فن حکمرانی کیا ہے؟ اور آداب حکمرانی کیا ہیں۔ سیاست کیا ہے۔ اور سیاست کی اخلاقیات کیا ہے؟ انسانی تاریخ کے ہر دور میں یہ سولات اٹھتے رہے، اور وقت کے اہل دانش اپنی اپنی فہم و فراست کے مطابق ان کا جواب دیتے رہے۔
قدیم یونان میں جب فلسفیوں نے سیاست اور سیاست دانوں کے لیے رہنما اصول ترتیب دینے شروع کیے تو اس وقت سیاست اور فلسفہ آپس میں گڈمڈ تھے۔ سقراط، ا فلاطون ، ارسطواور دوسرے فلاسفہ نے کثرت سے ان طریقوں پر لکھا یا بولا، جن کے ذریعے سیاست دان یا حکمران درست اور منصفانہ طریقے سے عوام پر حکومت کر سکتے تھے۔ ان فلسفیوں نے حتی المقدورفن حکمرانی اور آداب حکمرانی وضع کرنے کی کوشش کی۔
بعد ازاں سیاست پر لکھنے والے فلسفی اور دانشور ان رہنما اصولوں کو بدلتے زمانے کے تقاضوں کے مطابق ڈھالتے رہے۔ چانکیہ سے لیکر جان لاک تک، نیکولو میکاولی سے ابن خلدوں اور مارکسسٹ دانشوروں تک سب نے اپنے اپنے دور کی سماجی و معاشی حقیقتوں کے پیش نظر آداب حکمرانی اور سیاست کے اخلاقی اصول متعین کیے۔ یہ سلسلہ ہمارے دور تک جاری ہے۔
ہمارے زمانے میں پہنچنے تک اس پر بہت کام ہو چکا ہے۔ اب ہم لوگ جانتے ہیں سیاسی اخلاقیات کیا ہے۔ ذاتی اخلاقیات کیا ہوتی ہے۔ اور ایک شخص جو عوام کی رہنمائی کرنا چاہتا ہے، یا ان پر حکومت کرنا چاہتا ہے، اس کی ذاتی اخلاقیات میں عوامی دلچسبی کیوں ضروری اور اہم ہے۔ اور اب ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ اچھی اور بری اخلاقیات کیاہوتی ہے۔ اور سیاست دانوں کے لیے ضروری ہوتا جا رہاہے کہ وہ اپنے آپ کو اخلاقی ضابطوں اور اصولوں کی روشنی میں چلائیں۔
ہمارے زمانے میں بادشاہ نہیں ہوتے۔ وہ جن کو ظل الہی سمجھا جا تاتھا تھا۔ جو اس زمین پر اپنے آپ کو خدا کے نائب اور عالیجاہ سمجھتے تھے۔ اور جو ان کے من میں آئے کر گزرتے تھے۔ ہمارے زمانے میں حکمران عوامی نمائدے ہوتے ہیں۔ عوام کے منتخب نمائدوں کے لیے اب یہ ضروری ہو گیاہے کہ وہ اس طریقے سے حکومت کریں ، جو درست ہیں، جائز ہیں اور اخلاقی تقاضوں پر پوارا ترتے ہیں۔
کسی عوامی عہدے پرمنتخب ہونے ، یا بسا اوقات وراثت میں ، یا کسی اور طریقے سے اقتدار پر براجمان ہونے کے ساتھ کئی بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں، اور بھاری اختیارات بھی ملتے ہیں۔ سیاست دان کے لیے ووٹ اعتماد کا اظہار ہے۔ چنانچہ سیاست دان کے لیے ضروری ہوتاہے کہ وہ رائے دہندگان کے مفاد کو مقدم جانے، اور ان سے کیے گئے وعدے پورے کرے۔ یہ بات کوئی بلاوجہ نہیں کہ عام طور پر پاکستان میں سیاست دانوں کی دیانت پر شک کیا جاتا ہے۔ اور ان کی اخلاقی اقدار پر سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔ انتخابات کے موسم میں یہ سوالات زیادہ ہی زور پکڑ لیتے ہیں۔ اور عام ووٹر یہ سوال اٹھاتا ہے کہ عوامی عہدہ حاصل کرنے کے اصل مقاصد کیاہیں۔
یہ درست ہے کہ اکثر سیاست دانوں میں عوامی خدمت کا جذبہ اور خواہش ہوتی ہے۔ مگر سیاست دانوں کے روپ میں کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں ، جن کے لیے عوامی خدمت آخری ترجیح ہوتی ہے۔ شہرت، دولت اور طاقت ان کی بنیادی ترجیح ہوتی ہے۔ لیکن زیادہ سیاست دان نا حق بدنام ہوتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں طویل عرصہ آمریت رہی ہے۔ اور جب کبھی جمہوریت آئی بھی تو اس دورمیں کوئی نمایاں تبدیلی نہ لاسکی۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ جمہوریت ایک سلسلہ عمل کا نام ہے جوبہت آہستہ کام کرتی ہے۔ دیر سے برو ئے کار آتی ہے۔ اس میں فوری اور جلدی حل بہت کم ہوتے ہیں۔ آمریت کے دور میں ایک حکم سے کچھ بھی کیا جا سکتا ہے۔ مگر جمہوریت میں آمریت کے بر عکس ایک طے شدہ طریقہ کار ہوتا ہے ، جس کے مطابق چلنا پڑتا ہے۔ کسی تبدیلی کے لیے متعلقہ قانون سازی، کسی عمل کے اسباب نتائج، رائے عامہ اور ردعمل سب کچھ ملحوظ خاطر رکھنا پڑتا ہے۔
چنانچہ سیاست دانوں کی ایک بڑی تعداد عوامی بے صبری اور جمہوریت کی سست رفتاری کے بیچ پھنس کر بدنام اور بے توقیر ہوتی ہے۔ موجودہ حکومت کے ذریعے جو لوگ فوری طور پربڑی تبدیلی دیکھنے کے لیے دم سادھے بیٹھے ہیں، اور ارباب اختیار سے چمتکار یا معجزے کی توقع رکھتے ہیں، ان کی مایوسی ایک فطری امر ہے۔
سیاست دانوں کی بے توقیری کی ایک وجہ ان کی ذاتی زندگی بھی ہے۔ سیاست میں ذاتی زندگی مختلف ممالک میں مختلف انداز میں دیکھی جاتی ہے۔ امریکہ میں سیاست دان کی بے وفائی یا شادی سے باہر جنسی تعلقات عوامی رد عمل اور ان کے استعفے پر منتج ہوتا ہے۔ معاشی بدعنوانی، رشوت یا شفارس وغیرہ تو پورے مغرب اور ترقی یافتہ دنیا میں ایک سنگین جرم تصور کیا جاتا ہے۔ ایسے الزامات کے بعد سیاست دان کو اپنے عہدے سے ہٹنا لازم ہوتا ہے۔
اس کے بر عکس ہم شخصیت پرستی کے روگ میں مبتلا لوگ ہیں۔ بر صغیر پاک و ہند میں تو رہنما کو دیوتا اور مرشد یا کوئی پاکباز ہستی سمجھا جاتا ہے۔ اور ان کی چھوٹی موٹی جنسی لغزشوں پر عموما طوفان کھڑا نہیں کیا جاتا۔
فرانس کی طرح کے ملکوں میں مالی بد عنوانی کو معاف نہیں کیا جاتا، البتہ رضاکارانہ جنسی تعلق کو سیاست دان کا ذاتی معاملہ سمجھاجاتا ہے، بشرطیکہ یہ معاملہ سیاست دان کے فرائض منصبی اور اس کی دیانت پر اثر انداوز نہ ہوتا ہو۔ ان معاملات میں فرانس کے رائے دہندگان سیاست دانوں کی زاتی زندگی کو ان کی عوامی زندگی سے الگ رکھ کر دیکھ سکتے ہیں، اور ان کی عوامی کارگزاری کو ہی ملحوظ خاطر رکھتے ہیں۔
ہمارے ہاں دونوں قسم کے رحجانات پائے جاتے ہیں۔ مالی بدعنوانیوں کی زد میں آئے ہوئے سیاست دان بھی مکمل طور پر عوامی ہمدردی سے محروم نہیں ہوتے۔ نواز شریف مالی بد عنوانی کے سنگین الزامات اور مقدمات کے باوجود عوام میں ایک حد تک اپنی مقبولیت برقرار رکھے ہوئے ہے۔ بار باربڑے جنسی سکینڈل اور الزامات کے باوجود عمران خان کی مقبولیت کے گراف میں کوئی خاص فرق نہیں آیا۔
تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے لوگ مالی بد عنوانی اور جنسی سکینڈل کو برا نہیں سمجھتے یا پھر ان کو ان الزامات کی سچائی پر یقین نہیں ہے۔ وہ اپنے رہنماوں کو دیوتا سمجھتے ہیں ؟ یا پھر اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں ابھی تک سیاسی جماعتوں کو بھی قبیلے ہی سمجھا جاتا ہے۔ جو آپ کے قبیلے میں ہے اس کے سب گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں۔ اس کی کوتاہیوں سے در گزر کی جاتی ہے۔ زات، برادری اور قبیلے کی اندھی طرف داری اپنے تمام تعصبات سمیت ہمارے اندر موجود ہے، جس کو ہم سیای پارٹیوں اور رہنماوں پر بھی لاگو کرتے ہیں۔
ہمارے ہاںیہ بات عام طور پر کہی اور سنی جاتی ہے کہ سب سیاست دان جھوٹے اور بد عنوان ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک سیاست دان کا سچا، قابل اعتماد اور شفاف ہونے کی ضرورت اور مانگ بڑھ گئی ہے۔جمہوری تسلسل، اور آزاد میڈیا اس امر کو یقینی بناتا ہے کہ سیاست دان بدعنوانی سے پرہیز کریں۔
پاکستان جیسے ممالک میں جہاں جمہوریت ابھی بلوغت کے مرحلے تک نہیں پہنچی، اور جہاں غیر جمہوری قوتیں اقتدار کی خاطرجمہوریت پر شبخون مارنے یا اس کو محدود کرنے کے نت نئے طریقے ڈھوندتی رہتی ہیں ، وہاں یہ خیال کہ سیاست دان جھوٹے اور بدعنوان ہوتے ہیں ایک خطرناک سازش ہے، جو دراصل غیر جمہوری قوتوں کا کام آسان بناتی ہے ، اور ان کے لیے راہ ہموار کرتی رہتی ہے۔
مگر اس خوف کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ سیاست دان رائے عامہ کو آمریت پسند قوتوں سے ڈرا کر بار بار ااقتدار کے مزے لوٹتے رہیں۔ اس کے بر عکس عوام کے مفاد میں یہ بات زیادہ ہے کہ وہ دونوں خطرات کو پیش نظر رکھیں، یعنی جمہوریت کو درپیش خطرہ اور اس کے ساتھ ساتھ سیاست دانوں کی بد عنوانی یا نااہلی اور نا لائقی کا خطرہ۔
سیاست دانوں کی نا اہلی اور نا لائقی عوام کے لیے بد عنوانی سے بھی زیادہ جان لیوا ہوتی ہے۔ اس لیے عوام کو چاہیے کہ وہ ان دو عناصر کو سامنے رکھتے ہوئے وہ اپنے ووٹ کامعیار تھوڑا بلند کریں ، اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ وہ ووٹ کے لیے ایسے شخص کا انتخاب کریںجو نااہل یا بد عنوان نہ ہو۔
♥