آمنہ اختر
پاکستان کو مذہب کے نام پر بنے ستر سال ہو گئے ہیں ۔ پاکستان میں بہت سی حکومتیں آئیں انہوں نے ملک کے ذخائر اور عوام کے پیسے کو خوب لوٹا ہے مگر مذہب کی اخلاقیات کا خیال ان کے قریب سے بھی نہیں گزرا۔اور نہ ہی عوام کو اپنے حکمرانوں کا اپنے ساتھ نفرت امیز سلوک کا کبھی خیال آتا ہے ۔ یعنی جمہوریت صرف ملک کے نام کے ساتھ لگانی بس مجبوری تھی ۔
انگریز اور ہندووں کے غیر جمہوری اصولوں سے تنگ آ کر لیڈروں نے مذہب کے نام پر مسلمانوں کو ایک الگ ملک دینے کا عزم تھا اور ان کی صفیں سیدھی کرنے کا ۔یعنی اب تک یہی ثابت کیا گیا ہے کہ مسلمان ہو یا اس کی نسل انہیں ایک مضبوط معاشی اور سماجی جمہوری سسٹم کی ضرورت نہیں ہے ۔ پاکستان کے قیام سے لیکر آج تک بجٹ کا بڑا پیسہ فوج کھا جاتی ہے ۔فوجیوں کو خدا کے فرشتے اور مولویوں کوخدا کے نمائندے کہہ کر ملک کی ساری عوام کو ننگا ناچ نچایا جا رہا ہے ۔
صد افسوس کہ اب تو پاکستان کی عوام بھی سرکار کی پیروی کرنے لگی ہے ۔سوائے جھوٹ ،چوری ،منافقت کے کچھ نظر نہیں آتا ۔جو لوگ پاکستان سے دیار غیر میں آ بسے ہیں ان کی اخلاقیات سے بخوبی اندازہ ہو جا تا ہے کہ وہ کس طرح کی حکومت کے ہاتھوں میں تھے اور وہ کیا بن گئے ہیں ۔
ایک باشعور فرد کی حیثیت سے بہت شرم آتی ہے کہ پاکستان کی ریاست اور شہریوں کا اخلاقی معیار کس قدر گر چکا ہے ۔لوگ لالچ میں اندھے ہیں بات بات پر مظلوم تو بن جاتے ہیں ۔ مگر اپنے فرائض نہ پاکستان میں ادا کیے اور نہ ہی یہاں کر پائیں گے ۔ان کو کھانے پینے کی اشیاہ میں صحت کم مگر مذہب کی پاسداری زیادہ یاد آتی ہے ۔ ان کو جدید تعلیم اور اس کی شعوری کوشش بالکل بھی ہضم نہیں ہوتی ۔ نسل پرستی مذہبی تفریق اپنے ملک سے ذیادہ غیر ملکوں میں زیادہ نظر آتی ہے ۔
سوچتی تھی کہ جمہوریت باہر کے ملکوں سے پاکستان پہنچائی جا سکتی ہے مگر یہ تو اُلٹا ہے جمہوریت اپنی ماں دھرتی سے ہی جنم لےتو نسلیں سنورتی ہیں۔ مگر اپنے ملک اور اپنی جمہوریت جو ملک کے باسیوں اور آنے والی نسلوں کو زندہ جاگتا انسان بناتی ہے وہ کسی دوسرے کی دی ہوئی کے سامنے کچھ اہمیت نہیں رکھتی ۔
مثال کے طور پر چند سالوں پہلے ملالہ کو سکول جاتے ہوئے حملہ کرکے شدید زخمی کر دیا گیا ۔اسے باہر کی جمہوریت نے کافی ہاتھوں ہاتھ لیا پھر چند ٹرسٹ اور فاونڈیشن اور تنظیموں نے پاکستان میں لڑکیوں کی تعلیم کے لئے بہت کوششیں کی مگر تعلیم میں کیا تعلیم دینی ہے اسکا فیصلہ تو پاکستان کی حکومت نے کرنا تھا لہذا اس کا نتیجہ تو سب سامنے ہے۔
اب آسیہ بی بی کا معاملہ لے لیا جائے تو مذہبی نفرت کا کیس تھا آج اس کو چند سالوں کی ذلت اور سزا دے کر اور ایک وزیر کی جان لیکر اسےباہر کی جمہوریت اور انسانی تنظیموں کے دباو میں آ کر رہا کیا گیا ہے تو اس سے دوسرے مذہبی فرقوں کے اختلافات میں کمی تو نہیں ہو گی۔ کون نہیں جانتا کہ پاکستان میں ایک فرقے کے مطابق دوسرے فرقے یا خیالات کے لوگ مسلمان نہیں ہیں۔
پاکستانی بہت سارے بیرونی ممالک میں موجود ہیں ۔وہ زیادہ تر ایسے علاقوں میں رہنا پسند کرتے ہیں جہاں وہ اپنی ذات کی تسکین پا سکیں یعنی جہاں پر انکی مذہبی اور اخلاقیات والی زندگی کی کمی پوری ہو ۔لیکن یہ اخلاقیات جو نفرت دوسروں کے مطلق سیکھاتی ہیں ان کی اپنی تسکین تو ہو جاتی ہے مگر ان کی آنے والی نسلیں جمہوری عمل کو ان ملکوں میں رہ کر بھی نہیں سیکھ پائیں گی ۔
اس لئے تو پاکستان کی اکثریت کبھی بھی غیر ملک میں غیر جمہوری اور نسلی برتری کو ختم ہونی والی تحریکوں میں کارآمد کارکن کے طور پر نہ منوا پائے ہیں اور نہ ہی کر سکیں گے ۔اگر جمہوریت پاکستان کی زمین میں بوئی گئی تب ہی نسلیں سنوریں گی ۔