ولید بابر ایڈووکیٹ
گزشتہ پیر خورشید ندیم صاحب کا کالم “حج سبسڈی” نظروں سے گزرا۔ خورشید ندیم ان چند کالم نگاروں میں سے ہیں جو سماجی موضوعات پر ترقی پسند نکتہ نظر اپناتے ہیں اور مذہب کی عموماً سیکولر تشریح کرتے ہیں۔ اپنی بات خوبصورت انداز میں قارئین تک پہنچانے کا ہنر جاتے ہیں اور زبان پر بھی ملکہ حاصل ہے۔ہم بھی ان کے مستقل قاری ہیں فیس بک پیج پر فالور بھی۔ حج سبسڈی والے کالم میں حسب خلاف ایک “غیر فکری “ انداز اپنایا اور مذہبی فریضہ کو سماجی پہلو کے دیبز پردے میں لپیٹ کر پیش کیا جس سے ہمارے نزدیک فکری مغالطہ کی صورت گری ہوئی۔
خورشید ندیم فرماتے ہیں کہ ایک اچھی حکومت کو اپنی عوام کی معاشی ضروریات کے ساتھ ساتھ سماجی اور معاشرتی ضرورتوں کا بھی اہتمام کرنا چاہیے اس ضمن میں وہ آئینِ پاکستان کے آرتیکل 31 کا ذکر کرتے ہوئے حکومت کے حج سبسڈی منسوخی پر برائے راست تنقید کر کہ سبسڈی بحال کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
جہاں تک حکومت کی ذمہ داریوں کا تعلق ہے تو بجا طور پر حکومت کو تمام بنیادی ضروریات بہم مہیا کرنی چاہیے لیکن سوال یہ ہے کہ آیا بنیادی ضروریات ہیں کون سی؟ کیا مذہبی عقائد’ عبادات اور رسومات بنیادی ضروریات کے زمرے میں آتے ہیں؟ ابتدائی بنیادی ضروریات اور ثانوی بنیادی ضروریات کون کون سی ہیں اور ان میں اولیت و فوقیت کس کو حاصل ہونی چاہیے؟
ہمارے نزدیک موجودہ حکومت کا اگر کوئی درست اقدام ہے تو یہ حج سبسڈی کی منسوخی ہے۔ حج فرض عبادات میں ساکت عبادت ہے تا وقتیکہ کوئی اہل ثروت نہ ہو۔اس لیے حج فرض عبادات کے آخری درجہ میں آتا ہے۔ دوئم اس عہد میں حج (اور عمرہ بھی) فرض عبادت کے بجائے ایک فیشن بن گیا ہے۔
دیکھا دیکھی قرض لے کر جتھوں کی صورت میں حج کا ایسا چلن عام ہوا ہے کے یہ عبادت اب سماجی رتبہ کی حثیت اختیار کر چلی ہے۔ آپکو ایسے بیسوں افراد ملیں گے جہنوں نے بیس تیس حج کیے ہونگے جو ہنوز جاری ہیں مگر ان کے پڑوس میں درجنوں افراد بے گھر’ بے شمار بھوکے ‘ نادار’ بیمار ‘ مفلوک حال ہونگے۔
کہنے والے کہیں گئے کوئی اپنے بیسیوں سے جو مرضی کرے چاہے تو حج کرے چاہے تو مدد! اپنے پیسے کسی کو کیوں دے؟ تو بھیا پھر ہمارے پیسوں سے کوئی ذاتی عبادت بھی کیوں کرے؟ سبسڈی دراصل عوام کا وہ ٹیکس ہے جو حکومت کے پاس جمع ہے اور حکومت عوام کے اجتماعی کاموں کے لیے اپنی طرف سے کچھ پیسہ رعایت کے طور پر دیتی ہے جس سے تمام افراد مستفید ہوتے ہیں۔ مگر حج سبسڈی سے اہل ثروت کے مخصوص افراد مستفید ہوتے ہیں اور کسی غریب ’ نادار ‘ مفلوک حال کے پیسوں سے سیکرٹری’ بیوروکریٹ یا حکمران کا حج کیسے جائز ہو سکتا ہے؟
خورشید ندیم نے آئین پاکستان کے آرٹیکل 31 کا بھی ذکر کیا ہے جس کی رو سے حکومت کا فرض ہے کہ ایسے مواقع فراہم کرے جس سے عوام اپنی زندگیاں مذہبی شعائرکے مطابق بسر کر سکیں۔آرٹیکل 31 سے پہلے کہیں دوسرے آرٹیکل آتے ہیں جو بنیادی حقوق کی ضمانت دیتے ہیں ۔ہمیں قوی امید ہے خورشید ندیم نے آئین پاکستان کے آرٹیکل 3 کا بھی مطالعہ کیا ہو گا جو ہر قسم کے استحصال کے خاتمے کا ضامن ہے نیز آرٹیکل 8 تا 28 کے تحت ہر فرد کی جان’ مال’آبرواور آزادی کا اہتمام ہے۔ ملک کے کسی کونے سے کوئی اغواء ہوتا ہے نہ کوئی بوری بند لاش برآمد ہوتی ہے۔
مذہبی معاملات میں اکثریت جذباتی واقع ہوئی ہے۔ حج سبسڈی پر ایک عام آدمی جو عمر بھر گاؤں سے باہر نہیں گیا آپے سے باہر ہے۔ حکمران طبقات کو عوام کی چھیڑ کا علم ہوتا ہے اس لیے وہ وقتی توجہ مبذول کروانے کے لیے ایسے اقدامات کرتے ہیں۔خورشید ندیم بھی حقیقی بیانیہ کی نسبت مقبول بیانیہ اپنا کر پہلو تہی کر رہے ہیں۔
توجہ مبذولی میں ہی سی حکومت سے ایک اچھا کام سرزد ہو گیا ہے اب ہمارا بھی فرض ہے کے ثانوی بنیادی ضروریات (زکوۃ’حج’ عمرہ’زیارت) کی نسبت ابتدائی ضروریات (رہائش’خوراک’پوشاک’ تعلیم’ صحت روزگار’تفریح وغیرہ) پر سبسڈی بلکہ مفت فراہمی کا موثر مطالبہ کریں جس سے اکثریت مستفید ہو سکے۔
♦