اپنے نتھنوں میں باردو اور جلے ہوئے جسموں کی بو اور منہ میں آگ لیے جنگ جب موت کے کندھوں پر سوار کسی بھی معاشرے کا رخ کرتی ہے، تو اپنے پیچھے انسانوں کے کٹے پھٹے جسم، سیاہ ہو چکی لاشیں اور جلی ہوئی زمین چھوڑ جاتی ہے۔
مقبول ملک
اس زمیں پر پھر طویل عرصے تک کچھ بھی نہیں اگتا۔ جنگی طیارے جب بم گراتے ہیں، ٹینک جب گولے اگلتے ہیں اور فوجیوں کی مشین گنیں جب اندھا دھند گولیاں تھوکنے لگتی ہیں، تو موت یہ نہیں پوچھتی کہ بم گرانے والا، گولے برسانے والا اور اندھا دھند فائرنگ کرنے والا رام لال تھا یا عبدالرحیم، یا یہ کہ جو مر گئے، وہ ہندو تھے، مسلم، سکھ یا پھر مسیحی۔
گولی کی کوئی زبان نہیں ہوتی۔ بم پھٹنے سے پہلے یہ نہیں پوچھتا کہ وہ کس پر گرایا جا رہا ہے۔ گولہ باردو بھی سوچنے کی اہلیت سے عاری ہوتا ہے۔ لیکن ان کو چلانے والوں کے اپنے دماغ ہوتے ہیں۔ ان فوجیوں کو حملے یا کسی مسلح پیش قدمی کا حکم دینے والے افسران بھی انہی میں سے ہوتے ہیں، جنہیں اشرف المخلوقات کہا جاتا ہے۔ ان افسروں کے لیے جنگ میں کود جانے کا فرمان جاری کرنے والے سیاستدان بھی انسان ہی ہوتے ہیں۔
وہی سیاسی رہنما جو امن کے دنوں میں ایک دوسرے کو گلے ملتے ہیں، ترقی اور خوشحالی کے بلند بانگ دعوے کرتے ہیں اور پھر کسی نہ کسی واقعے کے بعد جنگی جنون کے ماحول میں کسی نہ کسی مصلحت یا موقع پرستی کی وجہ سے جذباتی ہو کر یہ بھول جاتے ہیں کہ جنگ کوئی بھی ہو، کہیں بھی ہو، کوئی بھی شروع کرے، جنگ کبھی بھی کوئی بھی نہیں جیت پاتا۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان عدم اعتماد اور باہمی کشیدگی کی تاریخ بھی تقریباﹰ اتنی ہی پرانی ہے، جتنا ان دونوں ہمسایہ لیکن حریف ایٹمی طاقتوں کا آزاد اور خود مختار ریاستوں کے طور پر وجود۔ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں پلوامہ حملے کے بعد جن فضائی حملوں میں پہل بھارت نے کی اور جس کا ایک دن بعد پاکستان نے جواب دیا اور دو بھارتی جنگی طیارے مار گرائے، ان کے بعد یہ خطرہ شدید تر ہو گیا تھا کہ یہ دونوں ممالک خود کو ایک بار پھر مکمل جنگ میں جھونک دیں گے۔
پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے بدھ ستائیس فروری کو قوم سے اپنا جو بہت مختصر خطاب کیا، اس میں ان کا یہ کہنا انتہائی دانش مندانہ بات تھی کہ ’بہتر سوچ کی فتح ہونا چاہیے‘ اور ’اگر جنگ شروع ہوئی، تو اسے نہ تو عمران خان روک سکے گا اور نہ ہی وزیر اعظم نریندر مودی‘۔ عمران خان کے اس خطاب کے بعد بھارت کی طرف سے وزیر خارجہ سشما سوراج نے بھی یہ کہہ دیا کہ ’بھارت نہیں چاہتا کہ کشیدگی مزید بڑھے‘۔
جمعرات اٹھائیس فروری کو اسلام آباد میں پاکستانی پارلیمان کے دونوں ایوانوں کا جو مشترکہ اجلاس ہوا، اس سے اپنے خطاب میں پاکستانی وزیر اعظم نے یہ کہہ کر ایک بار پھر اپنے ملک کو کسی نئی جنگ سے دور رکھنے کی سوچ کا عملی مظاہرہ کیا کہ پاکستان بھارتی پائلٹ، ونگ کمانڈر ابھینندن کمار کو، جن کا جنگی طیارہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں مار گرائے جانے کے بعد انہیں حراست میں لے لیا گیا تھا، کل جمعہ یکم مارچ کو رہا کر دے گا۔
یہ پیش رفت اس امید کی وجہ بھی ہے کہ یہی دونوں ممالک موجودہ انتہائی کشیدہ حالات میں کسی نئی جنگ کی طرف جاتے جاتے اس کے دہانے سے واپس لوٹنے لگے ہیں۔ یہ ایک اچھی بات ہے۔ ایسا ہونا بھی چاہیے تھا۔ اس لیے کہ عقلی تقاضا بھی یہی تھا۔ اپنے وطن کی سرزمین کو دھرتی ماتا کہنے والے بھارتی فوجیوں اور اپنے ملک کی مٹی کو مادر وطن کہنے والے پاکستانی سپاہیوں کو یہ بات یاد رکھنا چاہیے کہ زمین اگر ماں ہوتی ہے، تو ماں کا احترام کیا جاتا ہے۔ اس کی مانگ بھری رہنا چاہیے۔ اس کی گود اجڑنا نہیں چاہیے۔ کسی کو بھی اتنا جذباتی نہیں ہونا چاہیے کہ وہ وقتی طور پر طیش میں آ کر اپنی یا اپنے ہمسائے کی ماں کا احترام کرنے کے بجائے ایسا کر گزرے کہ جن ماؤں کے پیروں تلے جنت ہوتی ہے، انہی ماؤں کے جسموں پر گولہ باری اور بمباری کرتے ہوئے ان میں راکھ اور جلے ہوئے بیٹوں کی لاشوں کی بو بیج دی جائے۔
عبدالرحیم کی ماں کے پیروں تلے اگر جنت ہوتی ہے تو رام لال کی ماتا جی کے پیروں تلے سورگ سے بھی انکار نہیں کیا جانا چاہیے۔ جنگ اگر کسی سہاگن کو بیوہ کر دے یا کسی بچے کو یتم کر دے تو ایسی ہر موت متعلقہ معاشرے کے ضمیر پر بوجھ ہوتی ہے اور ان فیصلہ سازوں کے منہ پر طمانچہ بھی جو ماضی سے سبق نہیں سیکھتے اور ہر بار بھول جاتے ہیں کہ کسی بھی جنگ کا کوئی فاتح نہیں ہوتا۔ جنگ اپنے پیچھے صرف جوان لاشیں چھوڑ جاتی ہے، جنہیں کسی شمشان گھاٹ یا قبرستان تک پہنچانے کے لیے پتھر کا کلیجہ چاہیے ہوتا ہے، جس کے بعد یا تو کسی راکھ دان میں کچھ راکھ باقی رہ جاتی ہے یا پھر کسی نئی قبر پر پھول اور ایک کتبہ۔
انڈین ایئر فورس کے ونگ کمانڈر ابھینندن کمار جب واپس بھارت پہنچ جائیں، تو نئی دہلی میں حکمرانوں کو دھرتی ماتا کے جسم کو فوجیوں اور عام شہریوں کی دھجیاں ہو چکی انسانی لاشوں سے داغدار ہو جانے سے بھی بچانا ہو گا۔ بھارت کے ان کسانوں کو بھی اپنے ہی ملک میں انصاف کے ساتھ زندہ رہنے کا پورا حق حاصل ہے، جو غربت، محرومی کے ہاتھوں بے بس اور قرضوں کی واپسی کے قابل نہ رہنے کی وجہ سے ہر سال ہزاروں کی تعداد میں خود کشیاں کر لیتے ہیں۔ اس کے علاوہ انہی حکمرانوں کو دیہی اور پسماندہ علاقوں کے کروڑوں بھارتی بچوں کے لیے بھی اچھی تعلیم کا بندوبست کرنا چاہیے، تاکہ آئندہ نسلیں جنگوں سے، جو کسی کی دوست نہیں ہوتیں، اور بھی دور رہیں۔
ایک کام پاکستان کو بھی کرنا ہو گا، جو دنیا کا ایٹمی ہتھیاروں کا حامل ایسا واحد ملک ہے جو آج تک اپنی آئندہ نسلوں کو پولیو کے ہاتھوں اپاہج ہو جانے سے بچانے میں بھی کامیاب نہیں ہو سکا۔ پاکستان کو پہلے اپنی پولیو کے خلاف جنگ جیتنا ہو گی۔ اس کے علاوہ اسلام آباد کو اس دہشت گردی کے خلاف اپنی داخلی جنگ بھی ہر حال میں ایک کامیاب انجام تک لے جانا ہو گی، جو گزشتہ کئی برسوں کے دوران ہزار ہا پاکستانیوں کی جانیں بھی لے چکی ہے اور کھربوں ڈالر کے اقتصادی نقصانات کا باعث بھی بن چکی ہے۔
پاکستان اور بھارت دونوں کو ہی اپنے سر فخر سے بلند رکھنے کے لیے اپنی اپنی داخلی جنگیں جیتنا چاہییں۔ جنگوں سے تباہ شدہ شہروں اور قصبوں میں ملبے کے ڈھیروں اور فوجی قبرستانوں کے پھیلاؤ سے نفرت کرنے والی دھرتی ماتا اور مادر وطن دونوں یہی چاہتی ہیں۔
DW بشکریہ؛