خلاف تعاون اور اس کے لیے ایک مضبوط حکمت عملی کی بھی ضرورت ہے تاکہ تشدد اور دہشت گردی کی حامی طاقتیں ہمارے نوجوانوں کو گمراہ نہ کر سکیں۔ مجھے خوشی ہے کہ سعودی عرب اور بھارت اس بارے میں مشترکہ موقف رکھتے ہیں‘‘۔
پاکستان میں موجود مولانا مسعود اظہر کی کالعدم عسکری تنظیم جیش محمد پلوامہ حملے کی مبینہ طور پر ذمہ داری قبول کر چکی ہے۔ اس حملے میں بھارتی نیم فوجی دستوں کے 45 جوان مارے گئے تھے۔
حکومتی ذرائع کے مطابق بھارت اور سعودی عرب کے مابین وفود کی سطح پر ہونے والی بات چیت میں بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال نے پلوامہ حملے سے متعلق جیش محمد نامی تنظیم کے بارے میں ایک ’ورچوئل ڈوزیئر‘ بھی پیش کیا۔ وزیر اعظم مودی نے مغربی ایشیا اور خلیجی ممالک میں امن و استحکام کو یقینی بنانے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اس علاقے میں بھارت کے ستائیس لاکھ باشندے رہتے ہیں۔ اس لیے وہاں امن و خوشحالی دونوں ممالک کے مشترکہ مفاد میں ہے۔ انہوں نے کہا، ’’ہم نے اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں، سمندری سکیورٹی اور سائبر سکیورٹی جیسے شعبوں میں مزید مضبوط دو طرفہ تعاون دونوں ممالک کے لیے سود مند ثابت ہو گا‘‘۔
دونوں ممالک نے سرمایہ کاری، سیاحت، رہائش اور ثقافت نیز میڈیا سے متعلق تعاون کے پانچ معاہدوں پر دستخط بھی کیے۔ بھارتی وزیر اعظم نے کہا کہ ہم نے اپنے اقتصادی تعاون کو نئی بلندیوں پر لے جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ سعودی ولی عہد نے بھارت کے ساتھ اپنے ملک کے تعلقات میں گرمجوشی کا ذکر کرتے ہوئے کہا، ’’سعودی عرب اور بھارت کے تعلقات تاریخ سے بھی قدیم ہیں۔ یہ رشتہ ہمارے خون میں پیوست ہے۔ بہت سے معاملات میں ہمارے مفادات مشترک ہیں۔ زراعت، توانائی، ٹیکنالوجی، سماجی ترقی وغیرہ جیسے موضوعات پر بھی ریاض اور نئی دہلی ایک مشترکہ حکمت عملی اور ایکشن پلان تیار کر سکتے ہیں۔‘‘
بھارت کی اپوزیشن جماعت کانگریس پارٹی نے دہشت گردی کے حوالے سے مودی حکومت کی سفارت کاری کو ناکام قرار دیا ہے۔
DW